آن لائن کلاسز کے حوالہ سے اردو یونیورسٹی کی اکیڈمک کونسل کا اجلاس منعقد ہونے والا ہے۔ تاہم اکیڈمک کونسل کے اجلاس سے قبل ہی بورڈ آف اسٹڈیز، بورڈ آف فیکلٹیز، آن لائن ٹریننگ سیشنز اور دیگر ضروری تیاریوں کے احکامات زور و شور سے جاری ہیں۔ گویا آئندہ ہونے والے اجلاس میں ان تمام امور کو رسمی سند قبولیت بخش دی جائے گی۔ اکیڈمک کونسل کے اجلاس میں تمام اساتذہ کو اپنی سوچ اور فکر کے مطابق اپنی آزادانہ رائے دینے کا اختیار ہے تاہم کوئی بھی رائے دیتے وقت ہمیں یونیورسٹی کی معروضی صورتحال، اساتذہ کے تحفظات اور طلبہ کے مسائل اور مجبوریوں کو مد نظر رکھنا چاہئے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جن یونیورسٹیوں میں آن لائن کلاسز کا آغاز کیا گیا ہے وہاں پر اساتذہ اور طلبہ کو بے تحاشا مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ آن لائن کلاسز صرف Zoom یاGoogle کلاس روم کا نام نہیں بلکہ یہ ایک کلچر ہے۔IBA جیسے ایلیٹ اور باوسائل ادارہ نے 2010ء میں LMS کے پراسس کا آغاز کیا تھا اور آج دس سال گزرنے کے باوجود بھی وہاں صرف 50 فیصد حاضری ہی ممکن ہوسکی ہے۔ (یاد رہے کہ IBA حجم / سائز کے حوالہ سے ایک چھوٹا سا ادارہ ہے)۔ IBA کے ڈائریکٹر سید اکبر زیدی کے مطابق انہوں نے آن لائن کلاسز کا تجربہ کیا۔
لیکن اس میں بے پناہ مسائل ہیں اورآن لائن کلاسز حقیقی کلاس روم کا متبادل کبھی بھی نہیں بن سکتے۔ کیا IBA اور اردو یونیورسٹی کا کوئی تقابل ہے؟ IBA جسے پاکستان کی تمام بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں، فنانشل انسٹی ٹیوٹس اور بینک فنڈنگ کرتے ہیں، عطیات دیتے ہیں، MoU سائن کرتے ہیں، جس کا اپنا انڈاؤمنٹ فنڈ اربوں روپے میں ہے، جب اس جیسے ایلیٹ ادارہ کے سربراہ اپنی بے بسی اور ناکامی کا اظہار کررہے ہیں تو پھر اردو یونیورسٹی کن خوابوں میں ہے؟ شاید IBA اور اردو یونیورسٹی کا بنیادی فرق یہی ہے کہ وہاں ہٹ دھرمی اور سطحی قسم کی جذباتیت سے ہٹ کر حقیقت پسندی پر مبنی سوچ پائی جاتی ہے۔ کراچی یونیورسٹی جیسے مستحکم ادارہ میں جہاں 700 مستقل اساتذہ اور 750 کے قریب غیر مستقل اساتذہ ہیں وہاں بھی اب تک 500 سے بھی کم اساتذہ نے آن لائن فارم بھرے ہیں۔
آن لائن کلاسزکی مخالفت کو ایک اخلاقی مسئلہ بنا کر پیش کیا جارہا ہے اور یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ اساتذہ شاید پڑھانا نہیں چاہتے، بالکل ویسے ہی جیسے کورونا کے دوران ڈاکٹرز کو PPEمہیا کیے بغیر ان کی زندگیوں کو داؤ پر لگا کر انہیں ڈیوٹی کرنے پر مجبور کیا جارہا تھا۔ آن لائن کلاسزکی مخالفت کا تعلق وسائل کی عدم دستیابی، انفرااسٹرکچراور دیگر سہولیات کی عدم فراہمی سے ہے جس کا اظہار پہلے بھی کیا جاچکا ہے۔ اساتذہ اگر اخلاقی دباؤ یا انتظامیہ کی خوشنودی کی خاطر آن لائن کلاسز لے بھی لیں تو جلد انہیں اندازہ ہوجائے گا کہ نہ صرف وہ اپنے پیشہ کے ساتھ ناانصافی کررہے ہیں۔
