|

وقتِ اشاعت :   June 10 – 2020

پانی ایک بہت بڑی نعمت ہے مگر آج کل بلوچستان میں صاف پانی انتہائی نایاب ہوتا جارہا ہے۔ آج بھی بلوچستان کے لوگ جوہڑ اور تالابوں کا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ بلوچستان کے سات اضلاع کے لوگ نہری پانی پینے پر مجبور ہیں جن میں پٹ فیڈر کینال اور کیرتھر کینال شامل ہیں۔ اس وقت بلوچستان کے حصے کا پانی صرف 10300 (دس ہزار تین سو) کیوسک ہے جو سندھ اور پنچاب کی ایک بڑی نہر سے بھی کم ہے جو بلاشبہ ایک شرم ناک بات ہے۔ بلوچستان کے حصے کا پانی سندھ کے دو بیراجوں سے آتا ہے جن میں گڈو بیراج سے چھ ہزار سات سو (6700) کیوسک جبکہ سکھر بیراج سے دو ہزار چار سو (2400) کیوسک براستہ کیرتھر کینال ملتا ہے۔

اس کے علاوہ دو چھوٹی نہریں بھی ہیں جن سے مجموعی طور پر 1200 (بارہ سو) کیوسک پانی بلوچستان کو ملتا ہے لیکن آج کل اس پانی پر بھی سندھ حکومت نے قبضہ جما رکھا ہے۔بلوچستان کے حصے کا پانی سندھ کی حدود میں چرا بھی لیاجاتا ہے۔ اس وقت بلوچستان کی دونوں بڑی نہروں (پٹ فیڈر کینال اور کیرتھر کینال) کا نہری نظام بری طرح ناکام ہوگیا ہے۔ کیر تھر کینال اور پٹ فیڈر کینال کی تہہ میں اتنی زیادہ مٹی بیٹھ گئی ہے کہ دونوں کینال سکھر اور گڈو بیراج سے اپنے حصے کا پانی نہیں لے پا رہے۔ مذکورہ دونوں کینالز کی برانچوں کی کھدائی و بھل صفائی نہ ہونے کی وجہ سے پانی کے بہاؤ کی رفتار انتہائی سست رہتی ہے۔

بلوچستان کے دونوں بڑے کینالز کا سسٹم سندھ کی حدود میں ہے جس کی وجہ سے وہ پانی بھی اپنی مرضی سے بلوچستان کو دیتے ہیں اور کبھی بھی مکمل پانی نہیں دیتے۔ اور تو اور کبھی سندھ کے علاقے میں کھدائی و بھل صفائی تک اچھے طریقے سے نہیں کرتے اب تو سندھ حکومت کی انتہا یہ ہے کہ ان دونوں نہروں میں کئی علاقوں کے فضلے کا پانی بھی ڈال دیا جاتا ہے جن میں سکھر اور شکارپور کے کئی علاقے بہت مشہور ہیں۔افسوس تو یہ ہے کہ نہ کبھی سندھ حکومت نے اور نہ ہی بلوچستان حکومت نے اس گندے پانی کا کوئی حل ڈھونڈا ہے۔

جن اضلاع کے لوگ فضلے سے آلودہ پانی پئیں گے، ان اضلاع میں بھلا کیسے بیماریاں نہیں پھیلیں گی؟ سندھ کے بااثر افراد ہر سال موسم خریف میں کینالوں سے پانی چوری کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہزاروں کسانوں اور زمینداروں کی تقریباً تین لاکھ ایکڑ زرخیز زرعی زمینیں بنجر اور غیر آباد ہوتی ہیں۔ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق، اب تو حد ہوگئی ہے۔حکومت بلوچستان کو چاہیے کہ پانی چوری روکنے کیلیے ایف سی سکھر بیراج سے لے کر کیرتھر کینال کے ٹیل تک رکھا جائے تاکہ پانی چوروں کے خلاف سخت کارروائی کی جاسکے اور حکومت بلوچستان غیرقانونی واٹر کورس کے خلاف محکمہ آبپاشی سے بھرپور تعاون کرے تاکہ پانی کی کمی کو دور کیا جاسکے اور کسانوں کو وقت پر پانی کی ترسیل شروع کی جائے تاکہ بلوچستان کے کسان خوشحال ہوسکیں۔

ہمیشہ سندھ نے بلوچستان کو وقت پر پانی کی ترسیل نہیں کی اور پانی کا جو کوٹہ ارسا نے مقرر کیا ہے اس کوٹے کے مقابلے میں بہت کم پانی دیا جاتا ہے۔ 2010 سے سیلابوں نے سندھ کے حصے میں بلوچستان کی نہروں کے پشتوں کو نقصان پہنچایاہے۔ سندھ نے کبھی اپنے حصے کی بھل صفائی کا کام بھی نہیں کیا جس کی وجہ سے بلوچستان کے حصے کا پانی سندھ کے حصے میں چلا جاتا ہے جو چوری اور سینہ زوری ہے۔حکومت بلوچستان کے نمائندے ہمیشہ چیختے رہتے ہیں کہ ہمارا پانی کہاں جاتا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بلوچستان کے حصے کا پانی اکثر سندھ کی حدود میں چوری ہوجاتا ہے اور الزامات پنجاب پر ڈال دیئے جاتے ہیں کہ بلوچستان کے حصے کا پانی پنجاب چوری کرتا ہے۔

