|

وقتِ اشاعت :   June 12 – 2020

جمہوریت میں اپوزیشن کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور جمہوری اقدار اپوزیشن کے بہتر کردار اور عمل کے باعث ہی مثالی ہونے کے ساتھ ترقی پسند ماحول کو بھی فروغ دینے میں اپنا بھر پور کردار ادا کر سکتے ہیں یا یوں کہئے کہ اپوزیشن حکمرانوں کے لئے آئینہ ہوتے ہیں ان حکمرانوں کا ہر عمل و کردار انہیں اپوزیشن میں آئینہ کے مانند نظر آتے ہیں جمہوری دور میں اپوزیشن ہی کا کردار بلاشبہ حکومتی وژن اور سمت کے طریقہ کار کو کسی حد تک تبدیل کرکے عوامی فلاح و بہبود اور صوبے کی اجتماعی ترقی کی جانب موڑنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

اسی وجہ سے حکومتیں میرٹ اور اجتماعی ترقی کے عمل کو اپنا کر اپوزیشن اور عوام کے دلوں پر ہی حقیقی معنوں میں راج کرتے ہیں عوام ایسے اپوزیشن رہنماؤں کے کردار کو ہمیشہ یاد رکھتے ہیں اور یہی اپوزیشن والا کردار انہیں حکمران بننے میں معاون و مدگار بھی ہو سکتے ہیں بلوچستان کو 1972 سے لیکر اب تک اس طرح کی مثالی اپوزیشن کبھی بھی نصیب نہیں ہوئی ہے جہاں صوبائی حکومت اپوزیشن کے سیاسی اور جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں عوامی و فلاحی منصوبوں میں اجتماعیت کو اولیت دی ہو،ہر وقت اپوزیشن عوامی مسائل کے بجائے اپنے حلقے کی ترقی کو ہی اولیت دیتی رہتی ہے۔

اپوزیشن نے آج تک بلوچستان کے ساتھ وفاق کی جانب سے ہونے والی ناانصافیوں اور ترقیاتی عمل میں یکسر نظرانداز کرنے سی پیک، سیندک،ریکوڈیک،سوئی گیس،معدنیات و معدنی ذخائر، ساحل وسائل پرصوبے کا حق حاکمیت وفاقی اداروں میں صوبائی ملازمتوں کا کوٹہ یا ان وسائل پرصوبائی دسترس پر کبھی بھی بے ادبی یا لب کشائی نہیں کی ہے کیا اپوزیشن کی سیاست صرف اپنے مفادات کے حصول کیلئے ہے کیا اپوزیشن کی سیاست صرف پی ایس ڈی پی تک ہی محدود ہو گئی ہے جہاں اجتماعی مفادات کے بجائے ذاتی مفادات کو اولیت دی جاتی ہو وہاں نہ تو معاشرہ ترقی کر سکتا ہے۔

اور نہ ہی صوبہ تاہم صرف ان منصوبے سے فائدہ حاصل کرنے والے افراد ہی خوشحالی کی منزل پر سفر کر سکتے ہیں۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت ہو یا اپوزیشن دونوں نے آج تک عوام اور صوبے کے مفادات کو وفاق کی جانب سے نظرانداز کرنے کے خلاف کوئی مشترکہ جدوجہد یا سیاسی کردار ادا کر سکا ہو مجھے تعجب ہے کہ بلوچستان اسمبلی کے تمام اراکین وفاق کے ملازم تو نہیں اسی وجہ سے وہ وفاق کے خلاف کوئی بات نہیں کرسکتے ہیں یا یہ عمل ملازمت ایکٹ کے خلاف ورزی تو نہیں؟ چند دنوں کی بات ہے کہ مرکزی پی ایس ڈی پی اجلاس میں بلوچستان کو یکسر نظر انداز کرنے پر ہمارے وزیر اعلیٰ نے دل پر پتھر رکھ کر پہلی بار مصنوعی احتجاج کیا۔

لیکن اس احتجاج کی شہ سرخی اخباروں کی زینت بننے کے بعد حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں خواب خرگوش کی نیند میں مگن ہو گئے آج تک مختلف وفاقی حکمرانوں کی جانب سے صوبے کو نظر انداز کرنے پر اسمبلی میں بحث تک نہیں کرائی گئی اور نہ ہی صوبے کے اجتماعی منصوبوں کو وفاق کی جانب سے نکالنے پر کبھی قراداد مذمت منظور کرائی گئی۔ آپ اندازہ لگائیں کہ کیا بلوچستان اسمبلی واقعی خود مختیار ہے کیا بلوچستان کے تمام مسائل اور وسائل پر بلوچستان حکومت کواختیار حاصل ہے یا پھر یہ اسمبلی ہماری بدقسمتی پسماندگی اور محرومیوں کی علامت ہے۔

