سترہ جون قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس جاری ہے جسکے دوران بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے باقاعدہ طور پر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی حمایت واپس لینے کا اعلان کردیا کچھ روز قبل ایک تحریر میں ساری منظر کشی کرچکا تھا کہ سردار اختر مینگل کو غصہ کیوں آتا ہے ٹیکنالوجی کے اس دور میں اگر وہ تحریر پاکستان تحریک انصاف تک پہنچ جاتی تو کیا ہی بات تھی لیکن جیسے کہ اتحادیوں سے پاکستان تحریک انصاف کا رویہ ہے تو اسکے بعد ہم اپنی تحریر کا کیا گلہ کریں اور بحیثیت ایک صحافی کے معاملے کی نشاندہی ہماری ذمے داری تھی سو کردی اس سے زیادہ ہمارا اس اتحاد سے کوئی مفاد نہ پہلے تھا نہ اب ہے اور نہ آئندہ ہوگا۔
پاکستان تحریک انصاف نے جو نمبرز الیکشن میں حاصل کئے اسکے بعد اسے کوئی بڑی جماعت اتحاد کیلئے نہ ملی اور پی پی پی اور ن لیگ سے اتحاد ممکن بھی نہ تھا تو پھر مرتے کیا نہ کرتے چھوٹی جماعتوں اور آزاد اراکین سے رابطے ہوئے تو ہی نمبر گیم پوری ہوئی، اب کل سے قومی سطح کے تجزیہ نگاروں کی توپوں کا رخ سردار اختر مینگل کی طرف ہے، دبے لفظوں میں انہیں بلیک میلر بھی گردانا جارہا ہے۔کل ارشاد بھٹی تجزیہ نگار اور جی این این کے اینکر عمران خان کو ٹی وی پر بڑے بھائی کاشف عباسی کے پروگرام میں سن رہا تھالب لباب یہ تھا کہ سردار اختر مینگل کچھ لو اور دو کیلئے یہ کررہے ہیں۔
تو بھائی یہ بتائیں یہ سیاسی اخلاقیات کس نے پروان چڑھائی ہیں۔ سردار اختر مینگل بھی اسی سیاسی نظام کا حصہ اور اس ملک کے شہری ہیں جس ملک میں جو سیاسی اخلاقیات ہیں وہی سردار اختر مینگل نہیں اپنائینگے توکیا حاصل ہوگا، وہ صرف زندہ باد اور مردہ باد کیلئے سیاست نہیں کررہے انکے ووٹر سپورٹر کے مسائل بھی وہی ہیں جو کہ پاکستان کے جملہ عوام کے ہیں اور ملک کا سیاسی کلچر جب ٹھیک ہوگا تو ہمارے چھوٹے صوبوں کے سیاستدان بھی ٹھیک ہوجائینگے۔ میری آج کی بحث کا مقصد کسی پر ذاتی تنقید نہیں بلکہ اپنی بات پر آنے کیلئے ایک ماحول بنانا ہے۔
کیا تحریک انصاف سے بلوچستان میں صرف اختر مینگل یا انکی جماعت ناراض ہے تو ابھی کچھ روز قبل بلوچستان عوامی پارٹی کے سیکریٹری جنرل منظور کاکڑ کی سینیٹ کی تقریر سن لیں، پھر بتائیں کہ کیا وہ خوش ہیں، کیا جے ڈبلیو پی کے شاہ زین بگٹی یا آزاد رکن قومی اسمبلی محمد اسلم بھوتانی مطمئن ہیں اور تو اور تحریک انصاف بلوچستان میں کیا اراکین قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کیساتھ سارے معاملات بہت اچھے ہیں۔ میرا جواب ہے نہیں۔ا ب آتا ہوں کہ کیا سب کچھ نہ ہونے کی ذمے داری اسٹیبلشمنٹ پر عائد ہوتی ہے تحریک انصاف لاپتہ افراد کے معاملے پر دیگر سیاسی ایشوز کو بھی قالین کے نیچے دبا رہی ہے۔
