جون کا مہینہ ہے بجٹ پیش ہونے والا ہے ملک کی متحدہ اپوزیشن قرنطینہ میں ہے قومی اسمبلی کا اجلاس جاری ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر بجٹ پیش ہونے سے ایک دن قبل پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت سے اپنی حمایت واپس لینے کا اعلان کردیا۔سردار اختر مینگل نے واضح کہا کہ انکا اور حکومت کا ایک معاہدہ ہوا تھا جسکے لئے حکومت کو ایک سال کا وقت دیا تھا تاہم اب دو سال گزرگئے ہیں حکومت کو بلوچستان نیشنل پارٹی کے چھ نکات سے کوئی دلچسپی نہیں آج تک تحریری معاہدے پر عملدرآمد کیلئے پاکستان تحریک انصاف نے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا اسلئے اب وہ اس حکومت کا حصہ نہیں رہینگے اور آج اس فلور پر اپنی حمایت واپس لینے کا اعلان کرتے ہیں۔دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف کو ملک کی سب سے بڑی پارلیمانی جماعت بننے کا اعزاز حاصل ہوا پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بائیس سال بعد اپنے خواب کی تعبیر کے قریب تھے
لیکن سب سے بڑا چیلنج تھا وزیر اعظم بننے کیلئے درکار ایک سو بہتر ووٹوں کی، اس چیلنج کو عبور کرنے کے لئے ایسی صورتحال میں پاکستان مسلم لیگ ن اور پی پی پی سے اتحاد ممکن بھی نہیں تھا اور وزارت عظمٰی کے خواب کی تعبیر بھی درکار تھی جسکے لئے جیسے حالات بیانوے کے ورلڈکپ میں کپتان کی ٹیم کے تھے کچھ ویسے ہی حالات آج بھی کپتان کے سامنے تھے، ایسے میں کپتان کے پاس جیسے بیانوے میں حالات کچھ اچھے نہیں تھے تو صورتحال آج بھی کچھ ویسے ہی تھی۔ اس وقت جاوید میانداد خان کے ہمراہ تھے تو اس بار جاوید میانداد کا کردار جہانگیر ترین کے پاس تھا اور جہانگیر ترین جنہیں پاکستان میں شوگر کنگ کہا جاتا ہے وہ بیٹنگ کے کاریگر جاوید میانداد کی طرح عمران خان کیلئے وارے قربان ہورہے تھے بیچارے جاوید میانداد کو کچھ ملا یا نہ ملا ترین صاحب کچھ یا بہت کچھ لینے کے چکر میں ایسے ہی کھیل سے آؤٹ ہوئے جیسے کسی زمانے میں عمران خان صاحب نے جاوید میانداد کو چھوڑ دیا تھا ا س وقت بھی سلیکٹرز ان پر مہربان تھے اب بھی سلیکٹرز مہربان ہیں۔
بات ہورہی تھی کھیل کے میدان کے جاوید میانداد سے سیاست کے میدان کے جہانگیر ترین تک اور جہانگیر خان ترین نے آؤٹ ہونے سے قبل عمران خان کو وزیر اعظم بنانے کیلئے اپنے جہاز کو رکشے کی طرح استعمال کیا، چھوٹی جماعتوں ایم کیو ایم، جی ڈی اے پاکستان، مسلم لیگ ق،بی این پی مینگل،جے ڈبلیو پی اور آزاد اراکین میں سے کسی کو معاہدے تو کسی کو یقین دھانی پر لیکر بنی گالہ پہنچے۔لیکن ترین صاحب عمران خان کی نفسیات اور کرکٹ کے ادوار کو بھول گئے کب کس کیساتھ خان صاحب نے کیا سلوک کیا خان صاحب نے کسی کمزور کھلاڑی کو کھلا کر ملبہ اپنے اوپر نہیں لیا لیکن اسکے باوجود بیانوے کے ورلڈ کپ کی طرح جہانگیر ترین نے کبھی وسیم اکرم، کبھی انضمام الحق والی اننگز کھیلی اور عمران خان ایک مشکل ٹورنامنٹ میں فاتح ٹھہرے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے جیسا کہ بیانوے کے اصل ہیرو وسیم اکرم اور انضمام الحق کی کارکردگی اور جاوید میانداد کے مشورے سب ایک طرف ہوئے