یا ہمارے اراکین اسمبلی کرائے کے اراکین اسمبلی ہیں یا پھر ان کو جو حکم یا اشارہ ملتا ہے اسی وقت بہ امر مجبوری بات کرتے ہیں اگر اس طرح کا عمل مرکزی حکومت پنجاب سندھ خیبر پختون خواہ کے منصوبوں کے متعلق کرتے یا ان کو نکالتے تو ان اسمبلیوں میں اب تک گہرام مچ چکا ہوتا، ان صوبوں کے حکمران اور اپوزیشن سخت احتجاج کرتے اسمبلیوں میں قرادادیں منظور کراتے۔ چاہے جیسے بھی حالات ہوتے اسمبلی اراکین اور عوام وفاقی رویہ پر سراپا احتجاج ہوتے۔ سندھ کے حکمران معمولی بات پر وفاق کو للکارتے ہیں اور وفاق کے خلاف آئے روز وزراء پریس کانفرنسز اور اسمبلی میں اظہار خیال کرتے رہتے ہیں۔

آپ موجودہ و سابق حکمرانوں اور اپوزیشن کا ریکارڈ چیک کریں آج تک نہ تو حکومت نے اور نہ ہی اپوزیشن نے اس طرح کی سیاسی بے ادبی کی ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں عوامی مفادات کے بجائے ذاتی منصوبے زیادہ قابل بحث اورقابل توجہ ہوتے ہیں۔کیا کبھی بلوچستان کی زراعت میں اہم کردار ادا کرنے والا پٹ فیڈر کینال اور کھیر تھر کینال پر کسی حکومتی یا اپوزیشن نے تحریک پیش کی ہے۔بلوچستان کے 90 کی دھائی میں ارسا کی جانب سے ملنے والے پانی کا پورا حصہ سندھ کی جانب سے نہیں مل رہا ہے کبھی اس پر اپوزیشن اورحکومتی اراکین اسمبلی نے احتجاج کیا ہے،کبھی اس پر کسی بھی معزز رکن نے قرار داد لانے کی زحمت کی ہے۔کیا ریکوڈک، سیندک گوادر پر صوبائی دسترس یا رائلٹی کے حوالے سے اسمبلی میں مشترکہ طور پر کسی نے لب کشائی یا بے ادبی کی ہے۔

مجھے بلوچستان اسمبلی کے تمام معزز اراکین پر فخر ہے وہ کسی کو بھی ناراض کرنا نہیں چاہتے صوبائی حق و حقوق کی بات موجودہ حالات میں گستاخی کے زمرے میں ہی شاہد آتا ہو اسی لئے ہمارے معزز اراکین اس طرح کی فضول گفتگو اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔گزشتہ دنوں اپوزیشن کی جانب سے اپوزیشن اراکین کو صوبائی پی ایس ڈی پی میں نظر انداز کرنے پر وزیراعلیٰ ہاؤس اور ریڈ زون کے سامنے اپوزیشن نے سخت احتجاج کیا اور ساتھ ہی کوئٹہ میں اپوزیشن پارٹیوں کے رہنماؤں اور ورکرز نے سریاب و دیگر روڈ بطور احتجاج بلاک کیئے۔ مجھے خوشی ہوئی کہ اپوزیشن اپنے اپنے حلقوں کو نظر انداز کرنے خلاف سخت احتجاج کرنے کا پلان بھی بنائے ہوئے ہونگے اور اس سلسلے میں اسمبلی سمیت صوبہ بھر میں بھی احتجاج کیا جائے گا۔

لیکن مجھے افسوس اس بات پر ہے کہ اپوزیشن کی محدود سوچ کی بدولت ہی بلوچستان بہتر سالوں سے اب تک ترقی کے ثمرات سے بہرہ مند نہیں ہو سکا ہے۔ اپوزیشن مرکز کی جانب سے بلوچستان کو ترقیاتی عمل میں یکسر نظر انداز کرنے پر گونگے بہرے کا کردار ادا کر رہی ہے جبکہ اپنے اپنے علاقے کی ترقی کیلئے اب سراپا احتجاج ہے کیا یہ صوبے کے ساتھ مخلصی اور وفا داری ہے، کیا مرکزی ناانصافیوں پر خاموشی اورانتخابی علاقے نظرانداز کرنے پر احتجاج کھلا تضاد نہیں یا یوں کہیں کہ یہ صوبے کے عوام کے ساتھ منافقانہ سیاست نہیں؟ کیا بلوچستان کے عوام کا درد رکھنے والی اپوزیشن صوبے کے عوام کی اجتماعی ترقی کیلئے واقعی سنجیدہ ہے؟

