18 ویں ترمیم سے قبل صوبہ اوور ڈرافٹ اور قرضوں پر ہی چلایا جاتا رہا، وزیر اعلیٰ بلوچستان صوبائی ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے ہر مہینے اسلام آباد یاترا کرتا اور پھر ملازمین کے تنخواجات کی ادائیگی کی جاتی- بلوچستان میں 1972 سے لیکر آج تک کسی بھی وزیر اعلیٰ نے وفاق سے صوبے کے حقوق کیلئے دو ٹوک موقف یا صوبے کے حقوق اور ترقی کیلئے نہ تو بات کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی صوبے کے ساتھ روا رکھنے جانے والے وفاقی پالیسیوں پر کبھی کھل کر بات کی یا عوام کی سوچ کو وفاق تک پہنچانے کی ہمت کی۔
شاید بقول ان کے کہ اگر کوئی مزاج کے خلاف بات کی گئی تو وہ خلاف ضابطہ تصور ہوتا ہو اور اس طرح کے عمل سے وزارت اعلیٰ جیسے بڑے عہدے سے ہاتھ دھونا بھی پڑ سکتا ہے۔ گزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں وفاق کی جانب سے بلوچستان کو مکمل نظر انداز کرنے اور بی این پی کے چھ نکات پر عمل درآمد نہ ہونے پر اختر مینگل نے انتہائی پرجوش خطاب کیا اور اس نے اپنی پارٹی بی این پی کی جانب سے وفاقی حکومت سے اتحادتھوڑنے اوراپوزیشن میں بیٹھنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ بلوچستان پر حکمرانوں کی عدم توجہی کے باعث عوام پسماندگی اور محرومیوں کا روز اول سے ہی شکار ہیں، پورے صوبے میں تین قومی شاہراہیں ہیں۔
سنگل شاہراہوں کے باعث اتنے اموات ہوئے ہیں جتنی شاید دہشت گردی کے واقعات میں بھی نہ ہوئے ہوں، آج بھی بلوچستان کے نوجوانوں کا لاپتہ ہونے کا سلسلہ جاری ہے، والدین اپنے لخت جگروں کا انتظار کرتے کرتے خود موت کے آغوش میں جا رہے ہیں لیکن لا پتہ افراد کا مسئلہ تاحال حل ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ حکومت کی دوبارہ حمایت کے بارے میں سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ ’ان کے مطالبات پر عملدرآمد ممکن نہیں لگتا لیکن یہ ناممکن نہیں ہے۔ حکومت اب پہلے مطالبات پر عملدرآمد کرے اس کے بعد بی این پی کیا،بلوچستان کی تمام اقوام تحریک انصاف میں شامل ہو جائیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمارے معاہدے حکومت کے ذمہ داران سے ہوئے، ہو سکتا ہے کہ مسنگ پرسنز کی واپسی میں اسٹیبلشمنٹ رکاوٹ ہو، لیکن قانون سازی، ترقیاتی منصوبوں، روڈ بنانے میں بھی کیا اسٹیبلشمنٹ رکاوٹ ہے، وہ اسٹیبلشمنٹ کوجواز بناکر اس کے پیچھے چھپنا چاہتے ہیں۔ اختر مینگل کا کہنا تھا کہ عوام نے انھیں اسی منشور کے لیے ووٹ دیا تھا تاکہ ان مسائل کو اجاگر کریں اور حل کرنے کیلیے جدوجہد کریں ہم نے حکومت سے علیحدگی کا فیصلہ بھی عوامی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے کیا ہے- بلوچستان میں زیر بحث ڈیتھ سکواڈ کے بارے میں سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ ان ڈیتھ سکواڈز کو ختم نہیں کیاگیا تھا جن جن اضلاع میں یہ موجود تھے ان کے ایک رکن کی کبھی لاش نہیں ملی اور نہ لاپتہ کیا گیا۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘انھیں گھروں پر بٹھایا گیا یہ سمجھیں کہ شارٹ بریک دیا گیا تاکہ بلوچستان میں جب بھی سیاسی شعور آئے اس کو ختم کرنے کے لیے ہتھکنڈے استعمال کیے جائیں لیکن اس سے نفرتیں بڑھیں گی، کیونکہ نظریے اور سوچ کو گولی سے ختم نہیں کیا جاسکتا،جہاں لہو گرے گا وہ تناور درخت بنے گا۔وفاق میں تحریک انصاف کی حمایت اور صوبے میں اپوزیشن میں بیٹھنے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں جب حکومت سازی ہوئی تو تحریک انصاف نے ان سے پوچھا ہی نہیں، وہ بھی اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ حکومت سازی کرتے اور دوسری بات یہ ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) ان کی ضرورت تھی اور اس کو بنایا ہی حکومت کے لیے گیا تھا۔
