اسلام آباد : عمران خان معاف کرنے کے موڈ میں نہیں اور پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے چیئرمین نے اسپیکر قومی اسمبلی کو جمعے کو ایک خط لکھ کر اپنی جماعت کے ان تین اراکین اسمبلی کی رکنیت ختم کرنے کا مطالبہ کیا جنھوں نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ استعفے جمع نہیں کرائے۔
چوبیس ستمبر کی تاریخ کو لکھے گئے اس خط میں عمران خان نے پی ٹی آئی کے سربراہ اور پارلیمانی رہنماءکی حیثیت سے آئین کی شق 63 اے کا حوالہ دیا ہے اور اسپیکر اور چیف الیکشن کمشنر(سی ای سی) سے کہا ہے کہ وہ ایم این ایز ناصر خٹک(این اے پندرہ)، گلزار خان(این اے چار) اور مسرت زیب(مخصوص نشست) کی نشستوں کو پارٹی نظم و ضبط کی خلاف ورزی پر خالی قرار دیں۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے تین علیحدہ خطوط کے ذریعے اسپیکر اور سی ای سی کو آگاہ کیا ہے کہ ان تینوں اراکین نے پارٹی کے چار اگست کو کیے گئے متفقہ فیصلے کی تعمیل نہیں جبکہ دیگر تمام اراکین پارلیمنٹ نے اپنے استعفے پارٹی قیادت کے حوالے کردیئے، پی ٹی آئی کور کمیٹی نے بھی اس فیصلے کی توثیق کی تھی۔
خط میں تحریری کیا ہے کہ ناصر خٹک، گلزار خان اور مسرت زیب” نے پارٹی کے متفقہ فیصلے کو نہ مانتے ہوئے اپنے استعفے جمع نہیں کرائے جس پر انہیں شوکاز نوٹسز جاری کیے گئے، تاہم ان کا جواب غیراطمینان بخش اور دلائل سے عاری تھا”۔
خط مٰں مزید کہا گیا ہے” پی ٹی آئی آئین کے مطابق تحریک انصاف کے چیئرمین نے ان کی بنیادی رکنیت منسوخ کردی تھی”۔
عمران خان نے کہا ہے کہ جیسا کہ ان تینوں اراکین نے پارٹی کے احکامات سے منہ موڑا ہے اس لیے آئین کی شق 63 اے کے تحت ان کی نشستیں خالی قرار دی جانی چاہئے۔
تاہم قانونی ماہرین نے عمران خان کی جانب سے آرٹیکل 63 اے کی تشیرح پر مختلف خیالات کا اظہار کیا ہے۔
ڈان سے بات کرتے ہوئے سابق وزیر قانون ایس ایم ظفر جو کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کا مسودہ بنانے والی کمیٹی میں شامل تھے، نے کہا” کم از کم 63 اے میں ان چارجز کو کور نہیں کیا گیا جن کو استعمال کرتے ہوئے عمران خان اپنے اراکین کا ایوان سے انخلاءچاہتے ہیں”۔
آئین کی شق 63 اے میں پارٹی سے الگ ہونے والوں کی نااہلی کے لیے مخصوص شرائط رکھ گئی ہیں “اگر کسی پارلیمانی جماعت کا کوئی رکن ایوان کی کسی اور جماعت کا حصہ بن جائے، اپنی جماعت کی رکنیت سے مستعفی ہوجائے یا اپنی جماععت کی ہدایت سے ہٹ کر وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کے انتخاب، اعتماد کا عدم اعتماد، بجٹ بل یاآئینی ترمیم پر ووٹ ڈالے”۔
ان آئینی شرائط کے مدنظر ایس ایم ظفر کا کہان ہے کہ نہ تو اسپیکر اور نہ ہی سی ای سی پی ٹی آئی چیئرمین کی درخواست تسلیم کرسکتے ہیں۔
تاہم پی ٹی آئی کے قانونی ماہر اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر حامد خان نے اصرار کیا کہ 63اے کی روح کے مطابق اگر کوئی پارٹی سے باہر ہوجائے تو وہ اس پارٹی کے نام سے جیتنی جانے والی نشست کو اپنے پاس نہیں رکھا سکتا۔
انہوں نے کہا”یہ ایک پیغام ہے جو پی ٹی آئی واضح طور پر بتا دینا چاہتی ہے کہ پارٹی نے قومی اسمبلی سے الگ ہونے کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے اور جو بھی اسکی خلاف ورزی کرے گا اس کا پارٹی میں کوئی مستقبل نہیں”۔
تحریک انصاف کے قومی اسمبلی میں 33 اراکین ہیں جن میں سے تیس نے اپنے استعفے اسپیکر کے پاس جمع کرادیئے ہیں۔
اسپیکر ایاز صادق نے استعفے دینے والے پی ٹی آئی اراکین سے کہا تھا کہ انفرادی طور پر پیش ہوکر اپنے استعفوں کی تصدیق کریں تاہم پی ٹی آئی کا اصرار ہے وہ اس پر ایک گروپ جیسا سلوک کریں اور سب کو اکھٹے مدعو کریں۔