کراچی: عیدالاضحیٰ محض چند دن کی دوری پر ہے اور ایسے وقت میں کانگو وائرس سے کچھ ہفتوں میں دو افراد کی ہلاکت کے بعد ڈاکٹرز اور محکمہ صحت کے حکام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
آغا خان یونیورسٹی ہسپتال میں متعدی امراض کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سید فیصل محمود نے کہا کہ اس بیماری سے بچاؤ کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ویکسین نہ ہونے کی صورت میں خصوصاً جانوروں کی منڈی کا رخ کرتے وقت احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ وبائی مرض نہیں بلکہ یہ کسی جانور میں موجود کیڑے کے کاٹنے سے انسان میں منتقل ہوتا ہے، یہ دکھنے میں بہت چھوٹے ہوتے ہیں، جب بھی جانور خریدنے کے لیے جائیں تو بہتر ہے کہ مکمل آستینوں والی قمیض پہنی جائے۔
ڈاکٹر فیصل نے عیدالاضحیٰ کے لیے جانور خریدنے کی غرض سے منڈی جانے والے شہریوں کو مشورہ دیا کہ جانوروں کی منڈی میں جاتے وقت کوئی حفاظتی لوشن لگا لیں اور وہاں سے آتے ہی نہانا اس بیماری سے بچاؤ کے لیے کافی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جانور ذبح ہوتے وقت اطراف میں موجود لوگ منہ پر کوئی کپڑا یا ماسک لگا لیں جبکہ اگر ممکن ہو تو آنکھوں پر چشمہ بھی پہن لیں اور کوشش کریں کہ ذبح ہونے والے جانور کے خون کا کوئی بھی قطرہ ان کے منہ یا آنکھوں میں نہ جانے پائے۔
اس موقع پر ڈاکٹر نے واضح کیا کہ انفیکشن زدہ جانور کا گوشت پکا کر کھانے میں کوئی قباحت یا نقصان نہیں۔
فیصل محمود کے مطابق انفیکشن زدہ قربانی کے جانور کا گوشت پکانے یا کھانے میں کوئی نقصانات نہیں۔
کانگو وائرس کے علاج کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بخار پر قابو پانے کے لیے دی جانے والی ادویہ کے جسم پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ جواباً جسم کے کسی اور حصے کو نقصان پہنچا سکتی ہیں، اس بیماری کا علاج آسان نہیں۔
اس موقع پر انہوں نے حال ہی میں وائرس کا شکار ہونے والے 51 سالہ محمد جاوید کی مثال دی جو ہسپتال میں داخل ہونے کے ایک دن بعد ہی ہلاک ہو گئے۔
ڈاکٹر فیصل نے کہا کہ ا بیامری کے شکار زیادہ تر مریض کم از کم دو ہفتے تک زندہ رہتے ہیں اور جو لوگ بھی اس مرض سے صحتیاب ہوتے ہیں، ان میں بیماری ہونے کے 10ویں دن بہتری کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہ بیماری ہمارے خطے میں کئی سالوں سے موجود ہے تاہم یہ زیادہ تر پاکستان کے شمالی علاقوں میں پائی جاتی ہے۔ کراچی میں اس مرض کے زیادہ مریض یا اس طرح کے زیادہ کیسز سامنے نہیں آتے لیکن شمالی علاقہ جات سے سامنے آنے والے کیسز میں گزشتہ کچھ سال سے اضافہ ہوا ہے۔
اس وائرس کو کریمین کانگو ہیموریگک فیور نام اس وقت دیا گیا تھا جب یہ پہلی مرتبہ 1940 کی دہائی میں کریمیا اور پھر 1950 کی دہائی میں کانگو میں رپورٹ ہوا تھا۔