|

وقتِ اشاعت :   June 26 – 2020

جیسے کے آپ جانتے ہیں کہ بلوچستان کے لوگوں نے ہر ممکن بدترین دن دیکھے ہیں چاہے وہ مسنگ پرسنز کی شکل میں ہو، یا بلوچ نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں، اب بلوچوں کو ایک اور ظلم کی داستان کرونا وائرس کی شکل میں دیکھنا پڑا۔ جیسے کہ آپ جانتے ہیں کرونا وائرس کی وجہ سے پورے پاکستان کے اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیز بندہیں، جس کو دیکھتے ہوئے “ایچ ای سی”نے تمام یونیورسٹیز کو باقاعدہ آن لائن کلاسز شروع کرنے کا حکم دیا اور یوں تمام یونیورسٹیز نے آن لائن کلاسز شروع کر دیں، یہ فیصلہ تو بہت ہی بہترین تھا مگر بلوچستان کے تمام سٹوڈنٹس کے لئے نہیں کیونکہ یہاں انٹرنیٹ ہی نہیں تو سٹوڈنٹس آن لائن کلاسز کیسے لیں؟

مگر اب اس وبا کا حساب بھی تو بلوچ سٹوڈنٹس کو ہی چکانا تھا کیوں کہ آن لائن کلاسز کو اٹینڈ کرنے کے لئے انہیں انٹرنیٹ کی ضرورت ہے جو بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں دور دور تک نظر نہیں آتی، وہاں انٹرنیٹ تو دور کی بات عام سگنلز کے لئے پہاڑوں کارخ کرنا پڑتا ہے، اب اس فیصلے کے خلاف بلوچ سٹوڈنٹس نے پرِامن مظاہرے شروع کئے اور مطالبہ کیا کہ“آن لائن کلاسز کے فیصلے کو واپس لیا جائے کیوں کے اْن کے علاقوں میں انٹرنیٹ نہ ہونے کی وجہ سے وہ آن لائن کلاسز اٹینڈ نہیں کر سکتے۔

اس فیصلے کے خلاف شال (کوئٹہ) میں بلوچ سٹوڈنٹس نے تین دن کا پرامن احتجاجی کیمپ لگایا اور پھر اپنا پرامن احتجاج ریکارڈ کروانے کے لئے ریلی کے صورت میں کیمپ سے بلوچستان ہائی کورٹ تک جا رہے تھے کہ سرکار نے پولیس کو آرڈر دیا کہ انہیں وہاں تک پہنچنے نہ دیا جائے اور اس طرح پولیس نے ہماری بہنوں کے دوپٹے پکڑ کر اْنہیں شال(کوئٹہ) کی سڑکوں پر گھسیٹا، ہمارے بھائیوں پر بدترین تشدد کیا گیا۔ آن لائن کلاسز کے لیے حکومت نے سہولت دینے کے بجائے سٹوڈنٹس کو گرفتار کروایا،جب بھی سٹوڈنٹ حقوق کے لیے نکلتے ہیں تو پولیس انہیں سڑکوں پر گھسیٹ کر گرفتار کر لیتی ہے۔

یہ پہلی بار نہیں کہ ہماری بہنوں کو گرفتار کیا گیا، انہیں سڑکوں پر گھسیٹا گیا، یہ پہلے بھی ہو چکا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔چلو، حکومت نے جو کیا سو کیا تو اب یہ بھی کرے تمام سٹوڈنٹس کو موبائل اور لیپ ٹاپ فراہم کرے، ساتھ میں انٹرنیٹ کی سہولت بھی تاکہ وہ بلوچستان کے کسی بھی علاقے میں بیٹھ کر آئن لائن کلاسز اٹینڈ کرسکے، حکومت کے لیے یہ کوئی مشکل تو نہیں۔ آخر میں ایک سوال اس سلطنت کے بادشاہوں سے،“بلوچستان کو آخر اس حد تک کیوں پہنچایا جا رہا ہے کہ بلوچ سٹوڈنٹس قلم چھوڑ دیں“؟