اور کریڈٹ اکیلے خان صاحب نے لے لیا۔ یہاں بھی تاریخ نے کچھ مختلف نہیں دیکھا خان صاحب وزیر اعظم بنے اور جہانگیر ترین کا بوجھ بالآخر اتار دیا، خان صاحب کے وزیر اعظم بننے کے موقع پر اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں اگر چاہتیں تو کسی معاملے پر اتفاق کرکے عمران خان کا راستہ روک سکتی تھیں تاہم سیاسی طور پر ایک دوسرے سے ڈسی ہوئی دونوں بڑی جماعتوں ن لیگ اور پی پی پی نے یہ موقع کھو دیا۔ یہاں معاملہ صرف سیاسی عدم برداشت کا نہیں تھا بلکہ دونوں جماعتوں کے جو غیر سیاسی مسائل ہیں جیسا کہ زیر سماعت مختلف مقدمات دونوں جماعتوں کے ہر فیصلے میں آڑے آجاتی ہیں۔
اور وہ اپنے نظریئے اور بیانئے کو بھول کر مصلحت کاشکار ہوتی آرہی ہیں۔اسی چیز نے پاکستان تحریک انصاف کو ایندھن فراہم کررکھا ہے اور یہی وہ ریورس سوئنگ ہے جس پر عمران خان آدھے اوورز باؤنسر مار کر اور پھر سلیکٹرز کی آشیر باد سے ریورس سوئنگ کراکے اس اپوزیشن کو ڈھیرکردیتے ہیں۔
کچھ ایسی ہی صورتحال چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی کیخلاف آنے والی اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد میں ثابت ہوچکی ہے اب لیکن جو بھی کہیں، سردار اختر مینگل کی باقاعدہ علیحدگی کے بعد مسلم لیگ ق نے وزیر اعظم کے عشائیہ میں شرکت نہ کرکے جو پیغام دیا ہے وہ واضح ہے کہ اگر ہم اپنی مرضی کی اننگز نہیں کھیل سکتے تو آپ کا رن ریٹ بھی سلو رکھ سکتے ہیں اور ہمارے بلوچستان کے ایک قومی اسمبلی کی سیٹ والی جماعت جمہوری وطن پارٹی ابھی تک ہے تو حکومت کاحصہ لیکن بلاول بھٹو زرداری سے بھی نواب زادہ شاہ زین کی ملاقات ہوئی ہے گو کہ دونوں شخصیات کے نانا اور دادا کی گاڑی چھنتی تھی، اب یہ نسل وہ تعلق رکھ سکے یا نہیں یہ کہنا قبل از وقت ہے۔تین اور اتحادی جماعتیں جی ڈی اے اور ایم کیو ایم اور بلوچستان عوامی پارٹی بھی کچھ حکومت سے نالاں ہیں لیکن ابھی وہ بی این پی مینگل،ق لیگ یا جے ڈبلیو پی والی صورتحال میں نہیں جانا چاہتیں کیونکہ ایسا کوئی فیصلہ انکے بھی غیر سیاسی مسائل کی وجہ سے انہیں پریشان کرسکتا ہے
اور ایم کیو ایم کے غیر سیاسی مسائل ہیں بھی شدید گو کہ سردار اختر مینگل کے غیر سیاسی مسائل بھی شدید تھے لیکن وہ اپنی اننگز کھیل گئے۔ ق لیگ، بی اے پی اور جی ڈی اے سلیکٹرز کی مرضی کے بغیر کچھ کرنہیں سکتے، یہ فیصلہ لینا ان تینوں جماعتوں کے خمیر میں نہیں ہے اسلئے وہ ادائیں دکھائینگے،اس سے زیادہ اس وقت تک کھیل نہیں دکھائینگے جب تک نیچرل گیم کھیلنے کی اجازت سلیکٹرز سے نہیں مل جاتی۔ تو پھر ایک سو اسی ارکان کی حمایت والی حکومت کو پھر بھی خطرہ ہے؟ایسے میں جب اپوزیشن خود تقسیم ہے بڑی جماعتیں ن لیگ اور پی پی پی دوسری بار اکھٹے کھیل سے باہر ہیں اور سلیکٹرز نے چندکھلاڑی ان دونوں ٹیموں میں رکھے ہیں جب چاہیں یہ ٹیمیں جیتا میچ ہارجاتی ہیں تو پھر عمران خان کی حکومت کیوں کمزور ہے اور ایسا کیا ہے کہ حکومت کے اہم وزیر فواد چوہدری نے فل ٹاس پر نکل کر بیٹنگ کی اور بتادیا کہ چھ ماہ میں معاملات ٹھیک نہ ہوئے تو انکے لئے مشکلات ہونگی اور ایسا فواد چوہدری نے خود نہیں کہا، چند دن پہلے وزیر اعظم عمران خان یہ بات اپنی کابینہ کو بتاچکے ہیں
