امریکا نے شام کے اندر موجود داعش کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ۔ امریکی جنگی جہاز سے 47کروز میزائل داغے گئے اور طیارہ بردار جہازوں سے ان علاقوں پر بمباری کی گئی ۔ امریکا کے ساتھ ساتھ پانچ عرب مالک سعودی عرب ، بحرین ، عرب امارات ، قطر اور اردن کے جہازوں نے بھی ان فضائی حملوں میں حصہ لیا ۔ اس سے قبل عراق میں داعش کے ٹھکانوں پر امریکا بمباری کرتاآرہا ہے ۔ عراق خود اپنے جنگی طیارے استعمال کرکے داعش کیٹھکانوں پر مسلسل بمباری کررہا ہے اور بڑی حد تک داعش کی فوجی پیش قدمی روک دی گئی ہے ۔ شام میں الرقہAr.RAQQAپر حملے کیے گئے ہیں اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ داعش کا دارالخلافہ ہے ۔ جہاں پر فوجی تربیت گاہ ، اسلحہ کے ڈپو، ٹرانسپورٹ اور داعش کے سینئر لڑاکے بھی یہاں مقیم ہیں ۔ اطلاعات کے مطابق داعش کے افواج کو فضائی بمباری میں شدید نقصان پہنچاہے ۔ اس کی پیش قدمی کی صلاحیت بہت حد تک کم کردی گئی ہے۔ صدر اوباما نے کہا ہے کہ شام پر فضائی بمباری کی ابھی ابتداء ہوئی ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ یہ جنگ طویل ہوگی امریکا نے کسی تیسرے ملک کے ذریعہ شام کو فضائی بمباری کی اطلاع دی ۔ ابھی تک برطانیہ اور فرانس نے شام پر بمباری میں حصہ نہیں لیا ہے ۔ آنے والے دنوں میں شاید یہ دو یورپی ممالک بھی فضائی بمباری میں حصہ لیں گے۔ سعودی عرب ، عرب امارات، بحرین، قطر اور اردن شام میں اپنی زمینی افواج استعمال کر سکتے ہیں جن کو امریکی امداد حاصل ہوگی ۔ امریکا نے یہ کہا ہے کہ وہ شام اور عراق میں خصوصاً داعش کے خلاف جنگ میں اپنی زمینی افواج استعمال نہیں کرے گا۔ البتہ ماہرین کی رائے ہے کہ جلد یا بدیر امریکا اور دیگر یورپی ممالک کو اپنی زمینی افواج استعمال کرنی پڑے گی ۔ اس کے بغیر امریکا اور اسکے اتحادی یہ جنگ نہیں جیت سکتے۔ ادھر ایران کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آرہا ہے ایرانی صدر روحانی نے ان حملوں کو غیر قانونی قرار دیا اور کہا کہ یہ شام کی سالمیت پر حملہ ہے کیونکہ یہ حملے شام کی مرضی سے نہیں ہورہے ہیں ۔ادھر ایرانی وزارت خارجہ نے بھی سخت رد عمل کااظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ شام پر حملے نا قابل قبول ہیں ایران ان حملوں کی مسلسل نگرانی کررہا ہے ۔ ایران اپنے دوست ممالک اوراقوام متحدہ سے مشورہ کررہا ہے اور اس کے بعد اپنے با قاعدہ رد عمل کا اظہار کرے گا۔ ایران شام کا اتحادی ملک ہے ۔ ایران شام کی حکومت کی حمایت کرتا ہے ۔ ادھر بعض مبصرین کا خیال ہے کہ ایران کے منفی رد عمل کے بعد ہوسکتا ہے کہ یہ امریکی اتحاد ایران کے خلاف ایک بڑے اتحادمیں تبدیل ہوجائے ۔ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک صدر اسد کی حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں سنی اکثریت اس کے شیعہ اقلیتی حکومت کے خلاف ہیں جبکہ ا یران شام کا حامی ہے ۔ امریکا اور دوسرے مغربی ممالک سب سے زیادہ الزامات ایران پر لگاتے ہیں کہ وہ یمن ، غزہ ، لبنان ، بحرین ، سعودی عرب، پاکستان ، مقبوضہ کشمیر میں اپنے پراکسی کی مالی اور فوجی اہانت کررہا ہے اور اس طرح سے خطے میں غیر یقینی صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔ایران ان تمام الزامات کی تردید کرتا ہے اور ان کو ایران کیخلاف پروپگنڈے سے تعبیر کرتا ہے ۔ تاہم سعودی عرب اور امریکا ایران کیخلاف اتحاد کی رہنمائی کررہے ہیں اور ممکن ہے کہ سعودی عرب کی خواہش پر شام مخالف اتحاد کو ایران مخالف اتحاد میں تبدیل کردیا جائے اور ہوائی اور زمینی حملوں کا رخ ایران کی طرف ہو ۔ایسی صورت میں ایرانی اور پاکستانی بلوچستان اس جنگ کی زد میں آئیں گے جس سے یہ جنگ پاکستان تک پھیل سکتی ہے ۔ابھی تک پاکستان اور بھارت کی جانب سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ۔ پاکستان نے حال ہی میں اعلان کیا تھا کہ شام کے مسئلے پر وہ سعودی عرب کے موقف کا حامی ہے ۔ یہ اعلان سعودی ولی عہد اور وزیر خارجہ کے دورہ اسلام آباد کے دوران کیا گیا ۔ بعد میں وزارت خارجہ نے اس بات کی تردید کی کہ پاکستان نے اپنا موقف تبدیل کردیا ہے ۔ البتہ موجودہ صورت حال میں پاکستا ن کا موقف انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا غالباً وہ سعودی عرب کے قریب ترین ہوگا۔
شام پر امریکی حملے
وقتِ اشاعت : September 25 – 2014