چین اور ہندوستان دنیا کے دو کثیر انسانی آبادی والے ممالک ہیں اور چین دنیا کاایک کثیر السرحدی ملک ہے جس کی سرحدیں 14خود مختار ممالک کے ساتھ لگتی ہیں چین کی مجموعی سرحدیں 22,117 کلومیٹرز پر مشتمل ہیں چین کی سب سے طویل 4677کلو میٹرز سرحد منگولیا 3605 کلو میٹرزروس، 3500 کلومیٹرزہندوستان اورپاکستان کے ساتھ 523 کلومیٹرز طویل سرحد لگتی ہے چین اور ہندوستان میں کئی دیہائیوں سے سرحدی تنازع (Sino-Indian border dispute) جاری ہے یہ تنازع دو الگ الگ علاقوں پر ملکیت کا ہے۔
پہلا اکسائی چن کا جو چین، پاکستان اور بھارت کی سرحد پر واقع ایک علاقہ ہے جو چین کے زیر انتظام ہے جبکہ بھارت اس پر اپنا دعویٰ رکھتا ہے جغرافیائی طور پر یہ علاقہ سطح مرتفع تبت کا حصہ ہے ہمالیہ اور دیگر پہاڑی سلسلوں کے باعث علاقے میں آبادی بہت کم ہے تاریخی طور پر یہ علاقہ مملکت لداخ کا حصہ تھا جو انیسویں صدی میں کشمیر میں شامل ہو گئی، چین کے علاقوں تبت اور سنکیانگ کے درمیان اہم ترین شاہراہ اسی علاقے سے گزرتی ہے جس کے باعث یہ چین کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل علاقہ ہے یہ چین کے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ (شنجیانگ) کا حصہ ہے۔
دوسرا تنازع میکموہن لائن ایک سرحدی خط ہے جس پر 1914ء میں ہونے والے شملہ معاہدے کے ایک حصے کے طور پر برطانیہ اور تبت نے اتفاق کیا تھا یہ چین اور بھارت کے درمیان حد ہے،اگرچہ حکومت چین کو اس کی قانونی حیثیت سے اختلاف ہے اس کا سابقہ برطانوی دور کا نام شمال-مشرقی سرحدی ایجنسی تھا جسے اب اروناچل پردیش کہا جاتا ہے م۔یکموہن لائن برطانیہ اور تبت کے درمیان 1914ء میں ہونے والے شملہ کنونشن کا حصہ تھا جبکہ چین نے اس معاہدے کو مسترد کر دیا ہے1962ء میں ہونے والی چین ہندوستان جنگ انہی دونوں علاقوں پر قبضے کیلئے لڑی گئی تھی۔
اور چین نے اسکائی چین کا پورا علاقہ اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ چین اور ہندوستان کی جانب سے 1996ء میں متنازعہ سرحدی تنازعات کو حل کرنے کیلئے طریقہ کار وضع کیا گیا تھا جس میں ”اعتماد سازی اقدامات” اور ایک باہمی متفق ہندوستان چین سرحد شامل ہیں 2006ء میں بھارت میں چین کے سفیر نے دعویٰ کیا کہ تمام اروناچل پردیش چینی علاقہ ہے اس وقت دونوں ملکوں نے سکم کے شمالی کنارے پر ایک کلومیٹر کے علاقے کو دوسرے ملک کی دراندازی قرار دیا۔2009ء میں بھارت نے اعلان کیا کہ وہ سرحد کے ساتھ اضافی افواج تعینات کرے گا۔
2014ء میں بھارت نے تجویز دی کہ چین کو سرحدی تنازعات کو حل کرنے کیلئے ”ایک بھارت” پالیسی تسلیم کرنا چاہئے،2017 میں ان ہی تنازعات کو لے کر ڈوکلام کے علاقے میں انڈین اور چینی فوجیوں کے درمیان مکے بازی، ہاتھا پائی اور ایک دوسرے سے سامان چھیننے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی اور کئی دنوں بعد حالات معمول پر آئے تھے۔روا ں سال کے ماہ 6مئی کو ہندوستان کی جانب سے لداخ کے مغربی سیکٹر گلون وادی میں یکطرفہ اور غیر قانونی تعمیرات کے ذریعے موجودہ صورتحال کو بدلنے کی کوشش کے بعد چین کی پیپلز لبریشن آرمی نے مشرقی لداخ میں پینگونگ سو جھیل کے نزدیک انڈین فوجیوں کے ساتھ ہاتھا پائی کی۔
جس کا انٹرنیشنل میڈیا پر خوب چرچا ہوا جس کے بعد انڈین میڈیا کے مطابق چینی فوج پینگونگ جھیل سے 200کلو میٹر کے فاصلے پر اپنے ائیر بیس پر بڑے پیمانے پر تعمیراتی کام کر رہی ہے جو کہ سیٹلائٹ تصاویر سے واضح طور پردیکھا جا سکتا ہے ایسا ہی الزام چائنا نے ہندوستان پر بھی لگایاہے۔ گزشتہ 45سالہ تاریخ میں انڈیا اور چین کے درمیان بدترین سرحدی کشیدگی میں مزید شدت 15جون بروزپیر کی شب ا س وقت دیکھنے میں آئی جب اطلاعات کے مطابق چینی فوج کے ساتھ وادی گلوان میں ہونے والی سرحدی جھڑپ میں مارشل آرٹ کے ماہر چینی فوجیوں نے لائن آف ایکچوئل کنٹرول عبور کرنے والے ہندوستانی فوجیوں کا مقابلہ بھاری ہتھیاروں کی بجائے پتھروں اور راڈوں سے کیا۔
