بچپن میں ایک ڈرامہ پی ٹی وی پر دیکھا جس میں ملک کے مایا ناز ایکٹر قوی خان نے ایک ایسے شخص کا کردار ادا کیا جو انتہائی سخت مزاج اور ظالم تھا۔ محبت، خوش مزاجی کے الفاظ اس کی لغت میں شامل ہی نہیں تھے۔ اس کے ایک بچپن کے قریبی دوست کی وفات کے موقع پر وہ ایک حیرت انگیز بات باقیوں کے ساتھ شئیر کرتا ہے کہ پیدائش سے لے کر نوکری پر لگنے، شادی ہونے، بچے کی پیدائش اور کئی اور لمحات میں دونوں میں ہمیشہ سات دن کے فرق سے سب کچھ ہوتا آیا ہے۔ اس موقع پر کوئی اس سے یہ سوال کر بیٹھتا ہے کہ یعنی اب کیا آپ کی وفات بھی سات روز بعد ہو جائے گی؟
یہ سنتے ہی اس کے پیروں تلے زمین نکل جاتی ہے اور یہ سوچ اس کو جیتے جی مار دیتی ہے کہ وہ اب صرف سات دن اور زندہ رہے گا۔ ان سات دنوں میں وہ اپنے آپ کو 180 ڈگری بدل دیتا ہے اور ہر وہ کام اور اعمال جو اس کی آخرت میں اس کیلئے فائدہ مند ہو سکتے ہیں اپنا لیتا ہے۔ اپنے کردار، اخلاق اور مزاج میں نرمی پیدا کرتا ہے، اپنے قبلے کو درست کرنے کی فکر میں انتہا درجے کا مومن بن جاتا ہے۔ ساتویں روز رات 12 بجے اس تصور سے کہ اب کچھ ہی لمحوں میں ملک الموت اس کی روح قبض کرنے آئے گی،جاء نماز پر بیٹھا محو عبادت ہوتا ہے۔
اور جیسے ہی سوئی پر سوئی چڑھتی ہے، زور سے کلمہ شہادت کا ورد کرتا ہے مگر قسمت میں ابھی اس کی زندگی کے کچھ اور سال لکھے ہوتے ہیں اور نا اس کی روح قبض ہوتی ہے اور نا ہی وہ ابدی نیند کے آغوش میں جاتا ہے۔زندگی کے کچھ اور لمحات پانے کی خوشی میں اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتا ہے اورکئی دونوں کے رتجگے کے بعد سکون کی نیند سو جاتا ہے۔مگر افسوس اگلے ہی روز اپنے دفتر میں پہنچ کر وہ وہی ظالمانہ رویہ اختیار کر لیتا ہے جو کہ ہفتہ پہلے تھا چونکہ موت کا خوف نا معلوم وقت تک ٹل چکا ہوتا ہے.۔اس کہانی کو سنانے کا مقصد یہ تھا کہ آج کل کورونا کا خوف ہر جگہ اور ہر لمحہ دل میں ہے اور اس کی وجہ سے شاید ہم میں سے کوئی عبادات میں اور کوئی نیک اعمال کمانے میں پیش پیش ہے۔
شاید اس کی وجہ ہمارے آس پاس تیزی سے پھیلتی ہوئی بیماری اور اس کے نتیجے میں ہونے والی اموت ہیں یا واقعی ہمارے اندر کا یہ احساس ہے کے ہم زندگی غلط انداز میں گزار رہے ہیں.۔حالات نے ہمیں اپنا طریقہ زندگی بدلنے کا موقع دیا ہے اور اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اس بات کا اندازہ تب ہوگا جب انشاء اللہ حالات معمول پر آجائیں گے کہ کس نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور کس نے اسے ضائع کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ہم سب کو شاید یہ موقع اس لیے دیا ہے کہ غور کریں کہ ہم زندگی کو کیسے گزار رہے ہیں۔ کیا ہمارے سدھرنے کا وقت ہے جو رب کی طرف سے ہمیں ملا ہے۔
