آج کل ہر طرف آن لائن کلاسز مباحث کا موضوع ہے- میں چونکہ خود ایک سرکاری یونیورسٹی میں شعبہ کمپیوٹر میں استاد ہوں اور درس و تدریس کے عمل سے وابستہ ہوں، تو یہ بحث میرے لئے عام لوگوں سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ آن لائن کلاسز کے بارے میں مختلف طلباء کی مختلف آراء ہیں۔ کچھ طلباء کے بقول یہ دیہی علاقے کے لوگوں کے ساتھ زیادتی ہے جو انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے آن لائن کلاسوں میں اپنی حاضری لگانے سے قاصر ہیں۔ اسی طرح مختلف شعبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کی اس حوالے سے مختلف آراء ہیں۔
آن لائن کلاسز کی افادیت کے بارے میں باقی انسانوں کی طرح میرا بھی ایک نقطہ نظر ہے جو کہ عمومی نقطہ نظر سے ذرا ہٹ کر ہے۔ بلاشبہ آن لائن تعلیم کو ممکن بنانے کیلئے جدید اور تیز ترین انٹرنیٹ ایک بنیادی ضرورت اور کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ مگر جن علاقوں میں یہ سہولت موجود ہے اور آن لائن کلاسز کا اجراء ممکن ہے، کیا وہاں تعلیم کے تمام تر تقاضے پورے ہورہے ہیں؟
اس سوال کو سمجھنے کیلئے ہمیں کلاسز میں ہونے والے تدریسی عمل کا ایک تنقیدی جائزہ لینا ہوگا – ہمارے ہاں عمومی طور ایک لیکچر تقریباً ایک گھنٹہ یا کم از کم چالیس منٹ کے دورانیے پر مشتمل ہوتا ہے۔ مختلف اساتذہ مختلف طور طریقوں سے اپنا لیکچر پیش کرتے ہیں۔کچھ لوگ نوٹس (Notes) اور بلیک بورڈ یا وائٹ بورڈ پر مارکر سے لکھتے ہیں اور ساتھ ساتھ بولتے ہوئے اس کی وضاحت کیئے جاتے ہیں، جبکہ کچھ جدید طریقے مثلاً پاور پوائنٹ (Point Power) پر اپنا لیکچر سلائیڈ(Slide) کی صورت میں پیش کرتے ہیں اور اگر طلباء کو لیکچر سمجھنے میں کوئی دقت پیش آئے تو لیکچر کے درمیان میں یا پھر آخر میں سوال جواب کا ایک وقفہ رکھتے ہیں۔
جس میں ان طلباء کی الجھن دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکچر کے دوران عموماً طلبا نوٹ وغیرہ لکھتے ہیں تاکہ بعد میں امتحانات کی تیاری کی دوران وہاں سے مدد لے سکیں۔یہ تکنیک درس و تدریس کے پرانے طریقوں سے قدرے بہتر ہے مگر اکیسویں صدی میں یہ تکنیک بھی ہر پچھلی تکنیک کی طرح پرانی ہوتی جارہی ہے۔ انسانی نفسیات کے متعلق جدید سائنسی تحقیق سے یہ بات سمجھنے میں آتی ہے کہ انسانی ذہن ایک خاص اور محدود دورانیئے تک کسی شہ پر بلا ناغہ توجہ یعنی ( focus uninterrupted) رکھ سکتی ہے مگر اس سے زیادہ نہیں – کچھ تحقیقات کے مطابق یہ دورانیہ تیس سے چالیس منٹ تک ہوتا ہے۔
جبکہ کچھ ماہر نفسیات کے بقول اس کا دار و مدار ہر فرد کے لحاظ سے الگ ہے۔ ایک شخص اگر چالیس منٹ تک ایک لیکچر کو بغیر کسی دقت کے سن سکتا ہے اور سمجھ سکتا ہے تو دوسرا شخص شاید بمشکل پندرہ یا تیس منٹ تک ہی اس پر توجہ برقرار رکھ سکے۔ مزید یہ کہ اس میں مختلف انسانوں کو درپیش مختلف نفسیاتی مسائل کو بھی زیر بحث رکھا جائے تو حقیقت کافی پیچیدہ تصویر پیش کرتی ہے۔ نیز یہ کہ کوئی ایسا بین الاقوامی معیار اب تک ایجاد نہیں ہوسکا جس کے تحت ہر انسان کی کسی شہ پر توجہ دینے کی قابلیت کو پرکھا جاسکے۔
