بلوچستان ملک کا انتہائی پسماندہ صوبہ ہے جو ملک کے بیالیس فیصد رقبے پر پھیلا وسیع وعریض علاقہ ہے،وسیع رقبہ کے باعث صوبے کی آبادی بکھری ہوئی ہے، دوری اور فاصلوں کے باعث لوگ ترقی اور جدید سہولیات سے یکسر محروم ہیں۔بلوچستان ملک کا پہلا صوبہ ہے جہاں گورننس اور میرٹ کے بجائے صوبائی حکومت قوانین اور اصولوں کے بجائے تمام ادارے اللہ کے توکل پر چل رہے ہیں۔ صوبے میں آج تک کوئی بھی بہتر منصوبہ بندی یا قوانین پر عمل درآمد آپ کو کہیں شاذ و نادر ہی نظر آتا ہو۔ بلوچستان حکومت صوبے کے دارالحکومت کوئٹہ میں بھی ستر سالوں سے سرکاری اربن ٹرانسپورٹ کا کوئی بہتر نظام آج تک وضع نہیں کر سکا ہے۔
کوئٹہ جیسے کیپیٹل شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کے کھٹارہ اور ناکارہ بسوں پر شہری بھیڑ بکریوں کی طرح سفر کرتے ہیں،تیس لاکھ کی آبادی کے حامل شہر میں سرکاری سطح پر ٹرانسپورٹ کی سہولیات کا نہ ہونا صوبے کے عوام کے ساتھ ناانصافیوں کے تسلسل کی ایک کڑی ہے۔ جبکہ دوسری جانب بلوچستان حکومت ٹرانسپورٹ مافیاز کے سامنے مکمل طور پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے ٹرانسپورٹرز کے من پسند اور بھاری بھرکم کرایوں کے باعث عوام کی چیخیں نکلنے کے باوجود صوبائی حکومت آج تک ان گاڑی مالکان سے کرایہ کی حد مقرر کرنے کی نہ تو کوشش کی ہے اور نہ ہی خود کرایہ کا تعین کیا ہے۔
کورونا وائرس کے باعث ملک بھر میں تیل کی قیمتوں میں چالیس روپے تک کمی کے باوجود بلوچستان میں کرایوں میں کمی کا نام نہیں لیا جا رہا، ملک کے دیگر صوبوں میں صوبائی حکومتوں نے کرایوں میں خاطر خواہ کمی کے احکامات جاری کئے لیکن بلوچستان کے عوام کیلئے کرایوں میں ٹرانسپورٹرز نے ایک روپے تک کی کمی نہ کی، تاہم کرایوں میں کورونا وائرس اور ٹرانسپورٹ کی بندش کے باعث اضافہ ضرور کیا گیا۔ بلوچستان کے طاقتور ٹرانسپورٹ مافیاز کے سامنے حکومتی رٹ کی شاید کوئی اہمیت ہی نہیں اور نہ ہی صوبائی حکومت میں استطاعت ہے کہ وہ ٹرانسپورٹ مافیاز کو معقول کرایوں کی وصولی پر پابند کر سکے۔
کوئٹہ شہر میں تیل کی قیمتوں میں واضح کمی کے باوجود لوکل ٹرانسپورٹ نے نہ تو کمی کی اور نہ ہی حکومت نے ٹرانسپورٹ کرایوں میں کمی کرنے کیلئے کوئی سرکلر جاری کیا ہے جبکہ لوکل ٹرانسپورٹ نے کوئٹہ میں لوکل کرایوں میں کمی کرنے کے بجائے الٹا اضافہ کرکے شہریوں کے جیبوں پر ڈاکہ ڈالا ہے۔ بلوچستان سے ملک بھر کیلئے ٹرانسپورٹ کی سہولیات موجود ہیں لیکن ٹرانسپورٹرز کی من مانگی کرایوں کے باعث عوام مہنگے کرایوں کی اذیت کا شکار ہیں – کیا صوبائی حکومت ٹرانسپورٹ مافیاز کے سامنے بے بس ہے؟ کیا ٹرانسپورٹ مافیاز صوبائی حکومت کے قوانین کو تسلیم کرنے اور ملکی سطح پر تیل کی کمی سے مستفید نہیں ہو رہے۔