سیاسی کارکن قوم پرست سیاسی و جمہوری جماعتیں اس بیانیے سے اتفاق کریں یا اختلاف لیکن تلخ اور واضح بات ہے جس اسٹیبلشمنٹ پر الزام لگا کر پی ٹی آئی اپنا گناہ دھونا چاہتی ہے اس اسٹیبلشمنٹ نے پھر کچھ عملی اقدام اٹھائے سردار اختر مینگل کو مطمئن کرنے کی کوشش کی لیکن جو سیاسی مطالبات تھے جیسے گوادر پر قانون سازی کیا اسکا بل بھی اسٹیبلشمنٹ نے ڈرافٹ کرنا تھا،افغان مہاجرین کیلئے جو بھی فیصلہ ہواسکے لئے کتنے رابطے کئے گئے، کیا وزیر اعظم نے خود سردار اختر مینگل سے معاہدے کے باوجود پاکستان میں پیدا ہونے والے افغان شہریوں کو پاکستان کی شہریت دینے کی بات نہیں کی۔
وفاق میں سویلین اداروں میں بلوچستان کی پسماندگی کو مد نظر رکھ کر کتنی رعایت دیکر بلوچستان کے نوجوانوں کو ملازمتیں دینے کیلئے کتنے اشتہار اخبارات میں آئے، اعلٰی تعلیم کیلئے جو اسکالر شپ شروع ہوئی تھیں وہ آپ کے دور میں ختم نہیں ہوئیں؟ اور کیا آپ بتاسکتے ہیں وفاقی حکومت نے بلوچ نوجوانوں کو اعلٰی اور فنی تعلیم دیکر سی پیک سے مستفید ہونے کیلئے کونسے پروگرام پلان کئے، حالانکہ یہی کوشش عسکری ادارے اپنی بھرتی کے رولز ریلیکس کرکے کرچکے ہیں اور اسکے نتائج ایک بگٹی نوجوان نے سوارڈ آف آنر لیکر ظاہر کردیئے ہیں۔
دوسری جانب حال ہی میں واپڈا میں کوئٹہ اور بلوچستان کیلئے ریونیوآفیسرز کی چالیس سے زائد پوسٹوں پر بلوچستان کے صرف دو لوگ بھرتی ہوئے،معاملہ سینیٹ اور قومی اسمبلی میں اٹھا کیا وفاقی وزیر عمر ایوب کے کان پر جوں رینگی۔۔ نہیں۔ بار بار کل سے سن رہا ہوں جان اچکزئی بھی کہہ رہے تھے جی اختر مینگل صاحب کے مطالبات ایسے ہیں جن کا تعلق مقتدرہ سے ہے اور ان مطالبات کو تسلیم کروانا آسان نہیں ہے، خدا کا خوف کریں پاکستان میں سب اچھا کیا اللہ نے کیا، برا کیا تو انہوں نے کیا کے بیانیئے کو اتنا تقویت نہ دیں کسی کا دفاع نہیں کرونگا۔
پہلے کہہ چکا ہوں سہی اور غلط فیصلوں کی ایک لمبی لسٹ ہوگی لیکن کیا جو اب دیا جارہا ہے وہ ٹھیک ہے؟ پاکستان تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی قوتوں نے یہ وطیرہ بنا لیا ہے کہ اپنی غلطی دوسرے کے سر ڈال دیں، کیا پاکستان تحریک انصاف نے بلوچستان کو حاتم طائی کی قبر پر لات مار کر کوئی دو ملازمتیں زیادہ دی ہوں، بجٹ کے فنڈز میں کوئی میگا پراجیکٹ رکھا ہو تو بتادیں،قصہ مختصر وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان عمران خان صاحب جہانگیر خان ترین سے پوچھتے کہ سردار اختر مینگل اور جام کمال سے کیا بات ہوئی تھی، ان پر کتنی پیش رفت ہوئی، جہانگیر ترین صاحب کی بلوچستان کے مائننگ سیکٹر میں کیا خواہشات تھے۔
