سی پیک کا جھومر،گوادر کے عوام کی آواز جب کوہِ باتیل سے ٹکراتے ہوئے سمندر کی تہہ تک پہنچتی ہے، تو نیلگوں سمندر کی مست موجیں اداس ہو کر کوہِ باتیل سے ٹکراتے ہوئے ساکت ہو جاتی ہیں یا انھیں ساکت کر دیا جاتا ہے۔ اسی اثنا میں کریموک ہوٹل میں چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے گوادر کے قدیم باسی ماہی گیروں کی کیفیت بھی انھیں بولنے پر مجبور کرتی ہے۔ جب یہ چیخ و پکار کوہِ باتیل کی چوٹی سے ٹکرانے کے بعد پورے شہر سے ہوتے ہوئے چندلمحوں میں جیوانی سے اورماڑہ تک پہنچ جاتی ہے اور سیاہ راتوں میں آسمان پر چمکنے والے ستاروں کی روشنی دیمی زر کے ساحل پر چمکنے لگتی ہے، ان چیخوں کو کبھی دبایا جاتا ہے تو کبھی یہ خود دب جاتی ہیں۔ انھیں کوئٹہ اور اسلام آباد تک پہنچنے میں کئی سال لگتے ہیں۔
”گوات در“ سے گوادر کا سفر طے کرتے، عروج و زوال کی کئی داستانیں اپنے اندر دفن کر دینے کے بعد اب ماہی گیروں کی یہ بستی عالمی دنیا کی خونخوار نظروں کو دیکھ رہی ہے۔اس خطے میں میگاپراجیکٹس کا سنگِ بنیاد رکھے جانے کے بعد گوادر اور بلوچستان کے باسیوں کو یہ خواب بھی دکھائے گئے تھے کہ جزیرہ نما ماہی گیروں کی یہ بستی مستقبل کے دبئی اور سنگاپور جیسی ہوگی۔ ہم جیسے کئی نوجوان اس طرح کے خواب دن میں دیکھنے لگے کیوں کہ رات کو ہم اس لیے خواب نہیں دیکھتے کہ رات کے آخری پہر تک سوچتے سوچتے ہماری آنکھ لگ جاتی ہے اور جب ہم خواب سے بیدار ہوتے ہیں تو سورج کب کا نکل چکا ہوتا ہے۔
گوادر پورٹ سے جب یہ خواب ادھورے رہ گئے تو سی پیک کا افتتاح ہوا۔ سی پیک کہنے کو پاکستان چائنا اقتصادی راہداری یعنی ایک روڈ کا نام ہے جو گوادر سے شروع ہو کر چائنا کے شہر کاشغر تک جاتی ہے۔ چائنا میں اس کو obar یعنی ون بیلٹ ون روڈ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سی پیک سے بلوچستان اور ملک کی تقدیر بدل جائے گی، ہزاروں لوگ اسی روٹ کی وجہ سے برسرِروزگار ہوں گے۔ سی پیک کے روٹس پر مارکیٹیں اور بزنس سینٹر قائم ہوں گے، بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری ہوگی۔ ہمیں چائے کے ہوٹلز اور پنکچرشاپ کھولنے کا موقع ملے گا۔ ہمارے سیاسی نمائندے اس پر جشن منا رہے ہوں گے۔ ویسے ہمارے لوگوں کو تعلیم کی ضرورت نہیں، تعلیم سے پنکچرشاپ بہتر ہے۔
سی پیک کا دل گوادر اب تک دبئی اور سنگاپور جیسا نہیں بن سکا، البتہ ”پانی دو، بجلی دو، ورنہ کرسی چھوڑ دو“ کے نعرے اب بھی گونج رہے ہیں۔ یونیورسٹی اور میڈیکل کالج اپنی جگہ، آج بھی سی پیک کے باسی محض اس وجہ سے جون کی شدید گرمیوں میں گوادر کی شاہراہوں اور گلیوں میں احتجاج کر رہے ہیں کہ ہمیں پانی اور بجلی دو، ہمارے لیے یہی ترقی کافی ہے۔پانی کا نام سن کر مجھے یاد آتا ہے کہ آج سے 33 سال قبل جیوانی میں پانی مانگنے پر معصوم بچی یاسمین کو گولیوں سے چھلنی کر دیا جاتا ہے مگر جیوانی میں پانی کا مسئلہ حل نہیں ہو پاتا ہے۔گوادر، پسنی، جیوانی اور اورماڑہ کے شہری اس تپتی دھوپ میں پانی اور بجلی مانگ رہے ہیں۔ حالانکہ گوادر سمیت پورے مکران کو بجلی پاکستان سے نہیں بلکہ ایران سے مل رہی ہے۔
اس کے باوجود گوادر میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ سات سے آٹھ گھنٹے اور معمولی فالٹ دور کرنے کے لیے کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف سی پیک کے دل گوادر میں اس وقت احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ آل پارٹیز گوادر اس احتجاج کو لیڈ کرتے ہوئے یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ گوادر کے شہریوں کو سولہ سے اٹھارہ گھنٹے بجلی فراہم کی جائے۔ دوسری جانب سے گوادر کی تحصیل جیوانی اور اورماڑہ کے شہری قلتِ آب کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ایک ایسے وقت میں جب ملک میں کورونا کی وباء تیزی سے پھیل رہی ہے تو دوسری طرف ملک کا سب سے امیر خطہ اور نیلگوں سمندر کے قریب بسنے والے باسی پانی اور بجلی جیسی بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کے خلاف شاہراہوں پر احتجاج کرتے ہوئے چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں؛ ہمیں ترقی نہیں پینے کے لیے دو گھونٹ پانی اور آرام کے لیے بجلی چاہیے۔