بلکہ طلبہ کے ساتھ بھی زیادتی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ کیونکہ تعلیم کی اصل روح اور حقیقی علم کا تصور آن لائن کلاسز کے ساتھ ممکن نہیں۔ دنیا بھر کی ترقی یافتہ یونیورسٹیوں میں اساتذہ اکثریت ملٹی میڈیا کے ذریعہ تعلیم کی محض اس لیے مخالفت کررہی ہے کہ اس ذریعہ تعلیم میں طلبہ کے ساتھ Contact Eyeکم ہوتا ہے اور استاد مکالمہ یا Interaction کے بجائے میکانکی انداز میں ایک روبوٹ کا کردار ادا کرتا ہے۔ ایک حقیقی یونیورسٹی کو University Virtualبنا کر ایچ ای سی خچر کو گھوڑا بنانے کی ناکام کوشش کررہی ہے۔
دراصل ہائر ایجوکیشن کمیشن جب آن لائن کلاسز کی بات کرتی ہے تو یہ مؤقف اختیار کرتی ہے کہ انہیں طلبہ کی تعلیم میں خلل آنے کا یا ان کے تعلیمی نقصان کا خدشہ ہے۔ لیکن اگر ہم تعلیمی بجٹ کو ہی دیکھ لیں تو حکومت اور ایچ ای سی کی فکرمندی کی قلعی کھل جاتی ہے۔ 2019-20ء کے تعلیمی بجٹ میں کٹوتی کے بعد ایچ ای سی کی جانب سے یونیورسٹیوں کو یہ حکم نامہ جاری کیا گیا تھا کہ اپنے اخراجات خود پورے کریں۔ ایچ ای سی کے اس حکم کے بعد یونیورسٹیوں میں پہلے سے موجود بھاری بھرکم فیسوں میں 25 سے 100 فیصد مزید اضافہ کر کے طلبہ کو شدید معاشی اور ذہنی جبر کا شکار کیا گیا۔
ایچ ای سی اپنی کوتاہیوں اور ناکامیوں کو چھپانے کے لیے سارا ملبہ اساتذہ پر ڈالنا چاہتی ہے۔ 2002ء میں ایک آمر کے آرڈیننس سے بننے والی ایچ ای سی آج تک یونیورسٹیوں کی ترقی میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکی، سوائے ان کی خودمختاری کو روندنے کے۔ کیا ہمیں ایچ ای سی سے یہ سوال نہیں کرنا چاہئے کہ کورونا بحران کے بعد ورلڈ بینک کی جانب سے ملنے والے 400 ملین ڈالر کس طرح استعمال ہوں گے؟ کیا یہ رقم یونیورسٹیوں کی ترقی پر خرچ ہوگی یا پھر صرف بھاری تنخواہوں پر کنسلٹنٹ بھرتی کیے جائیں گے؟ ایچ ای سی کو اپنی ویب سائٹ پر بتانا چاہئے کہ انہوں نے اب تک سوائے باتوں کے، گائیڈ لائنز کے، انسٹرکشن کے عملی طور پر یونیورسٹیوں کو کیا اضافی سہولیات فراہم کی ہیں؟
اردو یونیورسٹی کی اکیڈمک کونسل کو بھی بطور دستوری ادارہ ایچ ای سی کی ان پالیسیوں کو ماننے سے گریز کرنا چاہئے اور انتظامیہ بالخصوص وائس چانسلر، رجسٹرار اور ڈین صاحبان کو بھی اساتذہ کی اجتماعی دانش کا احترام کرتے ہوئے یونیورسٹی کے محدود وسائل اور متذکرہ تمام مسائل کا جائزہ لے کر درست اور منطقی فیصلے کرنے چاہئیں۔ میں ایک دفعہ پھراس بات کو دہرانا چاہوں گا کہ آن لائن کلاسز کے منصوبہ کو معطل کرتے ہوئے سمسٹر بریک کو جاری رکھا جائے۔ عجلت اور جلد بازی میں لیا گیا کوئی بھی فیصلہ اردو یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبہ کے لیے شدید مسائل کا باعث بنے گا۔