اسلام آباد : حکومت نے صارفین سے گیس ڈویلپمنٹ انفراسٹرکچر سیس (جی آئی ڈی سی) کی مد میں سو ارب روپے جمع کرانے کے لیے ایک آرڈنینس نافذ کرنے کا فیصلہ اس وقت کیا ہے جب سپریم کورٹ نے فنانس بل میں اس ریکوری کو غیرقانونی قرار دیا تھا۔
منگل کو ایک پریس کانفرنس کے دوران وزیر پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیل دائر کردی گئی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں سیکرٹری پیٹرولیم عابد سعید نے بتایا کہ اعلیٰ عدالت نے حکم میں کہا تھا کہ جی آئی ڈی سی ٹیکس نہیں بلکہ ایک فیس ہے اور اسے مالیاتی بل کے ذریعے نافذ نہیں کیا جاسکتا۔
انہوں نے کہا کہ عدالت نے سیس کو مسترد نہیں کیا تھا تاہم اس نے تیکنیکی بنیاد پر اس کے خلاف فیصلہ دیا۔
عابد سعید کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس اختیار ہے کہ عدالت میں نظرثانی درخواست پر فیصلہ آنے تک نیا آرڈنیس جاری کرکے جی آئی ڈی سی کو وصول کرسکے، اگر آخری فیصلہ حکومت کے خلاف آیا تو پھر سیس کو پارلیمنٹ کے ذریعے تحفظ دینے کے بارے میں سوچا جائے گا، وزارت قانون نے قانونی رائے دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کی جانب سے سیس کو مسترد کیے جانے کے بعد آرڈنینس کو نافذ کیا جاسکتا ہے۔
واضح رہے کہ حکومت نے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ سے رواں مالی سال کے دوران جی آئی ڈی سی کے ذریعے 145 ارب روپے جمع کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
وزیر پیٹرولیم نے کہا کہ حکومت نے صارفین سے 2011 سے جی آئی ڈی سی کی مد میں 84 ارب روپے جمع کیے ہیں جبکہ بائیس ارب روپے سی این جی اور کھاد کی صنعتوں نے ادا کرنے ہیں۔
شاہد عباسی کا کہنا تھا کہ سیس سے حاصل ہونے والی آمدنی کو پاک ایران اور ترکمانستا، افغانستان، پاکستان، ہندوستان پائپ لائنز اور ایل این جی درآمد، ایل پی جی پرائس ریگولیشن اور گیس انفراسٹرکچر پر خرچ کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ وزارت خزانہ جی آئی ڈی سی سے حاصل ہونے والی آمدنی ایک علیحدہ شعبے میں اکھٹی کی ہے اور وزارت پیٹرولیم کی درخواست پر اسے فراہم کر دے گی۔
انہوں نے کہا”ہم سیس فنڈز کے حصول کے لیے جی آئی ڈی سی سربراہ کو ارسال کررہے ہیں تاکہ گیس پائپ لائنز، گوادر میں ٹگز اور ایل این جی ہینڈلنگ پر کام کیا جاسکے”۔
انہوں نے مزید کہا کہ سو ارب روپے کی لاگت سے نارتھ ساوتھ پائپ لائن کا منصوبہ شروع کیا جارہا ہے جس کے ذریعے ایل این جی کو کراچی سے شمالی علاقوں تک پہنچایا جائے گا۔
پاک ایران پائپ لائن
وفاقی وزیر نے کہا کہ تہران سے پاک ایران پائپ لائن منصوبے پر بات چیت میں پیشرفت ہوئی اور مذاکرات کے اگلے دور کی تاریخیں ایرانی حکام کی جانب سے طے کی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ اکتیس دسمبر کے بعد پاکستان کو دوطرفہ گیس معاہدے کے تحت جرمانے کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے کیونکہ وہ منصوبے پر عملدرآمد پر ناکام رہا ہے، تاہم اسلام آباد نے ایران کو ایک نوٹس جاری کیا ہے کیونکہ موجودہ حالات پاکستان کنٹرول سے باہر ہیں،تہران پر امریکی پابندیاں اس کی ایک مثال ہیں۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ گوادر سے نوابشاہ کے درمیان لگ بھگ سات سو دس کلومیٹر لمبی ایل این جی پائپ لائن بچھانے کے لیے ایک سمری کابینہ نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کو بھجوائی ہے جو کہ ایک متبادل منصوبہ ہے، اس کے بعد گوادر سے ایرانی سرحد تک سترہ کلومیٹر کا علاقہ باقی رہ جائے گا، جس پر تعمیر کا کام ایران پر عالمی پابندیاں ہٹتے ہی فوری شروع کردیا جائے گا۔
گیس چوری
انہوں نے کہا کہ سوئی نادرن کو گیس چوری کے باعث دس ارب روپے(چار فیصد) کا نقصان اٹھانا پڑا ہے، جس میں کرک میں ضائع ہونے والے ڈھائی فیصد حصہ شامل نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کے پی کے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے تحریری طور پر آگاہ کیا ہے کہ اس علاقے میں ان کی حکومت کی رٹ نہیں اور وہ اس حوالے سے کوئی مدد نہیں کرسکتے۔
وفاقی وزیر نے کہا”ہم نے آٹھ ارب روپے کے ایک پراجیکٹ کو متعارف کرانے کا منصوبہ بنایا ہے جس کے اخراجات خیبرپختونخوا کے ساتھ شیئر کرکے کرک کے علاقے میں گیس کنکشنز کو دائرہ قانون میں لایا جائے گا”۔
انہوں نے کہا” ہم گیس کے بلوں کی وصولی کے حوالے سے ریگولیٹز کے لیے پالیسی گائیڈلائنز جاری کریں گے”۔
انہوں نے مزید کہا کہ گیس چوری پر نظر رکھنے کے لیے ٹیکنالوجی کی ضروری ہے کیونکہ قانون چوری کو پکڑنے میں ناکام رہتا ہے۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ حکومت ایل پی جی قیمتوں کو ریگولیٹ کرنا چاہتی ہے اور اس حوالے سے تجاویز جلد مشترکہ مفادات کونسل میں جمع کرائی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال کی طرح رواں برس بھی موسم سرما میں گیس کی لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑے گا” اگر ہم ایل این جی کو لانے کے قابل ہوگئے تو صورتحال میں بہتری آسکتی ہے”۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت آئل و گیس کمپنیوں کے سربراہان کا تقرر ان کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی سفارشات کی روشنی میں کرے گی۔
وفاقی وزیر کے مطابق کے پی دی اور نشپا فیلڈز کے کنٹریکٹس میں تاخیر پر او جی ڈی سی ایل کے حکام کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت صنعتی یونٹس کے لیے علیحدہ گیس میٹرز لگانے کے منصوبے پر کام کررہی ہے جن کا ریٹ بجلی بنانے والے یونٹس سے الگ ہوگا، کیونکہ ٹیکسٹائل ملیں سستی بجلی کی پیدوار سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