یا آخرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی کہ آخرت کا وقت قریب آتا جارہا ہے سو اپنے آپ کو راہ راست پر لائیں یہ وقت بھی گزر جائے گا، کچھ لوگوں کو شاید اس کہانی کے سات دن سے زیادہ میسر نا آئیں اور کچھ اس دنیا میں مزید کچھ ایام اور گزاریں اس کا تعین اس پاک رب العالمین کے علاوہ کوئی اور نہیں کر سکتا مگر یہ ایام کیسے گزاریں اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نے کسی حد تک ہم پر چھوڑ دیا ہے۔کیا ہم اس مشکل وقت میں سے گزرنے کے دوران ذخیرہ اندوزی کرکے گندم اور چینی سے اپنے گوداموں کو بھر لیں اور مارکیٹ میں پیٹرول کی مصنوعی قلت پیدا کرکے پریشان عوام کو مزید تنگ کریں، یا اس نازک موقع پر اپنی خوشیوں کو دوسروں کی خاطر قربان کریں۔کیا وقت ضرورت اپنے مومن بھائی کے لیے اپنے مال اور جان کا نذرانہ پیش کریں۔
یا اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے والے بن کر اس کو نوچ نوچ کر کھانے والے بن جائیں۔ کیا مشکل کی گھڑی میں اللہ تعالیٰ سے سودا کرکے صدقہ و خیرات کرنے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں یا اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف عمل ہوجائیں۔کیا آزمائش کی اس گھڑی کے دوران اور اس کے بعد ہمیں اپنے آپ سے یہ وعدہ کرنے کی ضرورت نہیں کہ ہم اپنی باقی ماندہ زندگی اپنے اس رب کے بتائے ہوئے طریقے سے گزاریں گے جس نے ہمیں توبہ کرنے اور سدھرنے کا موقع دیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا۔
سورۃ البقرہ 16 سے 21”یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی ہے، لہٰذا نہ ان کی تجارت میں نفع ہوا، اور نہ انہیں صحیح راستہ نصیب ہوا۔ ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے ایک آگ روشن کی، پھر جب اس (آگ نے) اس کے ماحول کو روشن کردیا تو اللہ نے ان کا نور سلب کرلیا اور انہیں اندھیروں میں چھوڑ دیا کہ انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ وہ بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، چنانچہ اب وہ واپس نہیں آئیں گے. یا پھر (ان منافقوں کی مثال ایسی ہے) جیسے آسمان سے برستی ایک بارش ہو، جس میں اندھیرے بھی ہوں، اور گرج بھی اور چمک بھی۔ وہ کڑکوں کی آواز پر موت کے خوف سے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں دے لیتے ہیں۔ اور اللہ نے کافروں کو گھیرے
. میں لے رکھا ہے. ایسا لگتا ہے کہ بجلی ان کی آنکھوں کو اچک لے جائے گی۔ جب بھی بجلی ان کے لیے روشنی کردیتی ہے، وہ اس (روشنی) میں چل پڑتے ہیں، اور جب وہ ان پر اندھیرا کردیتی ہے تو وہ کھڑے رہ جاتے ہیں، اور اگر اللہ چاہتا تو ان کے سننے اور دیکھنے کی طاقتیں چھین لیتا، بیشک اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے. اے لوگو! اپنے اس پروردگار کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور ان لوگوں کو پیدا کیا جو تم سے پہلے گزرے ہیں، تاکہ تم متقی بن جاؤ“ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا،سانس کے آخری لمحات تک توبہ کا دروازہ کھلا ہے. ہمارا رب بہت رحیم و کریم ہے۔ کورونا اور موت کے خوف سے نہیں بلکہ اپنے رب کی ناراضگی کے خوف سے اپنے آپ کو بدلیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی حفاظت میں رکھے اور اس مشکل وقت میں اپنے علاوہ کسی کا محتاج نہ ہونے دے۔آمین