خفیہ اداروں کی دنیا کئی مشہور قصے کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔ کبھی جیمز بانڈ کی فلمیں دیکھ کر جاسوسی کا شوق چڑھتا تھا تو کہیں امریکی، روسی اور اسرائیلی ایجنٹوں کی دلچسپ کہانیاں ذہن میں بلا انتہا تجسس پیدا کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ ہالی ووڈ سمیت مختلف ممالک کے فلم سازوں نے ہر ادوار میں خفیہ اداروں کے لئے کام کرنے والے ایجنٹوں کی زندگی پر مشتمل فلمیں بنائیں،جن میں چالاک اور شاطر ایجنٹوں کی سنسنی خیز داستانیں پیش کی جاتیں اور ہم جیسے شائقین سچ یا جھوٹ کی پرواہ کیئے بغیر ان سے لطف اندوز ہوتے۔
مگر آج میں ایک ایسے کردار کا تذکرہ کرنے جارہا ہوں، جس کے بارے میں عام عوام میں سے شاید ہی کسی نے پڑھا یا سنا ہو، یا کوئی فلم دیکھی ہو- یہ کردار بھی خفیہ اداروں کی تاریخ سے تعلق رکھتا ہے مگر اس کی کہانی دوسرے خفیہ ایجنٹوں سے ہٹ کر ایک منفرد روپ اختیار کرتی ہے۔جہاں زیادہ تر فلموں میں ایجنٹ کو قتل، جاسوسی وغیرہ جیسے کام کرتے دکھایا جاتا ہے، اس ایجنٹ کی کہانی ایک مختلف موڑ اختیار کرتی ہے۔یہ سنہ 1969 کی بات ہے جب مشرق وسطیٰ میں عرب اسرائیلی تنازعہ اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا۔
مصر میں صدر جمال عبدالناصر کی حکومت تھی جو اسرائیل کے لحاظ سے کافی جارحانہ پالیسی کا حامی تھا۔ جمال عبدالناصر 1965 میں اسرائیل کے ہاتھوں مصر کی شکست کو لے کر ہمیشہ اضطراب کا شکار رہتا تھا، اور ٹھان رکھی تھی کہ ایک دن مصر نے اپنی تاریخی شکست اور بے عزتی کا بدلہ لینا ہے۔ جمال عبدالناصر کی کابینہ میں مختلف وزیر و مشیر شامل تھے، مگر ان سب میں قریب ترین اس کا اپنا داماد اشرف مروان تھا۔ اشرف کو صدر ناصر کا داماد ہونے کے ناطے مشیروں میں وہ مقام حاصل تھا جو کہ شاید ہی کسی اور کو حاصل ہو۔
وہ ہر اجلاس اور میٹنگ کا حصہ ہوتا اور کسی بھی فیصلہ سازی میں دوسرے مشیروں کے مقابلے میں صدر ناصر پر زیادہ اثر انداز ہوتا۔ اسرائیل پر حملے کی منصوبہ بندی کیلیئے کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے صدر ناصر کو اشرف سے مشاورت کی ضرورت تھی۔جمال عبدالناصر نے ٹھان کر رکھی تھی کہ اسرائیل پر ہر صورت حملہ کرنا ہے اور 1965 والی شکست کا بدلہ چکانا ہے، مگر اشرف اس معاملے میں اختلاف رائے رکھتا تھا – ایک اہم اجلاس میں صدر ناصر نے سب مشیروں کو بلا کر اسرائیل پر حملے کی منصوبہ بندی سے متعلق مشاورت چاہی،
تو اشرف مروان وہ واحد مشیر تھا جس نے حملے کی مخالفت کی اور صدر کو مشورہ دیا کہ وہ امریکہ کو بطور ثالث شامل کرکے اسرائیل سے امن معاہدہ کرلے۔اشرف کا ماننا تھا کہ اسرائیل پر حملہ کرنے کی صورت میں ہمیں ایک بار پھر شکست کا سامنا ہوگا کیونکہ اسرائیل کو امریکہ کی مدد حاصل تھی۔جبکہ سوویت یونین جو کہ مصر کا اتحادی تھا، اس وقت معاشی طور پر کمزور ہوچکا تھا اور کسی بھی وقت ٹوٹ سکتا تھا- لہذا سوویت یونین کے بھروسے پر اسرائیل سے جنگ نہیں کی جاسکتی تھی۔
مروان کے اس مشورے پر صدر ناصر غصے میں آکر میٹنگ چھوڑ کر چلا گیا اور اپنی بیٹی کو بھی کھری کھری سنائی۔