اور پون گھنٹے کی مختصر لڑائی میں باتوں سے نہ ماننے والے لاتوں کے بھوت ایک کرنل سمیت20ہندوستانی فوجیوں کو ہلاک اور درجنو ں کو زخمی کردیا اور 34سے زائد فوجیوں کو یرغمال بنا لیاگیا۔اس کاروائی کے بعد ہندوستانی ایوانوں میں صف ماتم بچھ گئی جس کے بعد ہندوستان مذاکرات کی بھیک مانگنے لگا اور ہندوستان کے فوجی سر براہوں کے درمیان ہنگامی اجلاس منعقد ہوا جس میں چین سے جنگ کے بجائے مذاکرات اور امن کی صورتحال واپس لانے پر اتقاق کیا گیااور بعض اطلاعات کے مطابق ہندوستان کے انتہا پسند وزیراعظم مودی نے چائنا سے کشیدگی کم کرنے کیلئے امریکی صدر ٹرمپ کی منت سماجت بھی کی ہے۔
دوسری جانب موجودہ کشیدہ حالات کے باعث ہندوستان کی جانب سے 1999 میں پاکستان کے ساتھ کارگل جنگ کے بعد پہلی بار کسی سرحد پر اتنے بڑے پیمانے پر فوج بھی تعینات کر دی گئی ہے۔چین اور ہندوستان کے درمیان حالیہ سرحدی کشیدگی اور فوجی جھڑپوں میں ہندوستانی فوجیوں کی ہلاکت اور گمشدگی پاکستان کیلئے اطمنان بخش اور فائدے من ثابت ہوئی ہے اوراس صورتحال سے پاکستان کس طرح بھرپورفائدہ اٹھا سکتا ہے کیونکہ اب ہندوستان کی پاکستان کے خلاف ممکنہ طور پر ہونے والی جنگی مہم جوئی، سرحدی اور کنٹرول لائن پر شر انگیزیوں کا بھی امکان کم ہو گیا ہے۔
کیونکہ موجودہ حالات میں مودی سرکار چین اور پاکستان کی دونوں اطراف کی سرحدوں پر بیک وقت جنگ نہیں چھیڑ سکتی کیونکہ ایسی کسی ممکنہ جنگ سے اسے پاکستان اور چین کی جانب سے باہم مل کرخطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔اس حوالے سے ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں چند سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ چین و بھارت کے مابین تازہ کشیدگی خطے میں نئی اسٹریٹیجک صف بندی کی عکاسی کرتی ہے اس سے پاکستان کیلئے سفارتی سطح پر آسانیاں پیدا ہو سکتی ہیں ایک تازہ جھڑپ میں بھارت کے بیس فوجیوں کی۔
ہلاکتوں کی وجہ سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے حامل ملک میں انتہا پسند مودی سرکار پر اپوزیشن،سول سوسائٹی اور میڈیا تنقید کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے،ماہرین کا خیال ہے کہ بیجنگ حکومت انڈو پیسیفک اتحاد میں بھارت کی سرگرمی پر چراغ پا ہے اور ان سرگرمیوں کو اشتراکی ملک اپنے مفادات کے خلاف سمجھتا ہے۔معروف دفاعی تجزیہ نگار میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان کے خیال میں یہ کشیدگی نئی اسٹریٹیجک صف بندی کی عکاس ہے اور پاکستان بھی اس صف بندی کا حصہ ہے، ایک طرف امریکا، آسٹریلیا، جاپان اور بھارت ہیں، جو چین کا اسٹریٹ آف ملاکا میں راستہ بندکرنا چاہتے ہیں۔
اور اس کے لیے مشکلات کھڑی کر رہے ہیں، دوسری طرف پاکستان، نیپال، چین، بھوٹان اور خطے کے دوسرے ممالک ہیں چین نہ صرف ان مشکلات کا خاتمہ چاہتا ہے بلکہ وہ بحرانی صورت میں متبادل روٹ بھی چاہتا ہے، جو اسے پاکستان سی پیک کی شکل میں فراہم کر سکتا ہے تو اسٹریٹیجک سطح پر پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات پہلے ہی مضبوط تھے لیکن لداخ میں کشیدگی کی وجہ سے دونوں کے مفادات بہت حد تک ایک جیسے ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے ان کے اسٹریٹیجک تعلقات میں مزید گرم جوشی پیدا ہوگی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس صورت حال سے پاکستان فائدہ اٹھاتے ہوئے سفارتی سطح پر بھوٹان، نیپال اور چین کے ساتھ مل کر ہندوستان کو خطے میں تنہا کر سکتا ہے جب کہ چین سے قریبی تعلقات رکھنے والے ممالک کے ساتھ لابنگ کر کے بین الاقوامی سطح پر بھی وہ اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی طاقتوں کے ذریعے ہندوستان پر کشمیر کی سابقہ متنازعہ حیثیت بحالی کیلئے دباؤ ڈال سکتا ہے،اگر مودی سرکار ہوش کے ناخن نہیں لیتی تو پاکستان اور چین باہم مل کر کشمیر میں بھارت کیلئے بہت سی مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔
اس لئے پاکستانی حکومت اور دفاعی اداروں کی جانب سے چین ہندوستان کی حالیہ سرحدی کشیدگی کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے انکی پہلی ترجیح یہ ہونا چاہیے کہ وہ چین کے ساتھ مل کر مقبوضہ کشمیر کی سابقہ متنازعہ حیثیت کو بحال کرائے اور دوسرے مرحلے میں کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق مستقل حل کی طرف جانا چاہیے۔ پاکستا ن چین،ہندوستان سرحدی کشیدگی کے سنہری موقع سے کتنا فائدہ اٹھا پاتا ہے یہ سب کچھ جلد سامنے آجائے گا۔