|

وقتِ اشاعت :   June 9 – 2020

یہ بات سو فیصد درست ہے کہ انسان اپنے علم وہنر سے معاشرے میں پہچانا جاتا ہے مگر انسان کی شناخت کی اصل بنیاد اس کا علم و فن ہر گز نہیں ہوتا بلکہ اس کا اخلاق و کردار بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ انسان کی حقیقی عظمت کا تعین اس کے معاملات، زندگی کے طور طریقے اور اس کے عمل سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ اگر ا س کے پاس علم کی درجنوں ڈگریاں موجود ہوں مگر اس کے اخلاق و کردار، انداز و اطوار، عادات و خصائل اور دیگر معاملات زندگی درست نہیں تو ایسے شخص کے لئے علم و فن کا اعلیٰ ترین مقام حاصل کرنا بے معنی ہے۔وہ علم و ہنر حاصل کرنے کے باوجود محرومیوں کے اندھے کنویں میں غوطے لگا رہا ہوتا ہے۔

اس کی مثال ایسے شخص کی طرح ہوتی ہے جو چشمے کے کنارے کھڑا ہو کر اپنی پیاس بجھانے کی کوشش تو کرتا ہے مگر ا س کی بدنصیبی ہے کہ اس کی پیاس ختم نہیں ہوتی۔ کہا جاتا ہے کہ جیسے جیسے انسان عقل و شعور کی منازل طے کرتا جاتا ہے، اس پر علم و آگہی کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں اور دنیا سمٹ کر اس کے قدموں میں آگرتی ہے۔دیکھا جائے تو آج کا دور ترقی کی انتہائی منزل پر ہے اور دنیا مزید ترقی کررہی ہے، ہر میدان میں ایک سے بڑھ کر ایک چیزیں ایجاد ہورہی ہیں۔ ہماری زندگیوں میں اتنی آسائشیں در آئی ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے مگر یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ کیوں نہیں ہورہے۔

مگر ہم اخلاقیات کے معاملے میں اتنے پیچھے چلے گئے ہیں یہاں تک کہ ہم زوال کی گہری گھاٹیوں میں گرتے چلے جا رہے ہیں۔ ملک میں ہر چیز میں بدعنوانی، رشوت، منافقت اور جھوٹ پایاجاتا ہے جومعاشرے کی جڑوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ ان صلاحیتوں کے مالک ہمارے صاحبان اختیار ایوانوں میں بیٹھے ہوئے ہیں اور تو اور ہمارے ا ندر بھی اخلاق برائے نام ہی باقی رہ گیا ہے۔ نہ ہمارے اندر بزرگوں کا احترام رہا، نہ احساس۔ ایمانداری کا تو جیسے ہم مفہوم ہی بھول گئے۔ حلال اور حرام میں فرق کرنا بھی ہمیں اب یاد نہیں رہا۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے درودیوار سے اخلاقی دیوالیہ پن جھلکتا ہے۔ نجانے ہماری وہ مشرقی تہذیب و روایات جن کے ہم امین کہلایا کرتے تھے، وہ کہاں دفن ہو گئیں۔

وہ اخلاق و کردار اب لوگوں میں خال خال ہی دکھائی دیتا ہے۔ پتہ نہیں وہ لوگ کہاں چلے گئے جو ہمارے معاشرے میں ایماندار کہلایا کرتے تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم خود اپنی تہذیب سے اتنے دور ہو چکے ہیں کہ ہمیں یقین نہیں آتا کہ ہم اخلاقی طو رپر بھی اتنے کنگال ہو سکتے ہیں۔ یا یوں کہنا چاہئے کہ ہمارے اردگرد بدتہذیبی کے اندھیروں میں روشنی کی کوئی کرن پھوٹتی دکھائی کیوں نہیں دیتی جبکہ انسان کو تعلیم اور ترقی تو ادب اورآداب سکھاتی ہے لیکن ہمیں دیکھ کر یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ہمارے ہاتھ میں بھی کبھی اقدار کا دامن تھا۔ بدتہذیبی ہمارے معاشرے میں وباء کی طرح پھیل رہی ہے اور اس صورتحال کا تدارک ممکن نظر نہیں آتا۔

حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں ا کثر اداروں میں کرپشن کا بول بالا ہے۔ کرپشن کوبرائیوں کی ماں یا برائیوں کی جڑ بھی کہا جاتاہے اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کسی بھی قوم کی تباہی و بربادی میں مرکزی کردار ہمیشہ کرپشن نے ہی ادا کیا ہے۔ کرپشن کا لفظ ہر معاشرے، ہر ملک اور ہر زبان میں ناپسندیدگی کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ کرپشن، بدعنوانی، بداخلاقی اور بدعملی، یہ ساری اخلاقی برائیاں کسی بھی معاشرے کو سماجی موت سے ہمکنار کرنے والے بھیانک مرض کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اور جس معاشرے کو یہ بیماریاں لگ جاتی ہیں، اس کو بربادی سے بچانا مشکل ہی ہوتا ہے۔ یہ ایسی اخلاقی برائیاں ہیں جو آکاس بیل کی طرح پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہیں۔

