ہمیشہ ایک بات سنتے اور پڑھتے آرہے ہیں بلوچستان معدنیات اور وسائل سے مالامال صوبہ ہے بلوچستان کے سینئر صحافی لالا صدیق بلوچ ہمیشہ اپنے نمائندوں اور رپورٹروں کو جب وہ روزنامہ آزادی، بلوچستان ایکسپریس کے دفتر جاتے،صحافتی اصولوں کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی جغرافیائی اہمیت کے بارے میں آگاہی دیتے ہوئے گھنٹوں بات کرتے تھے،ان کا چہرہ خوشی سے روشن ہونے لگتا تھا،بتاتے تھے بلوچستان کے ضلع چاغی میں جب سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے ایٹمی دھماکے کئے تھے، یقین جانیں اس سے چار پانچ سال قبل مرحوم صدیق بلوچ بتاتے تھے چاغی میں بڑی سرنگ کھودی جا رہی ہے۔
ایک زوردار دھماکہ ہو گا پوری دنیا بلوچستان اور چاغی کے نام سے واقف ہو گا۔ چونکہ صحافت میں ہمارے شروعات کے دن تھے، لالا صدیق بلوچ کی بلوچی مکران کی تھی اور ہماری بلوچی نصیرآباد ڈویژن والی تھی وہ اردو کے ساتھ ساتھ تھوڑی بہت سندھی بھی بول لیتے تھے، بڑے اطمینان اور پر امید باتیں کرتے تھے، اگر حکمران مخلص ہو جائیں بلوچستان تجارت کا گیٹ وے بنے گا، دبئی سے زیادہ خوشحالی ہوگی، بلوچستان کے عوام سرمایہ دار بن جائیں گے۔ میاں نواز شریف کے دور حکومت میں بجلی کی ملکی کھپت 16ہزار سے 18ہزار میگا واٹ ہوا کرتی تھی۔
لوڈ شیڈنگ شروع ہوئی میاں نواز شریف کی حکومت مختلف ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کرتی تھی،مجھے یاد ہے لالامسکراتے ہوئے کہتے تھے اگر ہمارے حکمران مخلص ہوں، صرف ہوا کے ذریعے گوادر کے ساحل سے یومیہ ایک لاکھ میگا واٹ سستی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے جس سے ہماری صنعت اور زراعت پروان چڑھے گی، قریبی ہمسایہ ممالک کو بجلی فروخت کر سکیں گے،وہ مسکراتے ہوئے کہتے تھے سیندک پروجیکٹ،ریکوڈک پروجیکٹ سونے کی چڑیا ہیں لیکن ایک دن غلط پالیسیوں،اپنے مفادات کو اولیت دینے کی وجہ سے عالمی سطح پر رسوائی کا باعث بنا دیں گے۔ آج ان کی سنہری باتیں کانوں میں گونج رہی ہیں۔
حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں، کمیشن کے ہوس نے بلوچستان کو عالمی سطح پر بد نام کردیا ہے جس بلوچستان نے قائداعظم کو سونے اور محترمہ فاطمہ جناح کو مستونگ باغ میں چاندی سے تولہ تھا سیندک پروجیکٹ پر غلط فیصلوں کی وجہ سے کیس عالمی عدالت تک جا پہنچا آخر کار کمپنی جیت گئی 12ملین ڈالرز جرمانہ کا فیصلہ آگیا، محکمہ معدنیات بلوچستان عالمی عدالت میں اپیل کرنے گیا شاید جرمانہ نصف ہو گیا ہے 6ملین ڈالرز۔اب مصدقہ اطلاعات کے مطابق عالمی سطح پر ایسی کمپنیاں سیندک پروجیکٹ پر دلچسپی رکھتی ہیں کہجو بارہ ملین ڈالرز حرجانہ سمیت کیس کے دفاع پر ہونے والے اخراجات سود سمیت دینے کو تیار ہیں۔
لیکن نہ جانے کیوں ہمارے حکمران ایسا کرنے کو تیار نہیں ہیں کیونکہ بلوچستان سے وفاداری سے پہلے اپنا مفاد اہم ہوتا ہوا نظر آرہا ہے کیونکہ سیندک پروجیکٹ کے کیس کے دفاع کی آڑ میں سیکڑیز، ڈائریکڑز،وکلاء لندن کے پر تکلف دورے،پکنک کر چکے ہیں۔ لاکھوں ڈالرز، کروڑوں روپے بلوچستان حکومت کی بیوروکریسی نے دھول میں اڑا دیئے ہیں اور بلوچستان کے معدنی مسائل کی عالمی سطح پر جگ ہنسائی بھی کرائی گئی کیونکہ 18ویں ترمیم سے قبل سیندک پروجیکٹ سے نصف حصہ کمپنی اور پچاس فیصد سے بلوچستان کو تین فیصد مل رہا تھا جبکہ 18ویں ترمیم سے اب وفاق 33فیصد بلوچستان کو دے رہا ہے۔
باقی فیصد وفاق سیندک پروجیکٹ پر لگائی گئی رقم قرضوں کی مد میں وصول کر رہا ہے اب بلوچستان سے تعلق رکھنے والے وزراء اعلیٰ، وزراء، اراکین کو بلوچستان کی تعمیر ترقی خوشحالی کے لیے سیندک پروجیکٹ پر مشترکہ فیصلہ لینے اتفاق کی ضرورت ہے ایسا نہ ہو ذاتی مفادات کی جنگ سے ایک دفعہ پھر بلوچستان سیندک پروجیکٹ کی عالمی سطح پر جگ ہنسائی نہ کرائی جائے۔ بہتر ہو گا دلچسپی رکھنے والی کمپنیز کو بلوچستان کی عوام کے مفادات کو مدنظر رکھ کر معاہدے کیے جائیں جس سے حاصل ہونے والی 33فیصد کی خطیر رقم سے بلوچستان میں یونیورسٹیاں،میڈیکل کالج انجینئرنگ کالج آغا خان نیشنل لیاقت کی طرز پر ہسپتالیں بن سکیں۔
اور بلوچستان میں اپنے ذرائع آمدن سے موٹر وے بنیں، ایسا نہ ہو وفاق ہمیشہ کی طرح طعنہ نہ دے بلوچستان کے ملازمین کی تنخواہیں ہم دیتے ہیں۔بلوچستان میں بے لگام کرپشن کے قصے تو عام ہیں اب کرونا کرپشن سے کروڑوں روپے ہضم کرنے والے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے افسر نے بھاگنے کی تیاریاں مکمل کر رکھی ہے وہ جانتے ہیں کرونا کے بعد کرونا فنڈز پر بے لگام تحقیقات ہوگی اس لیے وفاقی سیکریڑی داخلہ کی طرح قبل از وقت ریٹائڑمنٹ لیکر بیرون ملک میں تجارت کریں۔