چین کے صوبے ووہان سے نومبر میں کورونا وائرس کا آغاز ہوا تو اس وقت کسی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ وائرس اتنی خوفناک صورت اختیار کرجائے گا پوری دنیا میں کورونا وائرس سے اموات میں پچھلے چند ماہ کئی گنااضافہ ہو چکا ہے پاکستان میں بھی یہ تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے کورونا وائرس سے جہاں پر عام شہری تو متاثر ہوہی رہے ہیں وہاں پر سب سے زیادہ متاثر طبی عملہ ہورہا ہے جن میں ڈاکٹرز پیرامیڈیکل سٹاف اور نرسز شامل ہیں ملک کے نصف حصے پر محیط اور قدرتی معدنیات سے مالا مال صوبہ بلوچستان کو بھی اس خطرناک وباء نے شدید نقصان پہنچایا ہے۔
تاہم اسکے باوجو دصوبائی حکومت ہر ممکن وسائل بروئے کار لاتے ہوئے اس جنگ کے خلاف نبردآزما ہے تاہم ماضی کی حکومتوں کی غیر سنجیدگی نے جہاں تعلیم، غربت کے خاتمے اور انفراسٹرکچر کے شعبوں کو نقصان پہنچایا ہے وہیں صحت کا شعبہ بھی ماضی کی حکومتوں کی نااہلی و ناکامی کا منہ بولتاثبوت ہے بلوچستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آتے ہی وزیراعلیٰ بلوچستان میر جام کمال خان اور انکی ٹیم نے اپنی تمام تر توجہ اس مہلک وباء سے بچاؤ اور دستیاب وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ہر صورت لوگوں کی زندگیوں کو بچانے میں لگادی کورونا وائرس نے اگرچہ پوری دنیا میں تباہی مچائی مستحکم و خوشحال ممالک بھی اس وائرس کا مقابلہ نہیں کر سکے۔
جبکہ پاکستان انتہائی پسماندہ اور ترقی پذیر ملک ہے کورونا وائرس نے اگر چہ ملک کے دیگر صوبوں میں بہت زیادہ جانی نقصان کیا لیکن خوش قسمتی سے بلوچستان میں یہ اتنی تباہی نہیں کر سکا جس کے خدشات ظاہر کئے جارہے تھے طبی ماہرین کے مطابق پھیلی ہوئی آبادیوں پر مشتمل صوبہ بلوچستان جس کی کل آبادی ایک کروڑ23لاکھ کے لگ بھگ ہے کوئٹہ کے علاوہ اندرون صوبہ آبادیاں منتشر ہیں جو سماجی فاصلے کی احتیاطی تدابیر پر پورا اترتی نظر آتی ہیں محکمہ صحت کے مطابق صوبہ میں اب تک 75افراد کورنا وائرس کے باعث لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
جس میں سابق چیف جسٹس آف بلوچستان غلام مصطفی مینگل اور ان کی اہلیہ تین ڈاکٹرز ایک رکن صوبائی اسمبلی سید فضل آغا سابق صوبائی وزیر سردار مصطفی ترین ایس پی چودھری مشتاق علی دو سگے سینئر ڈسپنسر بھائی ایڈیشنل سیکرٹری کے والد شامل ہیں کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد بڑھ کر7ہزار673ہو گئی اب تک35ہزار412افراد کے ٹیسٹ کئے جاچکے ہیں جن میں 27ہزار739افرادکے رزلٹ منفی آئے ہیں تاہم اس وقت بھی بلوچستان میں کورنا وائرس کے مشتبہ مریضوں کی تعداد32ہزار969تک جاپہنچی ہے۔
کوئٹہ کے نواحی علاقوں میں واقعہ فاطمہ جناح ٹی بی سینی ٹوریم چیسٹ اسپتال اور شیخ زید اسپتال میں کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کیا جارہا ہے جبکہ کورونا وائرس کے ٹیسٹ کوئٹہ اور تفتان میں کئے جارہے ہیں کوئٹہ میں بولان میڈیکل کمپلیکس اسپتال میں 1062بیڈز ہیں جس میں 30کورنا وائرس کے مریضوں کیلئے مختص ہیں جبکہ بی ایم سی اسپتال میں 14وینٹی لیٹرز موجود ہیں اور اب تک اس اسپتال میں کوئی مریض بھی وینٹی لیٹر پر نہیں ہے سول اسپتال میں 850بیڈز ہیں جن میں سے30کورونا وائرس کے مریضوں کیلئے ہیں 26۔
کورونا وائرس سے متاثرہ مریض سول اسپتال میں داخل ہیں سول اسپتال میں 15وینٹی لیٹرز ہیں بلوچستان چلڈرن اسپتال میں 132بیڈز ہیں جہاں 12کورونا وائرس کے مریض داخل ہیں جبکہ120بیڈز عام مریضوں کیلئے ہیں جبکہ4وینٹی لیٹرز موجود ہیں ہیلپرز آئی اسپتال 120بیڈز پر مشتمل ہے 50بیڈز کورونا مریضوں کیلئے مختص ہیں جہاں 50ہی مریض کورونا وائرس سے متاثرہ داخل ہیں 70بیڈز عام مریضوں کیلئے رکھے گئے ہیں شیخ زید اسپتال 210بیڈز پر مشتمل ہے جسے صرف کورونا وائرس کے مریضوں کیلئے مختص کیا ہوا ہے جہاں 50متاثرہ مریض داخل ہیں اس اسپتال میں 6وینٹی لیٹرز موجود ہیں۔
فاطمہ جناح ٹی بی سینی ٹوریم چیسٹ اسپتال میں 170بیڈز ہیں جہاں 30مریض داخل ہیں فاطمہ جناح اسپتال میں 14وینٹی لیٹرز ہیں جبکہ140بیڈز دیگر مریضوں کیلئے رکھے گئے ہیں مفتی محمود اسپتال کچلاک50بیڈز پر مشتمل ہے ٹراما سینٹر30بیڈز پر مشتمل ہے جہاں 30ہی مریض داخل ہیں جبکہ8وینٹی لیٹرز ہیں بے نظیر اسپتال 120بیڈز پر مشتمل ہے10کورونا کے مریض داخل ہیں اس اسپتال میں کوئی وینٹی لیٹر نہیں ہے جبکہ حکومت بلوچستان نے کورونا وائرس کی وباء کے باعث تین ماہ قبل بولان میڈیکل کمپلیکس اسپتال سے ملحقہ کالونی میں 460بیڈز پر مشتمل آئسولیشن مرکز قائم کیا تھا جہاں تاحال کوئی مریض داخل نہیں ہے۔
اس مرکز میں وینٹی لیٹرنہیں ہے اس سب صورتحال کے باجود اندرون بلوچستان کورونا وائرس کے اقدمات کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے جس کیلئے وفاقی حکومت اور این ڈی ایم اے کی جانب سے کوششیں کی جارہی ہیں۔صوبائی حکومت کے آگاہی مہم کے بھی مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ لاک ڈاوٗن میں نرمی کے بعد اس کے خطرات محسوس کئے جا رہے ہیں۔ اس کے باوجود بلوچستان حکومت وزیراعلیٰ کی قیادت میں انتظامی معا ملات کی مسلسل نگرانی کر رہی ہے۔