ہماری ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں قانون موجود تو ہے مگر دکھائی نہیں دیتا۔اس کے ساتھی ہی غریبوں کے لئے الگ قانون ہوتا ہے اورامیروں کے لئے الگ۔ آج دنیا میں ہم کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھیں تویہ بات بہت اچھی طرح سمجھ میں آجائے گی کہ ان کی ترقی اور خوشحالی کی سب سے بڑی وجہ قانون کااحترام ہی ہے مگر ہمارے معاشرے میں یہ چیزیں ناپید ہیں۔ رسم و رواج کی پاسداری تو سب ہی کرتے ہیں لیکن قوانین کا احترام بھی معاشرے کے ہرفرد کی ذمہ داری ہوتی ہے اور ہر فرد کے لئے قانون برابرہوتا ہے۔

خواہ اس کا تعلق امیر طبقے سے ہو یا غریب سے۔ ہماری ساری اخلاقیات تو مغرب لے اڑا اور ہم ہیں کہ ان کی تقلید میں لگے ہوئے ہیں۔ اس لئے نہ ہم ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑے ہو سکے اور نہ ہی ان کی طرح دنیا کا مقابلہ کر سکے۔ دھنک کے صفحہ پر جو تصویر شائع کی گئی ہے، وہ ڈاک کے عالمی دن کے موقع پر لی گئی ہے جس میں لاہور کے جنرل پوسٹ آفس کے باہر نصب لیٹر باکسز میں طالبات خطوط ڈال رہی ہیں۔ اس تصویر سے ظاہر ہے کہ دنیا کے اتنی ترقی کرنے کے باوجود ہم نے اپنی قدیم اور کارآمد روایات کو ابھی تک زندہ رکھا ہوا ہے۔ اس تصویر سے یہ معلوم ہورہاہے کہ ملک میں کہیں نہ کہیں خطوط کا سلسلہ ابھی تک جاری و ساری ہے اور لوگ خطوط ارسال کرتے ہیں۔ چشمِ حقیقت سے دیکھاجائے تو ہمارے اطوار ہی نرالے ہیں۔ ہم تو آدھا تیتر آدھابٹیر بنے ہوئے ہیں کیونکہ نہ ہم روایات پسند ہیں اور نہ ہی جدیدیت کی طرف مائل۔

اسی لئے ہم نہ تو ترقی کی طرف جا رہے ہیں اور نہ ہی ہم نے اپنی اخلاقی روایات کا پاس رکھا ہوا ہے۔بڑے شہروں کی مثال لے لیں، ہم نے سارے شہر کو کچرے کا ڈھیر بنایا ہوا ہے جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ صفائی کتنی ضروری ہے، ہم گھر کی صفائی کر کے کچرا دوسروں کے دروازوں کے قریب پھینک دیتے ہیں۔ اسے ہم کچرا کنڈی میں پھینکنے کی زحمت نہیں کرتے۔ ہمیں اپنی سمت درست کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا میں طرح طرح کی ایجادات سامنے آرہی ہیں، ایسے میں جب ہم اپنی طرف دیکھتے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ دنیا ترقی اور جدیدیت کی طرف جا رہی ہے مگر ہم بہت پیچھے ہیں۔آج ہمارے ملک میں کتنے ہی لوگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ آج دنیا نے ستاروں اور سیاروں کے راز جان لئے ہیں مگر ہمارے یہاں آج بھی کتنے ہی لوگ کھلے آسمان تلے سونے پر مجبور ہیں۔ ان کا کوئی گھر نہیں لیکن ہمارے صاحبان صرف اور صرف دولت سمیٹنے میں مگن ہیں۔

ان کو اس بات کا قطعی ادراک نہیں کہ ان کے عوام کی کیا حالت ہے۔ وہ دو وقت کی روٹی کے لئے ترس رہے ہیں۔ ہمارے ہاں ایسے لوگوں کو بھی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں جو کسی اہل دکھائی نہیں دیتے۔ نہ علم و دانش کے اعتبار سے اور نہ ہی سمجھداری و بردباری کے لحاظ سے۔ ہمارا پورا معاشرہ بے حسی اور لاپروائی کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔ اس سے نکلنا انتہائی مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ ہر شخص خودغرضی کے خول میں بند نظر آ تا ہے۔ ہر شخص اپنے بارے میں سوچتا ہے۔ صبر، شکر اور قناعت جیسے اوصاف ہمارے معاشرے میں کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔

دنیا کہاں جا رہی ہے او رہم کس سمت جا رہے ہیں۔ ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ ہماری منزل کہاں ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم اپنی ترجیحات کو ازسرنو مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو دنیا کہیں آگے نکل جائے گی اور ہم ٹامک ٹوئیاں مارتے رہ جائیں گے۔ دنیا چاند اور ستاروں پرکالونیاں آباد کر رہی ہوگی اور ہم اسی آلودہ فضا میں سانس لے رہے ہوں گے،یہی گندہ اور آلودہ پانی پی رہے ہوں گے۔ ہمیں اپنی روش بدلنی ہوگی اورخود فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہم ایک ترقی یافتہ قوم بننا چاہتے ہیں یا پھر دنیا کے سامنے ایک غیر مہذب قوم بن کر جینا گوارہ کرتے ہیں۔ یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اپنے آپ کو دنیا کے سامنے کیسا پیش کرنا چاہتے ہیں۔