اشرف مروان اپنی بیوی یعنی صدر ناصر کی بیٹی کو لے کر ملک چھوڑ کر سوئیٹزر لینڈ چلا گیا اور اس دوران صدر ناصر کی نظروں سے دور رہا۔کچھ عرصے بعد ہی صدر ناصر دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے اور اقتدار نو منتخب صدر انور السادات کے پاس چلی گئی۔ اشرف مروان نے موقع کی مناسبت دیکھ کر مصر کا رخ کیا اور صدر انور سادات کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش میں لگ گیا – اشرف مروان حکومتی حلقوں میں کافی اثر رسوخ رکھتا تھا اور صدر انور السادات کا اعتماد حاصل کرنے میں اسے زیادہ مشکل پیش نہیں آئی۔
انور السادات بھی جمال عبدالناصر کی طرح اسرائیل کے بارے میں جارحانہ مزاج رکھتا تھا اور اسی کوشش میں تھا کہ کسی طرح اسرائیل پر حملہ کرکے اس سے صحرائے طور کا کھویا ہوا حصہ واپس لیا جائے۔ صدر ناصر کی طرح انوار السادات کے مشیران میں بھی اشرف مروان سب سے زیادہ اہمیت رکھتا تھا تو اس حساب سے کسی بھی ہونے والے فیصلے سے باخبر رہتا تھا۔جب مروان کو پتا چلا کہ صدر انور السادات بھی اسرائیل پر حملے کی تیاری میں ہے تو اس نے اس جنگ کو روکنے کیلئے ہر ممکن کوشش شروع کردی۔ مگر جب اسے محسوس ہوا کہ یہ جنگ صرف مصر کی جانب سے نہیں بلکہ اسرائیل کی جانب سے بھی روکنے کی ضرورت ہے
تو اس نے ایک ایسا فیصلہ کیا جو شاید اس سے پہلے جنگی تاریخ میں دیکھنے کو نہ ملے۔اشرف مروان نے اسرائیل خفیہ تنظیم موساد کو خبر دی کہ مصر کی جانب سے ان پر حملے کی تیاریاں ہورہی ہیں،لہذا وہ چوکنا رہیں اور اپنے دفاع کو مضبوط رکھیں۔سادہ الفاظ میں اشرف مروان ایک ڈبل ایجنٹ یعنی دونوں ممالک کیلئے کام کرنے والا جاسوس بن گیا – یہ کام موت کو دعوت دینے کے برابر تھا کیونکہ اس وقت اسرائیل اور مصر کی خفیہ تنظیمیں ایک دوسرے کی نقل و حرکت پر حد درجہ نظر رکھی ہوئی تھیں اور دونوں اطراف سے کسی بھی قسم کی غلطی سنگین نتائج کا باعث بنتی –
مگر اشرف مروان کو اپنی جان سے زیادہ ان جانوں کی فکر تھی جو مصر یا اسرائیل کی ممکنہ جنگ کے نتیجے میں موت کو منہ میں چلی جاتیں۔
اشرف مروان کی اولین کوشش یہی تھی کہ اسرائیل اور مصر کے درمیان کوئی امن معاہدہ ہو اور جنگ سے بچا جا سکے،اور اگر ایسا نا ممکن ہے تو جنگ کی صورت میں بھی ایسی کوئی صورت نکالی جائے کہ دونوں طرف جانی نقصان کم سے کم ہو – لہذا جنگ کا خطرہ ٹالنے کی خاطر اس نے یہ حکمت عملی اپنائی،کہ جب بھی صدر سادات اسرائیل پر حملے کی تیاری کرتا، اشرف مروان خفیہ طریقے سے اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کو اس کی پیشگی اطلاع کر دیتا اور اسرائیل اپنے دفاع میں فوجی حرکت کرتی جس سے مصر کو اپنا حملہ موخر کرنا پڑجاتا۔
دوسری جانب اسرائیلی فوج جو کہ مصر کی طرف سے ممکنہ حملے کی خاطر اپنے دفاعی اخراجات میں اضافہ کرتا رہا، یہ دیکھ کر حیران رہ جاتی کہ اشرف مروان کی اطلاع کے برعکس مصر کی جانب سے کوئی حملہ نہیں ہوتا نتیجہ یہ نکلا کہ انہیں اشرف مروان کی باتیں جھوٹ محسوس ہوئیں اور وہ اسے ایک دروغ گو سمجھنے لگے جبکہ اشرف انہیں پورا یقین دلانے کی کوشش کرتا رہا کہ وہ ایسا صرف امن کیلئے کر رہا ہے تاکہ دونوں جانب لوگوں کو جنگی تباہی سے بچایا جا سکے۔بہرحال اشرف مروان کی طرف سے دو دفعہ غلط اطلاع ملنے کے بعد اسرائیلی موساد نے اس سے رابطہ منقطع کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنے جاسوسوں کو خاص تنبیہہ کی کہ اشرف مروان کی طرف سے آئندہ ملنے والی کسی بھی اطلاع کو مصدقہ نہ مانا جائے۔