انھوں نے وفاقی حکومت کی حمایت کی تھی اس کا حصہ نہیں تھے۔ اختر جان مینگل نے کہا کہ کشمیر کیلئے تو بہت کچھ کیا جا رہا ہے لیکن بلوچستان پر کوئی توجہ ہی نہیں دی جا رہی، بلوچستان کے باسیوں کو پرلے درجے کا شہری بھی نہیں سمجھا جا رہا، حکمران آج بھی بلوچستان کو اپنا مفتوحہ علاقہ سمجھ رہے ہیں آج ہمیں بتایا جائے کہ بلوچستان کے کوئی حقوق نہیں یا ریاست ان کے جائز مسائل حل نہیں کرتی تو ہم کبھی بھی آواز بلند نہیں کریں گے، اگر صوبے کے وسائل کا حساب کیا جائے تو پورے ایوان کے اراکین کے جتنے سروں پر بال ہیں ان سے زیادہ بلوچستان کے آپ مقروض ہیں۔
1952 سے نکلنے والی سوئی گیس ماسوائے چند اضلاع کے بلوچستان میں کہیں بھی نہیں لیکن بلوچستان کے سوا پورے ملک میں گیس کی سہولت موجود ہے آج بھی ہم قدرتی گیس کی عظیم نعمت سے محروم ہیں۔بی این پی مینگل کی حکومتی اتحاد سے علیحدگی کے بعد اب بلوچستان عوامی پارٹی جو کہ بلوچستان میں حکومتی پارٹی ہے کیلئے یہ موقع امتحان کا ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی انتخابات سے دوماہ قبل ہی بنائی گئی اور صوبے کی تاریخ میں انتہائی کم وقت میں صوبے کی بڑی پارلیمانی پارٹی بن کر بلوچستان میں صوبائی حکومت بناکر جام کمال کو عنان اقتدار دیا گیا۔
جام کمال خان اور بی اے پی نے انتخابات میں بلوچستان کے مسائل کو اولیت دینے اور بلوچستان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کیلئے اپنا انتخابی منشور دیا تھا اور اب ان کی اتحادی حکومت پاکستان تحریک انصاف ہی نے بلوچستان کو سابقہ حکومتوں کی طرح یا یوں کہیں کہ ان سابق حکمرانوں سے بھی زیادہ نظرانداز کرکے صرف دس ارب کی اسکیمات دیکر بلوچستان پر بہت بڑا احسان کیا۔ اس سے قبل وزیر اعلیٰ بلوچستان نے صوبے کی اسکیمات کی کٹوتی پر اجلاس سے علامتی واک آوٹ بھی کیا تھا لیکن اس کے باوجود وزیر اعلیٰ کی واک آوٹ کو کسی بھی سطح پر خاطر میں نہیں لایا گیا اور نہ ہی اس بائیکاٹ کا وفاق پر اثر ہوا۔
کیا اس کے باوجود بلوچستان عوامی پارٹی پی ٹی آئی کی جانب سے بلوچستان کو مسلسل نظر انداز کرنے پر اپنی اتحاد برقرار رکھے گی،یا یہ وفاقی اتحاد سے علیحدگی کا آپشن استعمال کریگی یہ بعید از قیاس ہے،بی اے پی اپنی سابقہ تنخواہ پر ہی گزارہ کریگی وہ بلوچستان کے لئے کبھی بھی وزارت اعلیٰ اور وفاقی وزارتوں کی قربانی نہیں دے گی تاہم ان کے بدلے بلوچستان اور بلوچستانی عوام کوضرور قربان کریگی- کیا بی این پی کی علیحدگی سے بلوچستان یا مرکز میں تبدیلی کا امکان ہو سکتا ہے کیا اب واقعی ملک میں ممکنہ تبدیلی کے امکانات ہو سکتے ہیں یہ تبدیلی لانے والے ہی فیصلہ کر سکتے ہیں۔
اگر ان فیصلہ سازوں نے تبدیلی کا فیصلہ کیا ہے تو تبدیلی ہر صورت ہوکر رہے گی بصورت دیگر کوئی بھی طاقت کچھ نہیں کر سکتی اور نہ ہی تبدیلی لا سکتی ہے۔ بلوچستان کی پسماندگی اور عدم ترقی پر اب تمام قوتوں کو سوچنا ہوگا، صوبے کے ساتھ روا رکھا جانے والا رویہ ختم کرکے بلوچستان کو اولیت دینا ہوگا،صوبے میں ترقیاتی منصوبوں کا جال بچھانا ہوگا تاکہ عوام میں پائی جانے احساس محرومی کو ختم کیا جا سکے۔ بلوچستان کی پسماندگی تقریروں نعروں اور جلسے جلوسوں سے ختم نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کسی کو غدار یا محب وطن قرار دینے سے ترقی کی منازل طے ہو سکتی ہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ بلوچستان کو ون پوائنٹ ایجنڈے کے تحت ترقی کی شاہراہ پر گامزن کیا جائے، صوبے کو وفاقی ترقیاتی منصوبوں میں سب سے زیادہ اولیت دی جائے،اگر بلوچستان میں اچھا اور برا، غدار اور محب وطن والا طریقہ جاری رکھا گیا تو پھر صوبے کی پسماندگی،عدم ترقی اور محرومیوں کا ہرگز خاتمہ نہیں ہو سکے گا اور پھر ملک دشمن قوتوں کو بھی موقع ملے گا- وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو اب نہیں تو کبھی نہیں کے مصداق بلوچستان کو ترجیح دیکر دشمن کے تمام منصوبوں کو ملیا میٹ کرنا ہوگا، بلوچستان کی ترقی ہی سے پاکستان کی ترقی کا راز وابستہ ہے۔