جیسا کہ پچھلے کالم میں ذکر ہوا کہ تقسیم بنگال کو لے کر کانگریس کی جانب سے سوَدیشی موومنٹ شروع ہو گئی۔ہر طرف گونج سنائی دینے لگی کہ یہ تو گاؤ ماتا کو تقسیم کرنے کے مترادف ہے rule and Divideکیا جا رہا ہے۔ کانگریس میں قیاس آرائیاں اور ابہام پیدا ہوا کہیں ہمارے خلاف سیاسی جماعتیں تو نہیں بنائی جا رہی ہیں کیونکہ وہ سمجھتی تھی ہندوستان کے مسلما نوں نے اپنا ایک سیاسی میکنیزم بنانے کے لیے جہد مسلسل جاری رکھی ہوئی ہے۔مسلم لیگ کے قیام سے پہلے پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں نے سیاسی پارٹیاں تشکیل دی تھیں جو کام بھی کر رہی تھیں۔
اس سے کانگریس بڑی خائف تھی اور اس تشکیک میں مبتلا تھی کہ برٹش ہمارے خلاف یہ سیاسی پارٹیاں بنا کے Division کی پالیسی لانا چاہتی ہے جو کسی صورت کانگریس کو نا منظور تھی۔یاد رکھیں سوددیشی موومنٹ کا یہ ہر گز مطلب نہیں تھا کہ وہ برٹش امپر یلزم کے خلاف ایک موومنٹ تھی بلکہ کانگریس کو اپنا وجود خطرے میں پڑتا دکھائی دے رہا تھا۔اور دوسری طرف مسلم لیڈرشپ بتدریج ایک منطقی نتائج کی طرف پہنچ رہی تھی دیر سے پہنچی مگر درست پہنچی۔اب جب مسلمان کسی حد تک اپنے ہدف تک پہنچ چکے تھے تو انکے اذہان میں یہ بات کھٹک رہی تھی کہ کس طرح برٹش کو قائل کیا جائے تو انہوں نے سوچا اس کے لیے برٹش سے میٹنگ ضروری ہے۔
سو انہوں نے علی گڑھ کے پرنسپل آرک بولڈ کے ذریعے برٹش سے ملنے کا منصوبہ بنایا۔علی گڑھ سے مسلم رہنما وقار الملک اور محسن الملک جڑے ہوئے تھے سر آغا خان وہ بھی برٹش سرکلز میں بڑے ان تھے۔گورنر جنرل آدھے سے زیادہ سال شملہ بیٹھا رہتا تھا شملہ ایک ہل اسٹیشن ہے جس طرح ہمارے ہاں مری۔کلکتہ میں گرمی اور حبس کا موسم ہوتا تھا اس وجہ سے گورنر جنرل شملہ میں ہی ہوتے تھے۔مسلم لیڈرشپ نے گورنر جنرل سے ملاقات کرنے کا وقت طے کیا۔ظاہر ہے اس بات کی بھنک کانگریس کو بھی لگی مسلم لیڈرشپ کیا کر رہی ہے تال میل ہو رہا ہے۔
پیغامات کا سلسلہ چل رہا ہے کانگریس کی طرف سے احتجاج میں مزید شدت آ گئی اور اینٹی مسلم مہم شروع ہوگئی۔وقت طے ہوا اور مسلم لیڈرشپ سر آغا خان کی قیادت میں شملہ پہنچا، 35 ممبرز میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جو سر سید School of thought سے نہ تھا۔ یہ تمام کے تمام علی گڑھ سے بھی کسی نہ کسی طرح جڑے ہوئے تھے۔لارڈ کرزن واپس چلے گئے تھے اور آگے چل کر وہ سیکرٹری آف اسٹیٹ فار انڈین افیئرز بنے اس طرح نہیں تھا کہ اس نے سیاست کو خیر باد کہہ دیا وہ برٹش پارلیمنٹ سے جڑے رہے اور کمال کی سیاست کرتے رہے۔
اس وقت گورنر جنرل لارڈ منٹو تھے مسلم قیادت اکتوبر 1906 کو شملہ میں گورنر جنرل سے ملی اور گورنر جنرل کے سامنے اپنے مطالبات رکھے اور یہ پہلی دفعہ مسلم قیادت نے سیاسی طور پر برٹش کے سامنے اپنی ڈیمانڈ رکھی۔اس وفد کو عرف عام میں شملہ وفد کہا جاتا ہے۔منٹو نے Demands کو دیکھا اور کہا جناب میں تو approval نہیں دے سکتا approval برٹش پارلیمنٹ دے سکتی ہے۔میں تو بھیج دوں گا سیکرٹری آف اسٹیٹ کو۔لیکن ایک بات واضح کر دوں آپ کے یہ مطالبات برٹش پارلیمنٹ سے بھی منظور نہیں ہونے والے۔آپ کوئی اپنی سیاسی جماعت بنائیں اور اس کے فورم سے یہ چیز میرے سامنے لائیں اور میں اسے فارورڈنگ نوٹ لگا پازیٹیو ریمارکس کے ساتھ آگے بھیج دوں گا۔
منٹو کی بات تو اپنی جگہ صائب تھی۔اس وجہ سے کئی کانگریسی کہتے تھے کہ مسلم لیگ تو برٹش نے بنائی۔جناب منٹو نے تو ایک مشورہ دیا تھا اور اس کا مشورہ اپنی جگہ درست تھا اس میں تو کوئی دو حرفی بات نہیں ہے جب بات برٹش پارلیمنٹ کے سامنے رکھنی ہے کہ 35 مسلمان جن کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں ہے کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے ایسا تو نہیں تھا نا! کسی سیاسی جماعت کی ضرورت تو تھی۔
دو ماہ بعد دسمبر میں آل انڈیا مسلم لیگ بن گئی۔اور یہ بات کبھی بھی ذہن میں نہ رکھی جائے کہ یہ جماعت انگریزوں نے تشکیل دی۔ بھائی انہوں نے ایک مشورہ دیا تھا اور مسلمانوں نے اس مشورے کو تسلیم کر لیا اس میں کوئی مسئلہ تو نہیں ہے۔اچھا جب یہ وفد گورنر جنرل سے ملنے گیا تو یہ اپنے ساتھ کیا لے کر گئے۔یہ بڑی پڑھی لکھی لیڈرشپ تھی انہوں نے جو مطالبات سامنے رکھے تھے کمال کے مطالبات تھے جو ان کی سیاسی بصیرت کو عیاں کرتا ہے۔(جاری ہے)