|

وقتِ اشاعت :   July 2 – 2020

بچے،جن سے ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کا مستقبل جڑا ہوتا ہے ان کی تربیت اس انداز سے کرنا پڑتی ہے کہ وہ اچھے شہری کہلائیں -ایسی بہت سی مثالیں ہیں کہ ماں کی تربیت نے ان کو ایسا انسان بنایا جنہوں نے ملک اور اپنے خاندان کا نام روشن کیا، ٹاٹ پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے والے بڑے بڑے سرجن، سائنسدان، قانون دان اور انجنیئر بنے -ان کی کامیابی کے پیچھے ان کی ماں کی تربیت ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ وہ بچے، جن کو سائنسدان، انجنیئر یا ڈاکٹر بننا تھا وہ ڈاکو بن گئے -عورتوں کے پرس چھیننے لگے، اغوا برائے تاوان میں ملوث ہیں، بے دریغ قتل و غارت میں ملوث ہیں۔

پڑے لکھے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے علاوہ اچھی فیملی کے بچے یہ سب کام کر رہے ہیں،۔ایسا کیوں ہو رہا ہے، کیا ان کی تربیت میں کمی رہ گئی ہے؟کیا اب والدین کے پاس اپنے بچوں کی تربیت کے لئے وقت نہیں رہا؟ کیا یہ میڈیا کے برے اثرات ہیں؟ یہ حقیقت ہے کہ وقت کی تیز رفتاری نے انسانی زندگی کو متاثر کیا ہے مہنگائی دن بدن بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے روزمرہ کی ضروریات زندگی کی چیزیں فیملی کو مہیا کرنا اب فرد واحد کے بس کی بات نہیں آج کے والدین بچوں کی تربیت کرنے میں اس لیئے بھی ناکام ہیں کہ آج گھر گھر کیبل اور انٹرنیٹ ہے۔


اور آج کے بچے ان سب چیزوں کے ہوتے ہوئے کمپیوٹر اور ریموٹ کنٹرول بچے ہیں کیونکہ پلک جھپکتے ہی ہر چیز ان کے سامنے ہوتی ہے ان بچوں کی تربیت کے لئے آج کی ماں کو ان سے کہیں زیادہ علم و شعور ہونا چاہئے ان پڑھ ماں کبھی بھی آج کے بچے کے مسائل نہیں سمجھ سکتی -آج کا بچہ گھریلو، سیدھا سادہ اور معصوم بچہ نہیں ہے بلکہ وہ شعور اور آگہی سے مکمل ہے پرانی چیزوں کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا بلکہ نت نئی اچھی سے اچھی ایجادات اور حیران کر دینے والی چیزوں کو پسند کرتا ہے آج کے بچے کے معیارات بدل چکے ہیں اس کے مطالبات پہلے زمانے کے بچوں سے کہیں مختلف ہیں۔

ایسے میں اس کی تربیت کے لئے سکول اور گھر کا ماحول ایک جیسا ہونا ضروری ہے۔ہمارے آج کے والدین اس لیئے بھی شاید ناکام ہیں کہ وہ اپنے گھروں میں بچوں کو کچھ سکھاتے ہیں جبکہ سکولوں میں جا کر بچے کو سیکھنے کو کچھ اور ملتا ہے یہ شاید ہمارے دوہرے معیار کا ہی قصور ہے۔آج کی ماں کو خود بھی سمجھ نہیں آرہی کہ اسے بچے کو کیسے ایک سمت پر لانا ہے آج کے والدین اگر بچوں کی اچھی تربیت چاہ رہے ہیں تو انہیں چاہیئے کہ وہ سب سے پہلے بچے کے لئے تعین کیئے گئے دوہرے معیار کو ختم کر دیں۔
بلا وجہ ڈانٹ ڈپٹ اور روک ٹوک سے پرہیز کریں کیونکہ بلا وجہ کی ڈانٹ ڈپٹ بھی رویوں پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔

جس سے بچہ متاثر ہوتا ہے اور پھر وہ اپنے والدین کو زچ کرنے کے لئے بھی وہ کام جان بوجھ کر کرتا ہے جس سے اسے منع کیا جاتا ہے۔ہمارے ہاں ویسے بھی دو قسم کے والدین موجود ہیں ایک والدین وہ جو بچوں سے حد سے زیادہ پیار کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو بہت زیادہ ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں ایسے والدین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے جن کے بچوں کے رویوں میں توازن موجود ہے،آج کے والدین کو چاہیئے کہ وہ اچھی طرح سوچیں کہ بچے کی کیسے اور کس طرح تربیت کرنی چاہیے پھر ہو سکتا ہے کہ وہ بچوں کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے بہترین تربیت کر سکیں۔ کہا جاتا ہے کہ آپ کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ اور ادا کیا ہوا ہر عمل آپ کی تربیت کی عکاسی کرتا ہے۔

صرف تعلیم حاصل کر کے ہی کوئی ذی روح باشعور نہیں بن سکتا بلکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی اتنی ہی اہم ہے یعنی تعلیم و تربیت لازم و ملزوم ہیں جب تک علم و آگاہی کے ساتھ آپ کے پاس زندگی گزارنے کے اصول، ضابطے اور آداب نہیں ہونگے، صرف آگاہی کچھ نہیں کر سکتی بلکہ اس آگاہی اور علم کا زندگی پر اطلاق ہی اصل تربیت ہے اور یہ ماں کا کام ہے کہ بچپن سے ہی بچوں میں ایسے اطوار پیدا کرے کہ عملی زندگی میں ان کے کردار کی پختگی معاشرے میں ان کا وقار قائم کر سکے۔ بغیر تربیت کے علم کی مثال ایسی ہے جیسے کسی جسم سے روح نکال لی جائے تو پیچھے ڈھانچہ رہ جاتا ہے۔

ہم کسی بھی دور کی عظیم شخصیات مثلاً محمد بن قاسم، صلاح الدین ایوبی اور مولانا محمد علی جوہر،وغیرہ وغیرہ پر نظر ڈالیں تو ان کے پیچھے ان کی والدہ کی تربیت کا ہاتھ نظر آئے گا۔تاریخ واضح کرتی ہے کہ جب محمد بن قاسم ہندوستان کے علاقے فتح کرنے کے لیے نکلا تو اس کی ماں کے الفاظ تھے ”میں نے تجھے پیدا ہی اس لئے کیا تھا کہ تو اسلام کی راہ میں جہاد کرے اور ان علاقوں کو فتح کرے ” بلا شبہ اتنی کم عمری میں اس کی بلند پایہ فتوحات میں ماں کی تربیت کا بہت بڑا ہاتھ تھالیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آج کی ماں بچوں کی ویسی ہی تربیت کر رہی ہے اگر نہیں تو اس ناکامی کی کیا وجوہات ہیں؟

یہ درست ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زمانے کی اقدار بدل گئی ہیں لیکن انسان تو وہی ہے زمانہ بہت تیز ہو گیا ہے وقت کی کمی کے باعث زندگی مصروف ترین ہو گئی ہے ماؤں کی تربیت میں بنیادی وجہ جاب کرنے والی ماؤں کے پاس وقت کی کمی ہے۔نینٹ کلچر نے بچوں کو ماؤں سے دور کر دیا ہے اب بچہ جو سیکھتا ہے ٹی وی اور میڈیا سے ہی سیکھتا ہے بچوں کے پروگرام، کارٹون نیٹ ورک پر چلنے والی کہانیوں نے بچوں کو بہت ایڈوانس کر دیا ہے اب بچوں کو داستان الف لیلیٰ کے زمانے گزر گئے ہیں اور اگر کہا جائے کہ سمجھداری کے معاملے میں بچے پری میچور ہو گئے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔

کیونکہ بچے کیبل پرصرف کارٹون نیٹ ورک ہی نہیں دیکھتے بلکہ انگلش اور انڈین موویز دیکھنے کی بھی کمی نہیں۔بہت کم ہیں جو اسلامک چینل، قرآن پاک اور معلوماتی چینلز دیکھتے ہیں ان الیکٹرانک چینلز سے ہر قسم کی معلومات اور تفریح پیش کی جاتی ہے وہ یہ محسوس نہیں کرتے کہ یہ بچوں نے دیکھنا ہے اور یہ بڑوں نے، بلکہ یہ ماؤں کا کام ہے کہ وہ بچوں کے لیئے اچھے برے کی تمیز پیدا کریں لیکن ماؤں کے پاس تو وقت ہی نہیں!جب ماں کی گود کی جگہ ٹی وی چینلز لے لیں تو ماں کا تربیت میں کیا کردار۔۔۔۔۔۔۔