ظلم تو یہ ہے کہ تیل کی قیمتوں میں ایک یا دو روپے کی معمولی اضافے پرٹرانسپورٹر فوری طور پر کرایوں میں اضافہ کرتے ہیں لیکن اب چالیس روپے تک کمی کے باوجود کرایوں میں کمی کے بجائے اضافہ کرکے ٹرانسپورٹرز نے صوبائی حکومت کی گڈ گورننس اور رٹ کو جوتی کی نوک پر رکھ دیا ہے۔ بلوچستان کے صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ نے آج تک ٹرانسپورٹ یونین سے میٹنگ کی زحمت تک نہ کی ہے اور نہ ہی انہیں کرایوں میں کمی کا احساس ہے، اور نہ تیل میں کمی کے باوجود کرایوں میں کمی کرنے کے احکامات صادر کئے ہیں یا پھر شاید وزیر موصوف کو بھاری بھر کم کرایوں کے متعلق علم ہی نہیں ہے۔
کیا تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود کرایوں میں کمی نہ کرنا صوبائی حکومت کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کے مترادف نہیں یا پھر یوں کہیں کہ بلوچستان میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے جس کا جو جی چاہے کرے اور جس طرح مناسب سمجھے ویسا ہی کرے۔بلوچستان میں کوئی پوچھ گچھ نہیں ہاں صوبائی حکومت صرف اسمبلی، وزارت،بجٹ اور ترقیاتی منصوبوں میں ہی دلچسپی اور مصروف عمل ہے اور وہ ترقیاتی منصوبوں پر ہاتھ پھیرنے کیلئے تگ و دو کرنے کو ہی اولیت دیتی ہے۔ بلوچستان میں حکومتی رٹ مکمل طور پر نہ ہونے کے برابر ہے۔
صوبے میں مہنگائی مافیاز عوام کو اشیائے خورد نوش مہنگے داموں فروخت کرکے عوام کی کمر توڑ رہی ہے۔ کیا بلوچستان میں کبھی بھی پرائس کنٹرول کمیٹیز نے فعال کردار ادا کیا ہے، صوبے بھر میں ناقص اورغیر معیاری اور کھانے کے قابل نہ ہونے کے باجود خوردنی اشیاء کی بازاروں میں سرعام فروخت پر کبھی فوڈ اتھارٹی نے ایکشن لیا ہے،ان ناقص اور غیر معیاری خوردنی اشیاء سے خطرناک اور مہلک بیماریوں میں لوگ مبتلا ہو رہے ہیں کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں کیمیکل سے بنایا جانے والا ناقص اور خشک دودھ فروخت کرنے پر کبھی حکومت نے ایکشن لیا ہے،کبھی ڈپٹی کمشنر اور متحرک اسٹنٹ کمشنرز نے دودھ پر ایکشن لینے یا فوٹو سیشن کرنے کیلئے کوئی اقدام اٹھایا ہے؟کبھ
ی ان شہروں میں فروخت کئے جانے والے دودھ کی کوالٹی چیک کی گئی ہے صوبے بھر میں ناقص اور غیر معیاری گھی تیل اور آئل کی فروخت دھڑا دھڑ اور بلا خوف وخطر جاری ہے کیا یہ سب صوبائی حکومت کے ناک کے نیچے نہیں ہو رہا یا پھر حکومت ان سے اب تک لاعلم ہے یا پھر کسی مجبوری کے تحت اس گھناؤنا کاروبار کو جاری رکھنے پر کسی سیاسی قبائلی یا علاقائی مصالحت کا شکارہے۔ غرض بلوچستان میں ملک بھر کے ناقص، غیر معیاری ملکی و بیرونی اشیاء فروخت کرنے کا سلسلہ جاری ہے جہاں ان اشیاء کے باعث بلوچستانی عوام مختلف خطرناک بیماریوں کا شکار ہو کر زندگی کی بازی ہار رہے ہیں۔
