|

وقتِ اشاعت :   June 21 – 2020

میں نے ان کو کئی سالوں کے بعد 5 برس پہلے دیکھا تھا،وہ میرا دوست تھا،ہم ایک ساتھ پڑھتے تھے اسکول میں مدرسے میں بھی،وہ بھلا کا ذہین لڑکا تھا،جب ہم نے عم پارہ ایک ساتھ پڑھنا شروع کیا تو میرے 4 ورق مکمل نہیں تھے کہ انہوں نے آدھا پارہ ختم کیا،وہ اسکول میں میرے مقابلے کا لڑکا تھا، ہر سال تیسری پوزیشن حاصل کرتا تھا،اسکول کے آخری 3 سالوں میں اتنی محنت کی کہ وہ میرے مقابلے پہ آ کھڑا ہوا،انہوں نے مجھے چیلنج کیا ہوا تھا کہ “دشتی”اس سال آپ کی فرسٹ پوزیشن کو میں ہی چھین لونگا،اس دھمکی کا اتنا اثر تھا کہ میں رات کے آخری پہر نیند سے بیدار ہوکے اپنا سبق یاد کرنے لگا کہ کہیں میرا 4 سالہ ریکارڈ تھوڑ نہ دے۔

وہ انتہائی انہماک سے اپنی تعلیم پر دھیان دے رہا تھا،جب آٹھویں کلاس کے امتحانات کے رزلٹ آگئے تو میں اپنا پوزیشن بڑی مشکل سے برقرار رکھ سکا،اللہ نے میری عزت رکھ لی،وہ صرف 18 نمبروں سے پیچھے ہوکے دوسری پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکا۔کالج کے زمانے سے ہماری راہیں جدا ہوگئیں، وہ پڑھائی میں اور میں اپنے کاروبار میں مصروف ہوگیا۔انہوں نے بی اے سیکنڈ ڈویژن سے پاس کیا،آگے غربت کی وجہ سے تعلیم حاصل نہ کرسکا،وہ انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا،اس کی خواہش تھی کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ماں باپ کا سہارا بنے۔

5 برس پہلے وہ نارمل انسان تھا،بیروزگاری سے تنگ لیکن سماجی برائیوں سے کوسوں دور ایک ہٹا کھٹا نوجوان، معاشرے میں رائج عیبوں سے انہوں نے اپنا دامن بچائے رکھا تھا،ان کی شکایت تھی کہ نوکری کیلئے دربدر پھر رہا ہوں کوئی پوچھنے والا نہیں،میں ہر بار ان کو دلاسہ دیتا رہا کہ اپنی کوششوں کے ساتھ چھوٹا موٹا کام کرتے رہیں تاکہ نان شبینہ کے محتاج نہ ہوں کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بہتر ہے کہ محنت کزدوری کرکے اپنا گزر بسر کرلیں۔وہ میری بے پناہ عزت کرتا تھا،میری باتوں کو انہماک سے سنتا اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتا رہتا۔شب وروز گزرتے رہے۔

ان 5 برسوں میں معاشرے میں کئی نئی برائیاں جنم لے چکی تھیں۔لوگ ایک دوسرے سے دور،زر و زمین کی ہوس نے حلال حرام کی تمیز کو ناپید کردیا تھا،ہر کوئی مال(پیسہ،زمین) بنانے کی تگ و دو میں جت گیا۔جب معاشرے سے حلال حرام کی تمیز ختم ہوجاتی ہے تو ہر ناجائز کام،ہر برائی آسان لگتی ہے۔پچھلے 8 برسوں میں مکران میں بڑی تباہی آچکی ہے۔جھوٹ،فریب،دھوکہ دہی، قتل و غارت زمینوں پہ قبضہ معمول کے واقعات بن چکے ہیں۔مکران جو کبھی پیار و محبت امن و آشتی کا مرکز ہوا کرتا تھاآج تاریکیوں نے،نفرتوں نے عداوتوں نے ڈیرے جمائے رکھا ہے۔

ان معاشرتی برائیوں کے علاوہ مکران میں جو سب سے بڑی تبدیلی آچکی ہے وہ ہے منشیات کا تیزی سے پھیلاؤ،جو 100 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے،آج مکران کا کوئی ایسا علاقہ نہیں جہاں منشیات آسانی سے دستیاب نہ ہوں۔آپ کو مکران کے تینوں اضلاع کے ہر قصبہ و دیہات میں منشیات آسانی سے ملتا ہے۔آج میں نے اپنے ہونہار دوست کو اپنے محلے کی گلی میں گونی(بوری) اٹھائے کچرا چنتے دیکھا تو ششدر رہ گیا۔صوم و صلات کا پابند نوجوان انتہائی میلے کچیلے کپڑوں میں سر کے بالوں پہ ڈھیر ساری مٹی جما دیکھ کر آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے،ان کو جب قریب بلایا تو میرے پاؤں سے زمین سرکنے لگی۔

وہ منشیات کا عادی بن چکا تھا،شیشہ،کرسٹار،تریاک سب کا عادی بن چکا تھا،ان کے مطابق وہ 1 سال ہوئے منشیات کی طرف راغب ہواہے،کیونکہ اس کے شہر میں منشیات آسانی سے اور سستے داموں بک رہا تھا،ان کے بقول شروع میں وہ ان سے دور بھاگتا تھا،ان چیزوں سے نفرت کرتا تھا، لیکن آہستہ آہستہ وہ منشیات کے قریب ہوتا گیا،آج معاشرے کا ایک محنتی،قابل و کارآمد نوجوان اپنے گھر،اپنے محلے اورمعاشرے کیلئے ناسور بن چکا ہے،اس کا ذمہ دار کون ہے؟

کیوں ہمارے معاشرے میں روٹی مشکل سے اور منشیات گھر کی دہلیز پہ آسانی سے دستیاب ہے؟

منشیات کے تدارک کیلئے اگر تیزی سے قدم نہیں اٹھایا گیا تو اگلے پانچ برسوں میں کوئی گھر ایسا نہیں ہوگا جہاں منشیات کے عادی فرد موجود نہ ہوں،کون ہیں یہ لوگ جو اپنی دنیوی آسائشوں کیلئے کسی اور کی دنیا اجاڑ رہے ہیں،جو اپنی پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے کسی ماں کی کوکھ کو اجاڑ رہے ہیں،ماں کے لختِ جگروں کو ویرانیوں کی طرف دھکیل رہے ہیں،اس معاشرتی بگاڑ کو سدھارنے کیلئے نوجوانوں کو آگے آنا ہوگا،اس معاشرتی ناسور کو مزید پھیلنے سے روکنے کیلئے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو قلم اٹھانا ہوگا،قدم اٹھانا ہوگا،اس معاشرتی برائی سے سماج کو پاک کرنے کیلئے انتظامیہ کو متحرک ہونا پڑے گا،ہمیں اپنا مکران بچانا ہے،مجھے اپنا شہر کوبچانا اور مجھے اپنے ہی گھر کو بھی بچانا ہے،ہم سب نے اپنے دوستوں کو بھائیوں کو اور اپنے معاشرے کو اس ناسور سے بچانا ہے۔