ان سب حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے شعبہ تعلیم کے تحقیق دان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اوسطاً ایک انسان کا کسی بھی شے پر توجہ قائم رکھنے کا دورانیہ اس شے کے وقوع پذیر ہونے کے دورانیے سے تعلق رکھتا ہے اور یہ تعلق تناسب معکوس یعنی Proportional Inversely ہے۔ سادہ مثال دی جائے تو ایک لیکچر کا دورانیہ جتنا زیادہ کریں گے، اس کو توجہ سے دیکھنا اور سننا اتنا ہی مشکل ہوجائے گا- اس لئے لیکچر پر توجہ مرکوز کرانے کیلیئے اس کا دورانیہ کم سے کم رکھا جائے۔
اس نقطے پر عمل کرتے ہوئے دنیا بھر کی مختلف جامعات کے لیکچرز کا دورانیہ اگر انٹرنیٹ پر ملاحظہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے اوسط لیکچر کا دورانیہ پاکستانی جامعات میں ہونے والے لیکچر سے آدھا یا اس سے بھی کم یعنی دس سے پندرہ منٹ ہے- اس کا تجربہ مجھے ذاتی طور پر تب ہوا جب میں نے کورسیرا (Coursera) نامی ویب سائٹ کی توسط سے دنیا بھر کی مشہور جامعات جیسے University Yaleاور London College Imperialسے کچھ مضامین پڑھنے کا شرف حاصل کیا- ان کورسز میں جتنے بھی لیکچر کی ویڈیو زVideos موجود ہیں، اس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ لیکچر کا دورانیہ کم سے کم چار یا پانچ منٹ اور زیادہ سے زیادہ دس یا پندرہ منٹ تک کا ہے- البتہ لیکچر یا کلاسوں کی تعداد ایک عام کورس کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ یعنی لیکچر کی تعداد زیادہ اور دورانیہ کم، سادہ لفظوں میں یہی فارمولہ استعمال کیا گیا ہے۔
میرے ذاتی تجربے میں جتنا لطف اندوز میں ان چند دنوں میں کورسیرا (Coursera) سے کچھ مضامین پڑھ کر ہوا، شاید ہی اپنی چار سال کی ڈگری کے دوران ہوا – بلاشبہ میں نے اپنی چار سالہ ڈگری جس تعلیمی ادارے سے حاصل کی اس کا شمار پاکستان کے بہترین جامعات میں ہوتا ہے- مگر اس کے باوجود یہ بات تسلیم کرنے کی ضرورت پیش آئی کہ ہمارے تعلیمی ادارے اب بھی درس وتدریس کے پرانے طور طریقے استعمال کر رہے ہیں جس کی وجہ سے طباء لیکچر کے دوران یا تو توجہ نہیں دے پاتے یا پھر اس مضمون سے ہی بیزار ہوجاتے ہیں۔
اب جبکہ پاکستان کی تمام بڑی جامعات میں آن لائن کلاسوں کا اجراء ہونے والا ہے، لہذا اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ان کلاسوں کو جدید تدریسی عمل سے آراستہ کیا جائے، نہ کہ وہی پرانے اور گھسے پٹے طریقوں پر مبنی لیکچر دیئے جائیں جس سے طلباء آف لائن (offline) کلاس میں ہی بھاگ جاتے ہیں تو آن لائن کلاس میں ان کا کیا حشر ہوگا۔
اس کیلئے ہایئر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کو تمام ذرائع بروکار لانے پڑیں گے اور اساتذہ کو جدید تدریسی عمل کیلئے تربیت اور Trainingدینے کا انتظام بھی کرنا پڑے گا – بصورت دیگر، آن لائن کلاسوں میں استاد اکیلے ہی کیمرے کے آگے منہ لٹکائے نظر آئیں گے جب کہ طلباء آن لائن کلاس کے بجائے TikTok سے پڑھنے کو ترجیح دینگے۔