سندھ حکومت نے سیف اللہ مگسی کینال نکال کر بلوچستان کے کیرتھر کینال کا آدھا پانی چرا لیا ہے۔سندھ حکومت کی یہ ہمیشہ سازش رہی ہے وہ بلوچستان کو پنجاب سے لڑا کر بلوچستان کے حصے کا پانی خود چوری کرتا ہے۔ حتٰی کہ بلوچستان حکومت بھی سندھ حکومت کی باتوں میں آ کر سب الزامات پنجاب پر لگا دیتی ہے جو افسوسناک عمل ہے۔ حکومت سندھ نے بلوچستان کے اکثر کینالز پر غیرقانونی واٹر کورس بھی بنائے ہیں حد تو یہ ہے کہ سندھ کے کچھ علاقوں میں رات کے وقت پانی لفٹ کرکے بھی چوری کیا جاتا ہے۔ یہ سراسر سندھ حکومت کی غنڈہ گردی ہے۔

اس وجہ سے بلوچستان کے ٹیل کے حصوں تک پانی پہنچ ہی نہیں پاتا۔ اور تو اور، خریف کا سیزن یکم مئی سے شروع ہوتا ہے اور یکم ستمبر تک چلتا ہے۔ اسی دوران بلوچستان کو پانی یکم مئی کے بجائے بیس مئی سے یا جون کے وسط میں شروع کرکے اور ستمبر کی ابتداء سے پہلے ہی بند کیا جاتا ہے جو افسوسناک عمل ہے۔آج بھی پورے بلوچستان کے اکثر علاقوں میں لوگ پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں اور عوام منتخب نمائندوں سے اس حد تک مایوس ہوچکے ہیں کہ اکیسویں صدی کے اندر بھی بلوچستان کے لوگ اپنی مدد آپ کے تحت بورنگ اور کنوؤں کے ذریعے پانی کا حصول ممکن بنارہے ہیں۔آج بھی بلوچستان کے تقریباً 90 فیصد لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں جس کی وجہ سے بلوچستان کے لوگ مختلف بیماروں کا شکار ہورہے ہیں۔

ہر سال بلوچستان میں سالانہ 80 فیصد تک بارشوں میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ کم بارشوں سے لوگوں اور مال مویشیوں کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے، جانور بھی لاغر ہوجاتے ہیں۔1991 میں شہباز شریف کی سربراہی میں صوبوں کے درمیان دریائے سندھ کے پانی کے استعمال پر مذاکرات ہوئے تھے۔ آخر میں فیصلہ کیا گیا کہ کس صوبے کو کتنا پانی ملے گا۔ بلوچستان چونکہ رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے اور دریائے سندھ کے نہری نظام کے آخری سرے پر واقع ہے، اس لیے اس کا حصہ دس ہزار تین سو کیوسک پانی مقرر کیا گیاتھا۔

اور یہ اس وقت بلوچستان کی سب سے بڑی کامیابی تھی کہ بلوچستان کو دس ہزارتین سو کیوسک پانی دیاگیا تھا۔ مگر آج 2020یعنی تیس سال پہلے جتنا پانی بلوچستان کو دیا جاتا تھا۔گزشتہ کئی سال سے بلوچستان کے نہری پانی کا حصہ سندھ استعمال کرتا آرہا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت بلوچستان اس کی مکمل قیمت وصول کرے کیونکہ بلوچستان کو گزشتہ کئی سال سے سات لاکھ ایکڑ زمین سے فصلیں حاصل کرنے سے محروم رکھا گیا ہے۔بلوچستان کے منتخب عوامی نمائندے عوام کو پانی فراہم کرنے میں یکسر ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ پانی کا بحران دن بدن شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔

عوام کا کوئی پرسان حال نہیں جبکہ سورج اپنی حدت و شدت سے گرمی برسا رہا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس علاقے میں پانی کا بحران انہی سیاسی جماعتوں کا پیدا کردہ ہے۔ کوئٹہ سمیت بلوچستان کے بڑے شہروں میں پانی چوری کرکے بیچا جاتا ہے اور بولنے والا کوئی نہیں۔ اس سب میں بااثر شخصیات ملوث ہیں۔ آج بھی ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں ہر سال تیس فیصد لوگ زہریلے پانی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ بلوچستان میں کینسر سے سینکڑوں چراغ بجھ چکے ہیں اور مزید کتنے چراغ بجھ جائیں گے یہ کوئی نہیں جانتا۔ یہ سب اسی پانی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے ہیں۔ اگر یہی حالات رہے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بلوچستان میں ایک اور کربلا کی یاد تازہ ہوگی۔