اگر جام کمال اختلاف نہ کرتے تو عمران خان صاحب آپ چینی اور گندم کا اسکینڈل بھول جاتے،کبھی یہ بات وزیر اعظم صاحب کے علم میں آئی اور ہاں احتساب کے علمبردار وزیر اعظم کی جماعت کے بلوچستان میں وزیر صحت کو جام کمال نے کابینہ سے کیوں نکالا تھا، کیا کبھی یہ سوال ہوا ؟پی ٹی آئی اور بی این پی مینگل کے معاہدے پر دستخط کرنے والے سردار یار محمد رند کو جہانگیر ترین کے عتاب کا سامنا کیوں کرنا پڑا،جب تک پی ٹی آئی کی پاور پالیٹکس میں جہانگیر ترین کا سکہ چلتا تھا اس وقت سردار یار محمد رند کیوں کنارہ کش رہے؟ وزیر اعظم صاحب اپنی جماعت اور انکے ہمنواؤں کو سمجھائیں۔
ہر معاملے کو دوسرے پر ڈال کر اگر آپ جان چھڑائینگے تو یہی کام پہلے بھی ہوتا رہا ہے، پھر آپ میں اور گزشتہ حکمرانوں میں کوئی فرق نہیں۔ کچھ ایسی ہی باتیں آصف علی زرداری،نواب اسلم رئیسانی کو بتاتے رہے کچھ ایسے ہی قصے میاں نواز شریف نے میر حاصل خان بزنجو اور محمود خان اچکزئی کو بھی سنائے ہونگے اور ہاں پانچویں نیشنل سیکیورٹی ورکشاپ میں جب بلوچستان کا وفد وزیر اعظم سے چند ماہ پہلے ملا تھا تو وزیر اعظم عمران خان کیاآپ نے ہمیں یہ نہیں بتایا کہ قوم پرست ایوانوں میں کچھ اور، دفتروں اور ڈرائینگ روم میں کچھ اور مانگتے ہیں۔
خدارا اگر بلوچستان کے کسی منتخب نمائندے نے کچھ غلط مانگا تو اسی قومی اسمبلی کے فلور پر جہاں اختر مینگل نے آپکی حمایت ختم کرنے کا اعلان کیا، وہیں بتا دیں ورنہ کم از کم مجھے بتادیں ایک تحریر اس پر بھی لکھ دونگا۔عمران خان صاحب اور تحریک انصاف یہ نہ سمجھیں کہ صرف سردار اختر مینگل ناراض ہیں وثوق کیساتھ یہ بتارہا ہوں جام کمال خان جو کہ آپکے اتحادی ہیں وہ بھی پاکستان تحریک انصاف اور اسکے اقدامات سے خوش نہیں ہیں،انکی کچھ مجبوریاں ہیں اسلئے وہ آپکو سردار اختر مینگل کی طرح صاف انکار نہیں کررہے، جو کچھ ہمیں پتہ ہے۔
وہ لکھنے بیٹھا تو بات بہت لمبی ہوجائیگی،اگر جام کمال مطمئن ہیں تو بلوچستان اسمبلی میں آکر کہیں کہ وہ مطمئن ہیں لیکن میں جانتا ہوں نہیں ہیں۔محمد اسلم بھوتانی کو کیا کچھ آفر نہیں ہوئی، لیکن عقلمند تھے پاکستان تحریک انصاف میں شامل نہیں ہوئے چھوڑیں اتحادیوں کو،آج جب پاکستان تحریک انصاف کے بلوچستان اسمبلی کے پارلیمانی لیڈر سردار یارمحمد رند سے وزیر اعظم عمران خان آپکی کچن کیبنٹ کے ایک اہم فرد نے بات کی تو دو سال سے خاموش بیٹھے سردار یار محمد رند نے بھی صاف کہہ دیا کہ میرا گناہ اتنا ہے کہ میں نے صرف اس معاہدے پر بطور گواہ دستخط کئے تھے۔
