وہان چین کے صوبے ہوبی کا دارالحکومت ہے جس کی آبادی تقریباً 11.8 ملین ہے گنجان آبادی والے اس شہر میں ضروریات زندگی کی جدید سہولیات میسر ہیں لوگ خوشحال جگہ جگہ پارکس اور ماڈرن ٹیکنالوجی نے اس شہر کی خوبصورتی میں چار چاند لگا رکھے ہیں شہر کی آبادی گنجان، لاتعداد ٹرانسپورٹ ریلوے کا ایک بہت بڑا نظام کاروباری لحاظ سے چین کی معیشت میں اس شہر کا ایک بڑا کردار ہے دسمبر 19 وہان میں رہنے والے ایک کروڑ سے زائد لوگوں کے لیے ایک بھیانک دن تھا جب اس دن شہر میں ایک وائرس کا انکشاف ہوا میں اس وائرس سے متاثرہ افراد میں اضافہ ہوتا گیا ہے۔
پلک جھپکتے ہی اس وباء نے پورے وہان شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔معاملہ اموات تک پہنچ گئی صرف میڈیا پر ووہان میں پھیلنے والے وباء کے بارے میں تذکرے ہو رہے تھے طاقت کے نشے میں دنیا کے مختلف ممالک اپنی ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر نخرے کرنے والے ممالک،تیل کی طاقت پر قبضہ جمانے والے ممالک سب اپنے اپنے مقاصد کے حصول میں مصروف تھے انہیں گمان بھی نہیں تھا کہ وہ بھی اس وباء سے متاثر ہونگے یاجیسی حالت وہان کی ہے اس طرح ہمارے ساتھ بھی ہو سکتا ہے لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا۔
اس نے دنیا کے باقی ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے تقریبا دو سو سے زائد ممالک اس نہ ختم ہونے والی عالمی وباء کرونا وائرس کی زد میں آ گئے دنیا میں اس وقت چار لاکھ سے زائد افراد اس وبا کی وجہ سے اپنی زندگی کی بازی ہار چکے ہیں دن بدن اموات کی شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے یورپ اور امریکہ اس وبا کی وجہ سے بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔اٹلی فرانس اور برطانیہ کی بری حالت ہوگئی ہے امریکی صدر نے کہا کہ ہم نے ایک لاکھ ہلاکتوں کے بعد بھی کرونا کو روک لیا تو یہ بہت بڑا معجزہ ہوگا لیکن 15 جون تک امریکہ میں ایک لاکھ سے زائد لوگ کرونا سے ہلاک چکے ہیں۔
پتہ نہیں ان اموات میں کتنا اضافہ ہوگا۔ کار خانے بند ہوچکے ہیں ٹرانسپورٹ،ہوائی جہاز،بحری جہاز سب بند ہو چکے ہیں دنیا کی معیشت کا پہیہ تقریبا جام ہو کر رہ گیا ہے وہی پاکستان بھی اس سے محفوظ نہیں رہا پاکستان میں اس وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک لاکھ پچاس ہزار سے زائد ہو چکی ہے اور اس میں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ ہے پاکستان میں سب سے زیادہ سندھ اور پنجاب اس کی لپیٹ میں ہیں۔ لاک ڈاؤن کرنے کے باوجود بھی اس میں اضافہ ہو رہا ہے ایک اندازے کے مطابق اگر اس وبا کے پھیلنے کو کنٹرول نہیں کیا گیا تو اگلے آنے والے کچھ مہینوں میں پاکستان میں متاثرہ افراد کی تعداد لاکھوں میں ہوگی۔
لہذا ہمیں سختی سے لاک ڈاؤن پر عمل کرنے کی ضرورت ہے اس سے بچاؤ کا واحد علاج معاشرتی دوری اور گھروں تک محدود ہوکر ہی اس وباء سے بچا جا سکتا ہے کیونکہ یہ وائرس متاثرہ شخص سے دوسرے افراد میں فوری منتقل ہو جاتا ہے ان احتیاتی تدابیر اور لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل کرکے چین نے وہان شہر کو اس سے صاف کر دیا ہے ا ور یہی وجہ ہے۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے یہاں غربت کی شرح بہت زیادہ ہے ہمارے ملک میں طویل اور سخت لاک ڈاؤن سے نادار، غریب اور مزدور طبقے کو بہت متاثر کر رکھاہے ان افراد کو گھروں میں اگر محدود کرنا ہے تو انہیں ان کی دہلیز پر ضروریات زندگی کا سامان پہنچانا ہوگا۔
حکومت اس پر تیزی سے کام کر رہی ہے اور رفاعی ادارے بھی خوراک کا سامان غریبوں میں تقسیم کر رہے ہیں صوبہ بلوچستان بھی اس وبا سے محفوظ نہیں اس کے پھیلاؤ میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ 15جون کے ڈیٹا کے مطابق صوبے میں وائرس سے متاثرہ مریضوں کی اموات 76 ہوگئی ہے جب کے وائرس کے مثبت رزلٹ کی تعداد سات ہزار سے تجاوز کرگئی ہے15جون تک صوبے بھر میں کورونا کے کئے گئے مجموعی ٹیسٹ کی تعداد 23000 تجاوز کر گئی ہے۔درج بالا اعدادوشمار میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اس اضافے کو ایک حد تک قابو کرنے کے لیے حکومت بلوچستان نے بھی لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل کرنے کی ہدایت دے رکھی ہے۔