میرے صحافتی کیرئیر میں صوبائی حکومت نے آج تک اس طرح کے ممنوعہ اور غیر معیاری و ناقص اشیاء کے خلاف کبھی بھی مکمل کریک ڈاؤن کیا ہے اور نہ ہی کوئی کاروائی کی گئی ہے۔ بلوچستان میں نہ تو میرٹ ہے اور نہ ہی گورننس عوام بے یارومدگار اور اللہ کے سہارے پر ان مافیاز کے ظلم کو دل پر پتھر رکھ کر برداشت کر رہے ہیں، اسی وجہ سے بلوچستان میں بیماریوں کی شرح اور اموات ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت بہت زیادہ ہے،صوبے میں کسی بھی ادارے میں میرٹ کا اندازہ اس امر سے لگا سکتے ہیں کہ کوئی کسی سے پوچھ گچھ نہیں کرتا،کوئی چیک اینڈ بیلنس کا معیار مقرر نہیں اور نہ ہی کرایوں کا سرکاری سطح پر تعین کیا جاتا ہے۔
پنجاب،سندھ و دیگر علاقوں میں سرکاری سطح پر ہی ٹرانسپورٹ کے کرایوں کا تعین کیا جاتا ہے اور ٹرانسپورٹرز اس امر کے پابند ہیں کہ وہ مقرر کردہ کرایہ وصول کریں تاہم مقررہ کرایوں سے زائد وصولی کرنے پر جرمانہ یا روٹ پرمٹ کی منسوخی کا سامنا کر سکتے ہیں لیکن بلوچستان میں سب کچھ چلتا ہے آپ بلوچستان میں روانہ روڈ حادثوں سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہاں ٹرانسپورٹرز کی گاڑیوں کا کیا معیار ہے آج تک صوبائی حکومت نے ان گاڑیوں کے معیار کی چیکنگ کی میکنزم تک نہیں بنایا ہے جس کے باعث روزانہ روڈ حادثات کے باعث قیمتی جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔
کیا بلوچستان میں محکمہ ٹرانسپورٹ گاڑیوں کی مینٹینس معائنہ اور معیار کی نگرانی کا ذمہ دار نہیں؟کیا کبھی حکومت نے ان تباہ حال بسوں پر مسافروں کو سفر کرنے سے روکا یا بسوں پر پابندی لگائی ہے،کیا ٹرانسپورٹرز ان پابندیوں سے مستثنیٰ ہیں یا پھر حکومت کی نااہلی غفلت اور مافیاز کے سامنے بے بس ہونے کے باعث کچھ بھی اقدامات نہ کرکے عوام کو ان ٹرانسپورٹرز سے مروانے میں مصروف عمل ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ جام کمال خان بلوچستان میں سب ٹھیک کا رٹہ لگانے کے بجائے صوبے میں ایک بہترین نظام وضع کریں، ٹرانسپورٹ حادثوں کے تدارک کیلئے ٹرانسپورٹرز کی گاڑیوں کے معیار چیک کرانے کا ایک طریقہ کا سرکاری سطح وضع کیا جائے۔
اور ہر تین ماہ بعد ہر مسافر کوچ اور وین کو باقاعدہ چیکنگ کے بعد سرٹیفکیٹس جاری کیا جائے بصورت دیگر ان مالکان کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے ان کے روٹ پرمٹ منسوخ کئے جائیں ان ناکارہ پرانے بسوں کو سرکاری تحویل میں لیکر ضبط کیا جائے تاکہ مستقبل میں بہترین سفری سہولیات اور معیاری سفر کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے اور صوبے بھر میں محکمہ ٹرانسپورٹ صوبائی اور ریجنل سطح پر ہر سہ ماہی کرایوں کا جائزہ لے اور تیل کی کمی پر کرایوں میں اسی تناسب سے کمی کی جائے اور عوام کو ان ٹرانسپورٹ مافیاز کے ظلم و ستم سے نجات دلایا جائے تاکہ عوام حکومتی ریلیف سے بہتر طور پر استفادہ کر سکیں۔