اس بار قائد ایم کیو ایم نے ماہرین کی حکومت کا مطالبہ کردیا اور وہ بھی سالوں تک حکمرانی کرے ۔ ایک ہی سانس میں انہوں نے فوج کو بھی دعوت دی کہ وہ آئے جمہوریت کی بساط لپیٹ دے اور پھر سے حکمرانی کرے۔ انہوں نے یہ تمام باتیں گورنر پنجاب چوہدری سرور کی موجودگی میں کہیں ۔ جناب معین قریشی ‘ جناب شوکت عزیز بھی ماہرین میں شامل تھے اور ان کو امریکا سے بلا کر حکمران بنا دیا گیا ۔ انہوں نے نہ صرف رشوت کھائی بلکہ ملک اور اس کی معیشت کا بیڑا غرق کردیا ۔ صارفین کی معیشت کو فروغ دینے میں شوکت عزیز کا ہاتھ ہے ۔ ملک بھر کے بنکوں کو حکم دیا کہ لوگوں کو کار قرضے میں فراہم کریں ۔ لاکھوں کاریں لوگوں نے بنکوں کے قرضوں سے حاصل کیں ۔ اس کی وجہ سے پاکستان بھر کی سڑکوں میں ٹریفک جام رہتا ہے ۔ اتنی سڑکیں نہیں بنائی گئیں جتنی کاریں لوگوں کو بنک قرضوں کے ذریعے فراہم کی گئیں ۔ رہی سہی کسر موجودہ حکومت نے پوری کی ،اسمگلروں سے مل کر افغانستان سے اسمگل شدہ پچاس ہزار سے زائد گاڑیوں کو قانونی شکل دے دی ۔ لہذا ماہرین کے کارنامے بہت ہیں ،مزید کارناموں کی ضرورت نہیں۔ باہر رہ کر بعض لوگ ضرورت سے زیادہ مفاد پرست بن جاتے ہیں ۔ جیسا کہ شوکت عزیز اور دوسرے اسی کماش کے لوگ ‘ اقتدار پر حق صرف عوامی نمائندوں کا ہے۔ نہ ماہرین اور نہ ہی سرکاری ملازمین خواہ ان کا تعلق کسی بھی گریڈ سے ہو اقتدار کے حقدار نہیں ہوسکتے۔ ضرورت اس بات کی ہے ملک میں جعلی سیاست ‘ جعلی لیڈر اور جعلی سیاسی جماعتوں کا خاتمہ نہیں ہوتا، اس وقت تک ملک کے حالات میں مثبت تبدیلی نہیں لا ئی جا سکتی ۔ بعض سیاسی پارٹیوں نے لوگوں کو یرغمال بنایا ہوا ہے اور اپنی مسلح افراد کے زورپر لوگوں کو زبردستی جلسوں میں شریک کرواتے ہیں ۔ پہلے تو ان پارٹیوں کے مسلح ونگ کا خاتمہ ہونا چائیے ان کو فوری طورپر غیر مسلح کیا جائے اور بعد میں ان کو سیاست میں حصہ لینے کی اجازت ملنی چائیے ۔ اس ملک میں بعض غیر سنجیدہ لوگ ہیں جو سیاست کو اپنی ذاتی پبلسٹی کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں ۔ ان کے سنجیدہ سیاسی خیالات نہیں ہیں ساری باتیں ان رہنماؤں کے ذاتی خیالات کے گرد گھومتی ہیں ۔ ان کاسیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ہم ان کالموں میں لکھ چکے ہیں کہ 1970کے انتخابات آزادانہ ہوئے تھے اس کے بعد تمام انتخابات میں دھاندلی ہوئی خواہ کم یا زیادہ ۔ وہ شفاف نہیں تھے تمام انتخابات میں بلوچستان ایک واضح کیس ابھر کر سامنا آتا رہا ہے ۔ حکمرانوں نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ ملک میں دو پارٹیوں کی ’’جمہوریت ‘‘ قائم رہے ۔ مگر پاکستان کا نقشہ وفاقی ہے وحدانی نہیں ہے۔ یہاں پر قومیت کی بنیاد پر سیاسی پارٹیوں کو اہمیت حاصل ہے کیونکہ چھوٹی قومیتوں کے ساتھ کبھی بھی انصاف نہیں ہوا ۔ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ۔ مثلاً بلوچستان میں ہر سال 25ہزار سے زیادہ گریجویٹ فارغ التحصیل ہوجاتے ہیں ۔ ان میں سے بمشکل تین ہزار لوگوں کو ملازمتیں ملتی ہیں ۔ اکثر لوگ وزراء سے ملازمتیں خریدیتے ہیں ۔ گزشتہ بارہ سالوں سے اویس احمد غنی گورنر کی بدولت پبلک سروس کمیشن ملازمتیں فروخت کرتا رہا ۔ کسی نے ان لوگوں کا بارہ سال تک نام تک نہیں لیا ۔ اس لئے حکمران قومیت کی بنیاد پر پارٹیوں کو ناپسند کرتے ہیں اورانتخابات میں دھاندلی کرکے ان کو ہر ادیتے ہیں تاکہ ان کی آواز دبائی جائے۔ پاکستان کے مسئلے کا واحد حل قوموں کی جمہوریت ہے ۔ صوبوں کو مکمل خود مختاری اوروفاق کے پاس کم سے کم اختیارات ‘ یا صرف دفاع اور بیرونی تعلقات اور ان دو محکموں کو چلانے کے لئے ٹیکس لگانے کے اختیارات، اس کے علاوہ باقی تمام معمولات زندگی کو چلانے کا اختیار صوبوں کو دیا جائے۔ بلوچ اپنے رہنماؤں کا احتساب خود کریں گے اسی طرح پختون ‘ پنجابی اور سندھی بھی خود کریں گے ۔ سیاست میں افسر شاہی کی مداخلت کم ہو، ملازم کو ملازم تصور کیاجائے حاکم نہیں ۔ اب کرپشن اتنی زیادہ ہوتی ہے اسی محکمے کا کلرک اور سیکشن افسر اپنے بیس گریڈ کے افسر سے رشوت طلب کررہا ہے اس کو کوئی خوف نہیں کہ کل وہ اس کا ’’ باس‘‘ بن جائے گا اور پرانی کسر نکال دے گا۔ ماہرین کی حکومت کوئی معنی نہیں رکھتی، عوام کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ اپنے وزراء اور افسران کا احتساب کریں ۔ سب سے پہلے سیاست سے مسخروں کو رخصت کیاجائے جو کسی بھی طریقہ سے رہنماء کہلانے کے قابل نہیں ہیں ۔ سابقہ کرپٹ وزیر موجودہ حکومت کا احتساب کرنے نکلے ہیں ۔
ماہرین کی حکومت
وقتِ اشاعت : September 26 – 2014