|

وقتِ اشاعت :   June 26 – 2020

سماجی کارکن سازین بلوچ کہتی ہیں کہ لسبیلہ میں منشیات کا مسئلہ بہت پرانا ہے پہلے شاید یہ مسئلہ ہر ایک کا نہیں تھا لیکن اب یہ مرض ہرگلی اور ہر محلے و گاؤں کی سطح تک پہنچ چکاہے،جس کی وجہ سے نوجوان اور خواتین بھی منشیات کی علت میں مبتلا ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے کاروبار میں شریک ہیں جو معاشرے میں اور بھی خطرناک عمل کی نشاندہی کررہاہے،سازین بلوچ مزید کہتی ہیں کہ منشیات کے تدارک کے لیے سول سوسائٹی اور حکومتی اداروں کو ایک پیچ پر ہونا چاہیے اور یہ تاثر ختم ہوناچاہیے کہ ہمارے ادارے خود منشیات کے فروغ میں شامل ہیں یا پھر وہ ڈرگ مافیا کے ساتھ رعایت برتتے ہیں۔

سیاسی و سماجی شخصیت غلام سرور جمعہ کہتے ہیں کہ لسبیلہ میں منظم سازش کے ذریعے منشیات پھیلا ئی جارہی ہے، منیشات کے خلاف مہم چلانے والے تمام تر سماجی و سیاسی تنظیم کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم کی ضرورت ہے جہاں سے مشترکہ کوششوں کو فروغ دیا جائے اور ضلع بھر میں منشیات کے حوالے سے آگاہی مہم کے ساتھ ساتھ حکومتی اداروں کو بھر ڈرگ مافیا کے خلاف سخت ایکشن کے لیے مجبور کیا جائے اور پولیس و دیگر انسداد منشیات کے اداروں میں کالی بھیڑوں کو بے نقاب کیا جائے تاکہ منشیات کے پھیلاو کو روکا جاسکے۔

سول سوسائٹی نیٹ ورک برائے انسداد منیشات کے کوارڈنیٹر اور ماہر قانون ایڈوکیٹ محمد عاصم لاسی کہتے ہیں کہ منشیات کے کیس میں پولیس کی طرف سے کیسز کی پیروی کے عمل کی کمزوری ہے جس کی وجہ سے زیادہ تر مقدمات میں گواہان کی شہادت اور برآمدگی کے معاملات میں شکوک پیدا ہوتے ہیں جس کے سبب اکثر ملزمان بری ہوجاتے ہیں،اور اکثر جو پکڑے جاتے ہیں، ان کی جائے گرفتاری،جائے برآمدگی میں تضادات سامنے آتے ہیں اور ان کا فائدہ ملزمان کو جاتاہے عاصم لاسی کہتے ہیں کہ منشیات کے پھیلاؤ کا سبب ایک یہ بھی ہے کہ اکثر ہمارے ہاں نشئی منشیات فروش کی حیثیت سے پکڑے جاتے ہیں۔

اور جب وہ جیل سے نکل کر آتے ہیں تو وہ واقعی منشیات فروش بن جاتے ہیں کیونکہ ان سے تھانے اور جیل کا خوف ختم ہوجاتا ہے۔لسبیلہ سے تعلق رکھنے والے ماہر نفسیات ڈاکٹر فواد سلیمان رونجھو نے بتایاکہ کہ لوگوں میں نشے کی طرف بڑھتے ہوئے رحجان کی بنیادی وجہ معاشی و معاشرتی عدم استحکام ہے لوگوں کے پاس وسائل کی کمی ہے۔ جس کے باعث لوگ ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں جس سے ان کو ہر وقت ذہنی دباؤ، کمپلیکس رہتا ہے اور وہ اس ذہنی تناؤ سے چھٹکارا پانے کیلئے نشہ کی طرف راغب ہوتے ہیں۔جس سے انہیں وقتی طور پر ذہنی سکون ملتا ہے۔

مگر نشہ آہستہ آہستہ ان کے جسم میں سرایت پذیر ہو کر عادت بن جاتی ہے، اگر وہ نشہ نہ کرے تو اس کا جسم مفلوج ہونے لگتا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ نشہ سے چھٹکارا دلانا آسان کام نہیں اس کیلئے نشہ میں مبتلا شخص سے نہایت نرمی سے اسے مختلف انجکشن و دیگر ادویات کے ذریعے نشے سے دور لایا جا سکتا ہے اور نفسیاتی طور پر مریض کے اندر نشے کے خلاف امید قائم کی جا سکتی ہے،ڈاکٹر صاحب کا کہناہے کہ انسان کو مریض سے نفرت نہیں کرنی چاہیے مرض سے نفرت کرنا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ اس کیلئے حکومت کو چاہئے کہ وہ ہر ضلع میں ری ہیبی ٹیشن سنٹر قائم کرے تاکہ نشے میں مبتلا افراد کو مقامی سنٹروں میں باقاعدگی کے ساتھ ٹریٹمنٹ دے کر اس موذی مرض سے چھٹکارا دلایا جاسکے۔

منشیات کے حوالے سے لسبیلہ کی اس قدر خراب صورتحال میں حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ منشیات کی خرید و فروخت پر پابندی کے ساتھ ساتھ اس کی اسمگلنگ کو بھی مکمل طور پر بند کرے تاکہ ماجد جیسے نوجوانوں کی زندگی بچائی جا سکے،منشیات فر وشی پر پابندی اور ا س کے خلاف کیے جانے والے اقدامات اپنی جگہ لیکن والدین کا اپنے بچو ں پر نظر رکھنے کا عمل انتہائی ضروری ہے۔ بچو ں کے ساتھ ان کے دو ستوں پر نظر رکھیں اور انہیں اچھی صحبت کے فو ائد بتائیں۔ جہاں اْن کے قدمو ں میں ہلکی سی بھی لرزش نظر آئے اْن پر قابو پانے کی کوشش کریں بصورت دیگر زندگی کا یہ اہم ترین سرمایہ ضائع ہو سکتا ہے،یقینا ان تمام تر مشترکہ کوششوں سے ہم منشیات سے پاک لسبیلہ کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