بلوچستان ملک یا خطے کا وہ واحد لاوارث صوبہ ہے جہاں جس کا جو جی چاہے کرگزرے، کوئی کسی سے نہیں پوچھتا۔خطے کے امیر ترین صوبہ کے مفلوک الحال عوام جہاں صاف پانی ان کی زندگی کی آخری خواہش ہو، بہترین علاج معالجہ ان کا خواب ہو، جدید سہولیات سے مستفید ہونا ان کا مقصد ہو، وہاں یہ تمام سہولیات صوبے کے صرف 65 اراکین اسمبلی تک محدود ہوں تمام ترقی اور عیش و عشرت ان اراکین اسمبلی کیلیے ہی ہو تو عوام کہاں جائے،عوام کو کون اور کب اور کونسا ادارہ سنتا ہے۔صوبے میں ان ناانصافیوں اور محرومیوں کی بدولت اب خودکشیوں کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔

پورے پاکستان میں سب سے زیادہ بلوچستان کے باشندے خط غربت کے شکار ہیں لیکن پھر بھی بلوچستان کے باسی اس امید پر زندگی گزار رہے ہیں کہ ایک نہ ایک دن ضرور ہماری تقدیر بدلے گی اسی امید پر ستر سالوں سے اب تک بلوچستانی جی رہے ہیں۔ بلوچستان کے حکمران اور اپوزیشن ہی صوبے کی تباہ حالی کے ذمہ دار ہیں اور ساتھ ہی ان کی سرپرستی کرنے والے طاقتور بھی صوبے کی تباہ حالی، پسماندگی، عدم ترقی پر برابر کے ذمہ دار ہیں۔ پچاس پچاس کروڑ روپے ترقیاتی فنڈز ملنے کے باوجود بلوچستان کی پسماندگی نیب اورتحقیقاتی اداروں کی کارگردگی پر سوالیہ نشان ہے۔

اتنی خطیر رقم خرچ ہونے کے باوجود ترقی کا خواب کیوں شرمندہ تعبیر نہیں ہو پارہا، کیا آج تک کسی بھی ناقص منصوبے پر کسی کے خلاف ایکشن یا کاروائی کی گئی؟ کیا اتنے منصوبے زمین پر بنے یا یہ سب منصوبے کاغذوں میں بنتے رہے ہیں کبھی یہ منصوبے سیلاب کی نظر ہوتے رہے ہیں کبھی یہ منصوبے زلزلہ کی نظر، اس بار شاید یہ منصوبے کورونا وائرس کی نظر ہو نہ جائیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ اپوزیشن بلوچستان کو own کرے بلوچستان کے مسائل کیلئے حقیقی کردار ادا کرے، صوبے کے مفلوک الحال عوام کا ترجمان بنے اور مثالی کردار ادا کرکے صوبے کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالے تاکہ مرکزی و صوبائی حکومتیں مجبور ہو کر بلوچستان کو ترقیاتی منصوبوں میں اولیت دیں۔بلوچستان کی ترقی ہوگی تو آپ بلوچستان اسمبلی کے اراکین کی سیاست ہوگی بصورت دیگر ان ناانصافیوں کے تسلسل کے تباہ کن اثرات بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔ عوامی ناراضگی سے انقلاب برپا ہو سکتا ہے اور عوامی سیلاب آپ کو بہا کر آپ کی اس دو رخی سیاست کو سمندر برد کر سکتا ہے۔

اب وقت آگیا ہے کہ صوبائی حکومت وزیر اعلیٰ جام کمال خان جس نے صوبے کی ترقی کا نعرہ لگا کر بلوچستان سے ووٹ لیکر کامیاب ہوئے اور اپوزیشن بھی انہی نعروں پر کامیاب ہوئی ہے،اب حذب اقتدار اور حذب اختلاف کا فرض ہے کہ وہ بلوچستان کی دھرتی کی ترقی اور پسماندگی کا مکمل ازالہ کرنے کیلئے بلا امتیاز اجتماعی منصوبوں کو اولیت دیں،پسند ناپسند پر ترقیاتی فنڈز صوبے میں نفرت کا باعث بنتے ہیں،یہ صوبہ ہم سب کا ہے اب اس کی ترقی کیلئے تمام طبقات کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ بلوچستان کوکاغذوں میں ترقی دینے کے بجائے زمینی سطح پر حقیقی ترقی سے ہمکنار کرکے اپنے پیارے صوبے کو ملک کا ترقیافتہ صوبہ بنانا ہوگا تاکہ عوام کی ترقی اور خوشحالی کا نہ رکنے والا سفر تا قیامت جاری رہے۔