وہیں دوسری جانب اشرف کیلئے اپنی حکومت میں مسائل بننا شروع ہوئے جب مصر کی خفیہ تنظیم کو پتہ لگا کہ اشرف براہ راست اسرائیلی خفیہ تنظیم کے ساتھ رابطے میں ہے۔ اشرف کے گھر پر حملہ کرکے بیوی بچوں کو ہراساں کیا جانا شروع ہوا، اور اس حد تک حالات خراب ہوئے کہ انکی جان بچانے کیلیئے اشرف نے انہیں مصر سے باہر بھیج دیا۔اشرف کیلئے سب سے بڑی اذیت کا باعث یہ بات تھی کہ اسرائیلی خفیہ ادارے اب اس کی بات پر یقین نہیں کرتے اور شنید یہی تھا کہ مصر کی طرف سے کسی بھی جنگی حملے کی صورت میں اشرف اگر اسرائیلی اداروں کو پیشگی اطلاع کر بھی دیتا تو وہ اس کی بات کا بھروسہ نہ کرتے۔
نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ اسرائیل کو بھاری نقصان اٹھانا پڑتا اور وہ بدلے بھی مصر پر حملہ کرکے اس سے بھی زیادہ نقصان کرتا اور دونوں جانب ناقابل تلافی نقصان کا اندیشہ تھا،مگر اس کے باوجود اشرف نے کوشش ترک کرنے کے بجائے اسرائیلوں کا اعتماد دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس دفعہ اس نے اسرائیلی خفیہ تنظیم کے سربراہ کو بمعہ ثبوت یہ اطلاع دی کہ مصر ان پر حملے کی تیاری کر رہا ہے،- اسرائیلی خفیہ ادارے کے سربراہ نے نا چاہتے ہوئے بھی اشرف کی اطلاع پر بھروسہ کیا اور ایک بار پھر اپنی حکومت کو قائل کیا کہ وہ سرحدوں پر فوج بٹھا دیں، تاکہ مصر کی جانب سے حملے کی صورت میں دفاع کیا جاسکے۔
وہیں دوسری جانب اشرف نے صدر انور السادات کو راضی کیا کہ وہ اس رات ہر صورت اسرائیل پر حملہ کرے تاکہ اسرائیل سے صحرائے طور کو علاقہ واپس قبضہ کیا جا سکے۔ صدر سادات نے اس تجویز پر عمل کیا اور حملے کی تیاری شروع کردی اور بالآخر نتیجہ وہی نکلا جو اشرف مروان نے سوچا تھا، اسرائیل کی طرف سے حملے کا بھرپور دفاع کیا گیا اور جنگ میں دونوں جناب زیادہ تباہی نہیں ہوئی اور نتیجہ ایک امن معاہدے پر جاکر ختم ہوا جو کہ امریکہ کی ثالثی میں اسرائیلی اور مصری وزرائے اعظم کے درمیان طے پایا گیا۔
یہ اسرائیل اور مصر کے درمیان ہونے والا سب سے تاریخی اور پائیدار امن معاہدہ تھا جو کہ کم از کم بیس سال سے زیادہ عرصہ قائم رہا، اس امن معاہدے کے پیچھے اشرف مروان کے تاریخی کردار کو تسلیم کیا گیا اور اسے اسرائیل اور مصر کا مشترکہ ہیرو قرار دیا گیا۔ یہ تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا جس میں ایک ایجنٹ نے دو مختلف ملکوں کے خفیہ اداروں کو معلومات فراہم کرکے ایک بڑی جنگی تباہی سے بچا لیا۔ اشرف مروان کو یہ کردار نبھانے کے نتیجے میں Angel یعنی فرشتہ کا لقب دیا گیا۔اشرف مروان 27 جون 2007 کو لندن میں اپنے اپارٹمنٹ کی بلڈنگ کے نیچے مردہ حالت میں پایا گیا۔
ابتدائی رپورٹ کے مطابق اس کو بالکونی سے نیچے پھینکا گیا اور گردن کی ہڈی ٹوٹنے سے موت واقعہ ہوئی – اس کی موت آج تک معمہ بنی رہی جسے کوئی حل نہ کر پایا اور نہ ہی کسی تنظیم نے اس کی ذمہ داری قبول کی۔