|

وقتِ اشاعت :   June 14 – 2020

تخلیق انسان کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت اور بندگی ہے۔اسی عبادت اور بندگی پر ابھارنے کیلئے اللہ نے انبیاء و رسل علیھم السلام مبعوث فرمائے۔عبادت کے کئی شعبے ہیں جیسے نماز،روزہ،جہاد، زکوٰۃ وغیرہ لیکن ان تمام اوامر کو بجالانے کیلئے قیام خلافت ضروری ہے۔اسی وجہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین میں خلیفہ مقرر فرمایا تاکہ ان اوامر و منہیات پر دوسرے انسانوں کو پابند بنائے۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین نے زمام اقتدار اپنے ہاتھ میں لے کر مسلمانوں کو معروفات کاحکم کرتے رہے اور منہیات سے روکتے رہے اور اعلائے کلمۃ اللہ کیلئے اعداء اللہ سے جہاد بھی کرتے رہے۔

اور یہ دور مسلمانوں کے عروج کا دور ہے اور دین اسلام تمام ادیان پر غالب رہا۔اور کفار فوج در فوج اسلام میں داخل ہوتے رہے۔زمانے کے تغیرات اور تبدیلوں کے ساتھ ساتھ دعوت الی اللہ اور اعلائے کلمۃاللہ و دیگر احکام خداوندی کے نفاذ واجراء کیلئے زمانے کے سہولتوں سے استفادہ کرتے رہے۔ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی عسکری تبدیلیاں اس کی بین دلیل ہے۔اسی طرح عباسی اور اموی خلفاء نے بھی متعدد تبدیلیاں کی اور دین اسلام کے روح کو مد نظر رکھتے ہوئے جدید سہولتوں سے استفادہ کیا۔فاتح قسطنطنیہ عثمانی خلیفہ سلطان محمد فاتح نے جب قسطنطنیہ فتح کیا تو اس وقت دنیا کا سب بڑا توپ مسلمانوں کے پاس تھا۔

لیکن انیسویں اور بیسویں صدی میں جب یورپ مغرب میں صنعتی انقلاب آیا اور ایسی چیزیں وجود میں آئیں کہ دنیا دنگ رہ گئی۔باوجود کہ اس مادی ترقی کے مغرب کے اخلاق زبوں حالی کے شکار ہوگئے یہاں تک کہ خدا کا انکار کر بیٹھے۔اسی صدی میں اہل یورپ نے تمام بحری تجارتی راستوں پر قبضہ کرلیا اور ان کواپنے زیر دست لائے تو عالم اسلام کو معاشی اعتبار سے زبردست ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔یہ مسلمان خلفاء کی سب سے بڑی غلطی تھی جس کے نتائج بد آنے والے وقتوں میں عالم اسلام کے مغلوبی کی شکل میں ظاہر ہوئے۔

اس زبردست اخلاقی،معاشی اور صنعتی انقلاب پر عالم اسلام کے کچھ ممالک نے مغرب کو تمام صالح اور مضر افکار و نظریات کے ساتھ قبول کرلیا اور مغربیت نے ان ممالک میں اپنے پنجے مضبوطی کے ساتھ گاڑ لیئے۔اور نتیجتاً ان اسلامی ممالک کے نسل نو دین سے دور ہوتے چلے گئے اور مذہبی معتقدات سے سخت نفرت کرنے لگے اور اسلام سے متنفر اور مغربیت کے دلدادہ ہوگئے.لیکن دوسری طرف کچھ اسلامی مشرقی ممالک ایسے تھے جہاں مسلم حکمرانوں اور علمائنے قدیم روایات کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھا اور مغرب کے صالح اور مفسد تمام چیزوں کو یکسر مسترد کردیا جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ زندگی کی جدجہد میں معاصر اقوام سے پیچھے رہ گئے۔چنانچہ افغانستان اور یمن اسکی واضح مثال ہیں۔