کیونکہ نہ تو بیانوے کی طرح وسیم اکرم پلس عثمان بزدار پرفارم کررہے ہیں اور نہ مراد سعید انضام الحق کا رول پلے کررہے ہیں، باقی رہی سہی کسر کرونا ٹڈی دل اور بیڈ گورننس اور احتساب کی گردان نے پوری کردی ہے۔یہ صورتحال ایک ایسی حکومت کے سامنے ہے جسے تادم تحریر پاکستان کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی مکمل سپورٹ حاصل ہے یہاں تک کہ وزیر اعظم کے ایران دورے، امریکا دورے کی لوز بالز کے بعد کرونامیں متضاد رائے،آٹے چینی اور پیٹرول بحران کیساتھ حال ہی میں سونے پہ سہاگہ قومی اسمبلی میں اسامہ بن لادن کو شہید قرار دینے کے بیانیے کے باوجود اس حمایت کا ہونا حیران کن ہے۔کچھ ایسا ہی ہے کہ کہیں خان صاحب خواب تو نہیں دیکھ رہے لیکن اس سہانے خواب کی تعبیر بالکل الٹ نہ ہوجائے۔ ارے چھوڑیں مفروضے ابھی بجٹ منظور ہوا، حکومت نے امید سے زائد ووٹ لے لئے،کچھ نہیں ہونا،ہاں جی نمبر گیم اور اپوزیشن کے غیر سیاسی مسائل کے آڑے آنے نے فی الحال عمران خان کی حکومت کو آکسیجن دے رکھی ہے
ورنہ حکومت کی معاشی ٹیم اور تحریک انصاف کے ویژن مشن کے دعوؤں کا پول پاکستان تحریک انصاف کی حکومت دو سال میں خود کھول چکی ہے۔ رہی سہی کسر کرونا اور ٹڈی دل نے پوری کردی ہے،بیڈ گورننس اور بی آر ٹی منصوبے کی توبات ہی نہ کریں۔ چینی آٹے اور تیل کے بحران نے بتادیا کہ کہیں تو کچھ ہے جسکی پردہ داری ہے بقول بلاول بھٹو جس معاملے پر خان صاحب نوٹس لیتے ہیں وہ ایسا بگڑتا ہے کہ قابو ہی نہیں آتا تو اب ایک بات واضح ہے حکومت کو اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں،بیچاری اپوزیشن ابھی تک صادق سنجرانی کی تحریک عدم اعتماد میں ملنے والی صدمے کو نہیں بھولی،اگر مولانا فضل الرحمان اور سردار اختر مینگل کے اسرار پر کوئی ایڈونچر کرنے نکلی تو کہیں غش کھا کر نہ گر پڑے،اسلئے تحریک انصاف کو خطرہ اپنی کارکردگی اور اپنی جماعت کے اندرونی مسائل سے ہے اور یہ چھ ماہ اسی لئے دیئے گئے ہیں بصورت دیگر آپشنز کھلے ہونگے اور پھر سیٹی بجتے ہی آواز آئیگی راؤنڈ از ااوور۔
گیم ون راؤنڈ ٹو میں کسی کی نظر شاہ محمود قریشی تو کسی کی اسد عمر پر ہو لیکن اسی اسمبلی میں محمد میاں سومرو بھی موجود ہیں اور فواد چوہدری اور شیخ رشید کی لاٹری اگر نکلی تو کیا ہوگا، یہ تو ہیں مائنس ون کے آپشن،کچھ لوگ تو سوچ رہے ہیں کہ جام کمال بھی برے نہیں لیکن جب چئیرمین سینیٹ بلوچستان سے ہے تو فوری دوسرا عہدہ بڑا عہدہ ملنا آسان نہیں لیکن اگر سلیکشن کمیٹی نے فیصلہ کیا تو کچھ نہیں ہوگا، کوئٹہ میں ایک قومی اسمبلی کی نشست اسٹے آرڈر پر چل رہی ہے اسکا فیصلہ آجائیگا اور ہمارے جام صاحب وہاں امیدوار ہونگے،پھر کوئی ہرا کر دکھائے انہیں۔
یہ ساری صورتحال اس وقت سامنے آئیگی جب ریفری کی سیٹی بجے گی تو کھیل بھی سجے گا اور پھر ایسا ہی اتفاق ہوگا جیسا آرمی ایکٹ کی ترمیم میں پورے ملک نے دیکھا،بغیر سیٹی بجے یہ اپوزیشن اور حکومت کی جھڑپیں،یہ ملنا ملانا،یہ آل پارٹیز کانفرنس،یہ اتحادیوں کا روٹھنا منانا سب بے سود ہیں لیکن یاد رکھیں سیٹی بجنے سے قبل یا بعدمیں جسٹس قاضی فائز عیسٰی کیس کا فیصلہ ایسا ہو کہ سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے تو ایسی صورتحال میں ریفری کی سیٹی گرج دار بھی ہوگی گیم ون کا راؤنڈ ٹو بھی ہوگا بصورت دیگر کہیں گیم از اوور کی آواز نہ آجائے۔
Shoukat Ali
شاہد۔ آپ نے موجودہ سیاسی صورتحال کا نھایت درست تجزیہ کیا ھے ۔
عام آدمی کے خیال میں کپتان کی ٹیم شاید ملک کو ناقابل تلافی نقصان کرا سکتی ھے ۔