عمران خان کی حکومت نے ریاست مدینہ طرز کی حکمرانی کا نعرہ لگا کر عوام کی دل جیتنے کی بھر پور کوشش کی لیکن وہ ملک کو عملی طور پر ریاست مدینہ بنانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ریاست مدینہ میں مساوات، برابری انصاف اور تمام طبقات کے حقوق یکساں تھے،اسٹیٹس کو کا کوئی نظام نہ تھا جہاں خاص و عام کو ایک ہی نظر یا عدالتی امور میں یکساں اہمیت حاصل تھی لیکن عمران خان کے ریاست مدینہ اور حقیقی ریاست مدینہ میں زمین آسمان کا فرق ہے حقیقی ریاست مدینہ میں چور کو سزا ہوتی تھی جہاں کتنا ہی بااثر سردار یا سیاسی اثر و رسوخ قبائلی نواب چوہدری یاخواص سے تعلق کیوں نہ ہو۔ ایک مرتبہ قریش کے کسی سردار کی بیٹی پر چوری ثابت ہوئی جس پر قاضی نے ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر کیا تو اس وقت تمام لوگ حضور صلی اللہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول رہنمائی فرمائیں کہ قریش کے سردار کی بیٹی پر چوری ثابت ہوئی ہے۔
اور قاضی نے حد مقرر کر دی ہے جس سے قریش کے سردار کی بدنامی اور جگ ہنسائی ہوگی، آپ اس میں کچھ رعایت کی گنجائش نکالیں تو اس وقت سردار دو عالم رسول مقبول نے فرمایا کہ اگر اس لڑکی کی جگہ میری بیٹی فاطمہ بھی ہوتی تو پھر بھی میں اس حکم کے حق میں ہوتا۔لیکن عمران خان کی ریاست مدینہ میں دوسری پارٹیوں کے چوروں کیلئے سزا وجزا ہے ان کیلئے جیل و قید کی صعوبتیں ہیں لیکن عمران خان ہی کے پہلو میں جلوہ افروز وزراء چاہے چینی اسکینڈل،گندم اسکینڈل،ادویات اسکینڈل،ماسک اسکینڈل یا دوسرے بڑے کرپشن اسکینڈل کے مرکزی کردار ہوں وہ عمران خان کے قربت کی ہی وجہ سے صادق و آمین اور خائن کے القابات سے پاک تصور ہوتے ہیں اور وہی لوگ فرشتہ صفت انسان کہلانے کے لائق ہیں اور یہ سب نیب جیسے مقدس ادارے کی نظر سے دور ہوں یا نیب کی ان تک پہنچ نہ ہو یا یوں کہئے کہ وہ معزز اراکین نیب کے ریڈار پر نظر ہی نہیں آتے ہوں گے۔
عمران خان نے ملک میں اپنے دور حکومت کی دوسری بجٹ پیش کرکے عوام کو بہت مایوس کیا عوام کی امیدوں پر پانی پھیر دیا اور عوام کی عمران خان سے وابستہ توقعات زمین بوس ہو گئیں، وہاں عمران خان کے ریاست مدینہ کے دعوؤں کی قلعی بھی کھل گئی ہے جو حکمران ریاست مدینہ کا نعرہ لگا کر ملک میں انصاف برابری ترقی مساوات کے بڑے بڑے دعوے کرتا ہو وہی حکومت بننے کے بعد صوبے کی پسماندگی، عدم ترقی کے شکار اور رقبے کے لحاظ سے آدھا پاکستان جتنا صوبے یعنی بلوچستان کو نظر انداز کرے،وفاقی منصوبوں میں برائے نام چند منصوبے دیکر بلوچستان پر احسان عظیم کرے وہ کیونکر مساوات اور برابری کے تقاضے پورے کر سکتے ہیں۔ بلوچستان کے عوام روزاول سے ہی وفاقی ناانصافیوں کا شکار ہیں بلوچستان میں جنرل ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، جنرل مشرف اور نواز شریف کے دور ہی میں کچھ میگا منصوبے بنے لیکن اس کے باوجود بلوچستان وفاقی حکومت کی ریڈار پر کبھی بھی فوکس نہیں رہا اور نہ ہی وفاق نے ان کو ترقیاتی عمل میں ترجیح دینے کی کوشش کی۔
بلوچستان عوامی پارٹی جو کہ صوبے کو ترقی دینے اور بلوچستان کے حقوق کو وفاق سے لینے کے دعوؤں اور نعروں پروجود میں آئی، بی اے پی نے جو انتخابی نعرے لگائے اور وعدے کئے وہ برسراقتدار آتے ہی بلوچستان کو یکسر بھلا دیا۔وفاقی حکومت کی اتحادی ہونے کے باوجود وفاقی پی ایس ڈی پی میں صوبے کو نظر انداز کرنے پر کوئی ری ایکشن تک نہیں کیا گیا اور نہ ہی وزیر اعظم سے بطور اتحادی کوئی سخت احتجاج کیا گیا۔ بلوچستان کو عمران خان کے ریاست مدینہ نے وفاقی منصوبوں میں نظر انداز کرنے کے بعد این ایف سی ایوارڈ سے صوبے کے حصے سے بھی 30 ارب روپے تک کٹوتی کی ہے- کیا ریاست مدینہ میں اسی طرح کی ناانصافیاں کی جاتی تھیں – کیا موجودہ ریاست مدینہ میں برابری انصاف کا معیار برقرار رکھا گیا ہے، ریاست مدینہ صرف نعروں اور باتوں سے نہیں بن سکتا بلکہ عملی کردار سے ہی ریاست مدینہ طرز حکمرانی کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔
جس ملک یا ریاست میں جھوٹ حکمران کلاس کی فطرت ہو، وہاں ریاست مدینہ تو کجا وہاں ریاست یثرب بھی نہیں بن سکتا۔ بحیثیت مسلمان سب سے بڑا گناہ کبیرہ جھوٹ ہے ہمارے ملک میں کس کمال مہارت سے جھوٹ بول کر اور ملکی خزانے پر ڈاکے ڈال کر عوام کے حقوق غضب کئے جا رہے ہیں۔ بلوچستان سے پی ٹی آئی کے سابق اتحادی بی این پی کے قائد سردار اختر مینگل جوکہ اب آزاد نشستوں پربیٹھنے کا اعلان کرچکے ہیں،نے وفاقی بجٹ پر بلوچستان کو نظرانداز کرنے پر بلوچستان عوامی پارٹی کی وفاق سے علیحدگی پر شہباز قلندر کے مزار پر حاضری دینے اور چادر چڑھانے کا اعلان کیا ہے لیکن بی اے پی نے وفاقی حکومت سے اتحاد ختم کرنے کا کوئی اعلان اور نہ ہی اس طرح کا سوچا ہوگا اور نہ ہی بی اے پی سردار اختر جان کی منت کو پورا کرنے کا موقع دے گا۔
وفاقی حکومت نے موجودہ بجٹ میں بلوچستان کے 42 منصوبوں کو وفاقی پی ایس ڈی پی سے نکال دیا ہے بلوچستان کے اہم منصوبوں میں قومی شاہراہوں کو دو رویہ کرنا، کچھی کینال کی فیز ٹو کی بحالی و آغاز سمیت دیگر اہم منصوبے جو کہ صوبے میں اہمیت کے حامل تھے،وفاق نے ان پر خاطر خواہ توجہ تک نہ دی اور نہ ہی بلوچستان کے اراکین قومی اسمبلی نے وفاق کو مجبور کیا کہ وہ بلوچستان کو ترقیاتی منصوبوں میں اولیت دے، جب تک اراکین،صوبے کے منصوبوں پر اپنی علاقائی یا ذاتی منصوبوں کو ترجیح دیتے رہیں گے تو یقینا اسی طرح ہی بلوچستان وفاقی سطح پر نظرانداز ہوتا رہے گا اور صوبے میں ترقی کا عمل کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہ ہوگا جس کے باعث عوام کی محرومیوں میں سال بہ سال اضافہ ہوتا رہے گا اور دشمن قوتوں کو موقع ملے گا کہ وہ بلوچستان کے معصوم لوگوں کو ورغلائیں۔ اب بلوچستان کی ترقی کیلئے وفاق اور اسٹیبلشمنٹ کو بیٹھ کر لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔
اور بلوچستان کی ترقی کیلئے اسپشل طور پر میگا منصوبوں کا آغاز کرکے بلوچستان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنا ہوگا تاکہ بلوچستان کی محرومیوں کا ازالہ ہوسکے اور بلوچستان ملک کے دیگر صوبوں کی طرح ترقی یافتہ صوبہ ہو تاہم وفاق کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومت بھی بلوچستان کی پسماندگی کا سب سے زیادہ ذمہ دار ہے جہاں سالانہ اربوں روپے ترقی کے نام پر کاغذوں میں ہی خرچ ہوں جو زمینی حقائق کے برعکس صوبے کے کاغذی منصوبوں میں ترقیاتی عمل ہو وہاں صوبہ پسماندگی کا یقینا شکار ہو گا۔ پنجاب سندھ خیبر پختون خواہ میں سے سب سے زیادہ ترقیاتی فنڈز بلوچستان کے اراکین اسمبلی کو ملنے کے باوجود صوبہ کی پسماندگی سخت احتساب کا متقاضی ہے لیکن بلوچستان میں احتساب نام کی کوئی چیز ہی نہیں۔
کیا صوبے پر سالانہ اربوں روپے ترقیاتی مد میں خرچ ہونے کے باوجود پسماندگی اور محرومیوں کا ازالہ نہ ہونا اور اس کے ذمہ داروں کا تعین نہ ہونا صوبے اور عوام کے ساتھ ناانصافی کے مترادف نہیں ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ بلوچستان میں ترقیاتی منصوبوں کی سخت مانیٹرنگ اور جائزہ لیا جائے اور اس کیلئے میرٹ پر ٹیم کا تقرر کرکے اسے سفارش اور سیاست سے مکمل دور رکھا جائے تاکہ میرٹ پر معیاری منصوبے بروقت مکمل ہوں اور عوام ان سے بہتر اندار میں استفادہ کرسکیں اور جس منصوبے میں ناقص میٹریل یا کرپشن کا اندیشہ ہو وہاں سخت محکمانہ کاروائی کی جائے، صوبے میں میرٹ کے نفاذ اورسیاسی سفارش سے بالاتر ہونے اور سزا و جزا سے ہی ترقی کا نہ رکنے والا عمل شروع ہو سکتا ہے۔