اسکے بعد مجھے کسی نے نہیں پوچھا کہ کیا ہوا کیسے ہوا، اب جب معاملہ بگڑا ہے تو میں اسے اس وقت سنبھال سکتا ہوں جب کوئی کچھ کرنے کو تیار ہو،ہماری جماعت کے رہنماؤں اور وزراء کے جو رویئے ہیں اس سے مجھے یہ بات بنتی ہوئی نظر نہیں آتی اور جن لوگوں کو آج تک کمیٹیوں میں ڈالا گیا وہ بلوچ کا مزاج ہی نہیں سمجھ سکے،ان دو سالوں میں تو مسائل کیا حل کرینگے سردار یار محمد رند سمجھتے ہیں کہ آج جو کچھ ہوا اس پر جہانگیر ترین کی ذمے داری عائد ہوتی ہے کسی نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے کیوں اس مسئلے کو ترجیح نہیں دی، انکا تو یہ بھی خیال ہے کہ اس معاملے پر وزیر اعظم کو مس گائیڈ کیا جاتا رہا ہے۔
بحرحال جو بھی ہو سردار یار محمد رند بھی موجود ہیں اور پاکستان تحریک انصاف کا حصہ ہیں اب ان سے پوچھ لیں کہ وہ کیوں مطمئن نہیں اور ایسا کیا کیا جائے کہ بلوچستان کی عمران خان صاحب سے ناراضگی کچھ کم ہو،چلیں اختر مینگل کو تو بلیک میلر بھی کہہ لیں بلوچستان عوامی پارٹی کو وزارت اعلیٰ کا احسان جتا دیں لیکن اپنی جماعت کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو اہمیت دیدیں، واپڈا کی ملازمتوں کا مسئلہ قومی اسمبلی میں اختر مینگل نے نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے رکن خان محمدجمالی نے اٹھایا ہے، اسی کی سن لیں، عمر ایوب سے پوچھیں کہ وفاقی وزیرصاحب کیا چالیس میں دو ملازمتیں بلوچستان کو دیکر وہ چھ فیصد حصہ پورا کیا گیا ہے۔
جو بلوچستان کا آئینی و قانونی حق ہے، اسلئے پاکستان تحریک انصاف اور اسکے ہمنواء سردار اختر مینگل کے اس اقدام کو نہ تو بلیک ملینگ گردانیں اور نہ سارا ملبہ ایک نقطے کی وجہ سے کسی ادارے پر ڈالیں۔ پہلے اپنی نالائقی کو قبول کریں اور پھر کسی اور کومنائیں چلیں کسی بلیک میلر کو نہ منائیں، بلوچستان کے چراوہے کو منالیں کیونکہ بلوچستان کا بلوچ علاقہ ہو یا پشتون علاقہ ہو یہ چرواہے کی سرزمین ہے اورمال مویشی ہر گھر کا حصہ ہے اسلئے چرواہے کے بلوچستان کو بدلنے کیلئے آپکو کسی سردار،جام،میر، معتبر کی ضرورت نہیں ہوگی بلوچستان کو امن و امان دینے کیلئے کس نے کیا کردار ادا کیا۔
اور کتنی قربانیاں دیں یہ بتانے یاجتانے کی ضرورت نہیں۔آپ کے لوگ انہیں چھ نکات کے عملدرآمد میں رکاوٹ قرار دیکر اپنا دامن بچانے کیلئے کوشاں ہیں،آپ صحت،تعلیم،روڈ ،پینے کا پانی دیدیں، چرواہے کا بلوچستان ترقی کریگا تو پاکستان بھی ترقی کریگا، اسلئے جناب وزیر اعظم عمران خان مان لیں کہ غلطی آپکی اور آپکی جماعت کی ہے کسی اور کی نہیں۔ویسے سنا ہے آپ کسی کے مانتے نہیں۔