دوسری جنگ عظیم کے وقت افغانستان دو عظیم ملکوں کے درمیان ہونے کے باوجود اپنی قدیم روایات کو تھامے رکھا اور افغانی باشندے دنیا کی جدید سہولتوں سے نابلد تھے وہاں موٹرز کاریں سڑکیں اور دوسری سہولیات نہ ہونے کہ برابر تھیں۔صرف ایک ٹیلیفون دارالحکومت میں تھی۔چنانچہ یہ ایک طرح سے فطرت کے خلاف بغاوت تھی اور فطرت سے جنگ کا نتیجہ ہمیشہ ناکامی کی ہی صورت میں نکلتا ہے۔چنانچہ ان کا یہ حصار زیادہ دیر تک نہ چل سکا اور مغربی تہذیب اپنی جدید سہولتوں کے ساتھ ساتھ اپنے افکا رو نظریات کو بھی لایا۔چنانچہ بے پردگی، مخلوط نظام تعلیم غرض مغرب کی اکثر برائیاں افغانستان میں داخل ہوئیں۔

اور پردہ نشین عورتیں محفلوں کی زینت بننے لگیں۔جہاں امیر امان اللہ خان کو صرف اس بات پر اپنے عہدے اور امارت سے دستبردار ہونا پڑا کہ اس نے اپنی بیوی کو بے پردہ باہر نکلنے کی اجازت دی تھی اب وہاں سڑکوں پر مغربی لباس میں چلنا فخر کی بات سمجھی جانے لگی ہے. اور یمن میں بھی یہی صورت حال رہی 1955 تک یمن نے اپنے گرد مضبوط حصار قائم رکھا لیکن بالآخر مغربی تہذیب اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ اسلامی مشرقی ممالک میں فروکش ہوا۔نتیجہ یہ نکلا کہ مشرقی اسلامی ممالک میں ایک ذہنی خلفشار، دلی بدسکونی،اور ایک سیاسی بحران نے جنم لیا۔

ایک ہی ملک کے باشندے دو حصوں میں تقسیم ہوگئے ایک گروہ وہ تھا جو مغرب کا دلدادہ اور مغربی تہذیب و تمدن کے نفاذ کو اپنا نصب العین بنا کر اسی مقصد کیلئے اپنی جان کی بازی لگا رہا تھا۔ اور دوسری طرف وہ گروہ تھا جو اپنے قدیم روایات کو مضبوطی کے ساتھ تھامے ہوئے اور مغربیت کو یکسر مسترد کرنے کیلئے جان کی بازی لگارہا تھا۔ چنانچہ آئے روز نت نئے مسائل جنم لے رہے ہیں۔اس بدسکونی اور خلفشار کو ختم کرنے کیلئے اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ شریعت الہیہ میں نئی ایجادات کو استعمال کرنے اور نت نئے ایجادات کرنے کی پرزور تاکید کی گئی لہذا مغرب کی ان ایجادات کو لینا ہے جہاں تک روح شریعت متاثر نہ ہو۔ مفکر اسلام سید ابو الحسن علی ندوی رقمطراز ہیں:

”مغرب سے ہمیں وہ لینا ہوگا جو اسلامی ممالک اور معاشرہ کیلئے مفید اور اسکے عقیدہ سے ہم آہنگ ہے۔اور بجائے خود کوئی عمل اورایجابی افادیت رکھتا ہے اور قوم و ملک کو مضبوط کرسکتا ہے اور زندگی کی جدجہد اور سرفروشی اور دعوت الی اللہ کے مقصد میں مفید ہوسکتا ہے“ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی نسل نو کی تربیت کی فکر بھی کرنی چاہئے تاکہ استعمار کے شنکجوں سے نکل کرخودداری اور خود کفیل بن جائیں اس سے نمٹنے کیلئے نظام تعلیم کی تشکیل نو کرنے کی ضرورت ہے۔

جو نظام تعلیم اپنے آغوش میں پلنے والے پھولوں میں بقول شیخ ابو الحسن علی ندوی کے مذکورہ اوصاف پیدا کر سکے کہ”ایک طرف ایمان و یقین، اخلاقی قوت، استقامت،خود اعتمادی و خود داری اپنے دین پر غیر متزلزل یقین اور اس کیلئے قربانی کا جذبہ، دوسری طرف قوت ایجاد، فکری استقلال، بلند ہمتی اور اولوالعزمی پیدا کرے اور جرات و ذہانت کے ساتھ مغرب کا مقابلہ کرنے کا جوہر اور اوصاف پیدا کرسکے“
اللہ عالم اسلام کو اس صورت حال سے نجات عطا فرمائے (آمین)