ان ہدایات پر عمل کرنا ہرشہری کا فرض ہے چونکہ اس وبا سے بچنے کا واحد حل معاشرتی دوری اور گھروں تک محدود رہنا ہے عوام اس پر کافی حد تک عمل بھی کر رہی ہے اس وباء کو قابو کرنے کے لئے اس وقت وزیر اعلیٰ بلوچستان کی قیادت میں حکومت دن رات کوشاں ہے صوبے کے تمام اضلاع میں انتظامیہ کی مدد سے غریب نادار مزدور اور دیہاڑی دار طبقے میں راشن کی تقسیم کا کام جاری ہیں۔صوبے میں کرونا وائرس سے سب سے زیادہ کوئٹہ شہر متاثر ہواہے صوبے کے تمام اضلاع سے متاثرہ مریضوں کو علاج کے لئے کوئٹہ لایا جاتا ہے۔ موجودہ صوبائی اسمبلی اپنے حلقوں میں موجود ہیں۔
ان صوبائی اسمبلی اپنے اپنے حلقوں میں کرونا وائرس کے تدارک اس سے بچانے کے لیے اپنے علاقوں میں شعور و آگاہی مہم اور راشن کی تقسیم کا کام بڑھ چڑھ کر رہے ہیں۔ صوبائی مشیرایکسائز وٹیکسیشن ملک نعیم خان بازئی بھی اپنے حلقے میں کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے،شعور و آگہی مہم اور راشن کی تقسیم میں بڑھ چڑھ کر روز اول سے حصہ لے رہے ہیں۔ عوام میں سینیٹایزر،ماسک اور نقد رقم کی تقسیم غرض جو بھی ہو اپنے حلقے کی غریب عوام کی خدمت میں ہر وقت کوشاں ہیں نعیم خان بازئی ایک غریب پروا اور خدائی خدمت گار شخصیت کا مالک ہے۔
ممبر صوبائی اسمبلی بننے سے پہلے بھی موصوف اپنے علاقے میں غریب ونادار افراد کی مدد اور سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہے اس یہی وجہ ہے کہ اس علاقے کے عوام نے انہیں علاقے کی خدمت کا موقع دیا۔ ضلع کوئٹہ کے اس علاقے کی آبادی زیادہ اور پھیلی ہوئی ہے اس علاقے کے بڑے علاقوں میں کچلاک پنجپائی،اغبرگ،نوحصار اور بلیلی شامل ہیں۔ اس وباء سے پہلے بھی اس نے اپنے حلقے میں ترقیاتی کاموں کا جال بچھا رکھا ہے۔ لاک ڈاؤن کی صورت میں صوبائی مشیر اپنے عوام میں موجود رہے اور اپنے عوام کی ہر ممکن مدد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے صوبائی مشیر نے سب سے پہلے صحت کے شعبے میں کام شروع کی اور مفتی محمود اسپتال کچلاک کا دورہ کیا تھا اور ہسپتال میں موجود عملے نے صوبائی مشیر کو اپنے مسائل سے آگاہ کیا صوبائی مشیر نے فوری اقدامات اٹھاتے ہوئے اپنی جیب سے دو ناکارہ ایمبولینس کی مرمت کروائی۔اس کے علاوہ اپنے علاقے کے غریب اور دیگر افراد میں راشن کی تقسیم بھی شروع کی جس میں کچلاک میں لوکل بسوں کے کلینرز اور ڈرائیور اور مزدوروں میں اپنی مدد آپ کے تحت راشن تقسیم کی، ایک ایسا لائحہ عمل طے کیا کہ جس سے اپنے حلقے میں راشن کی تقسیم کا عمل خوش اسلوبی سے جاری ہے۔
خدمت اور مدد کا یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا صوبائی مشیر روزانہ اپنے علاقے کے کسی حلقے کا دورہ کرتے ہیں جہاں راشن کی تقسیم۔ماسک،اسنیاٹرزاور نقد رقم کے علاوہ وہ عوام کے مسائل سنتے ہیں انہیں فوری حل کرنے کے حکامات جاری کرتے ہیں اپنے حلقے کے عوام کی مدد کے لئے غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے جو امداد تقسیم ہورہی ہے اس حوالے سے بھی صوبائی مشیر تمام غیر سرکاری تنظیموں سے رابطے میں ہیں،ان کے تعاون سے جو بھی ممکن ہو سب کام کروا رہے ہیں اب تک اپنے علاقے میں صوبائی مشیرنے حکومت بلوچستان کی جانب سے پندرہ سو مستحق خاندانوں میں راشن بھی تقسیم کیا ہے۔
اس کے علاوہ اپنی مدد آپ کے تحت تقریباً پانچ ہزار افراد راشن تقسیم کیے ہیں۔علاقہ مکینوں کو اس بات کی تسلی ہے کہ ان کا منتخب کردہ نمائندہ ان کے درمیان موجود ہے نعیم بازئی کا کہنا ہے کہ ہم عوام کی خدمت کرنے کے لیے منتخب ہوئے ہیں مشکل کی اس گھڑی میں ان کی مددکیلئے ہم ہر وقت حاضر ہیں۔ انشاء اللہ وہ وقت دور نہیں کہ اس وباء کا خاتمہ ہوگا۔ نیزصوبائی حکومت اور انتظامیہ اس وباء کو ختم اور پھیلنے میں کنٹرول کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں اور اس کا خاتمہ اس وقت ممکن ہے جب تک عوام لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل کریں، اور دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس وباء کو ہمارے ملک اور صوبے سے ختم کرے۔ آمین۔