نول کوویڈ 19کے پیش نظر ملک بھر میں معمولات زندگی، کاروبار سمیت درس و تدریس کا عمل بھی معطل ہے۔ ملک میں جاری کئی مکمل اور جزوی لاک ڈاؤن کے پیش نظر دیگر شعبوں کی طرح شعبہ تعلیم بھی شدید متاثر ہوا ہے۔ طلبا و طالبات کے تعلیمی سال کے ضیاع کو مد نظر رکھ کر ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان (ایچ ای سی) نے اپنے تمام ماتحت جامعات کو آن لائن کلاسز شروع کرانے کا حکم صادر کیا۔ اسی طرح ایچ سی کا یہ حکم اپنے ماتحت بلوچستان کی یونیورسیٹز پہ بھی لاگو ہوتا ہے۔ جب سے تمام جامعات نے ایچ ای سی کے فیصلے پر عمل درآمد کرانے کی شروعات کی تو ملک بھرمیں طلباء و طالبات کے تحفظات سامنے آنا شروع ہوگئے۔ اسی طرح صوبہ بلوچستان کے طلبا و طالبات نے متعلقہ ادارے کی اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے سراپا احتجاج ہوئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان آبادی کے
لحاظ سے سب سے چھوڑا اور رقبے کے لحاظ ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور پسماندگی و مظلومیت کی ہر نشانی یہاں مل جاتی ہے۔ اس وقت بلوچستان کے مواصلاتی نظام کا یہ عالم ہے کہ ما سوائے کوئٹہ اور چند دیگر شہروں کے انٹرنیٹ دور کی بات ہے معیاری موبائل سروسز نہیں ہے۔ اس وقت بلوچستان کے سب سے بڑے اضلاح میں شامل تربت کیچ، گوادر، پنجگور، آواران سمیٹ کئی اضلاع میں کئی سالوں سے انٹرنیٹ موبائل تھری جی اور فور جی منقطع ہے۔ اسی طرح بلوچستان کا دوسرا بڑا ڈسٹرکٹ تربت کیچ بھی پسماندہ ترین صفوں میں شامل ہے۔
دس لاکھ سے زائدآبادی والا ضلع نا صرف انٹرنیٹ بلکہ بجلی و دیگر مواصلاتی سہولیات سے بھی محروم ہے۔ اگر آن لائن کلاسز کے حوالے سے ملک میں بھر کے پسماندہ علاقوں کے طلبا و طالبات اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے دوسری جانب ا س وقت تربت سے تعلق رکھے والے 700 سے زائد طلبا و طالبات بلوچستان سمیت ملک بھر کے چھوٹے بڑے جامعات میں زیرتعلیم ہیں۔کرونا وبا کی وجہ سے وہ اپنے علاقوں میں ہیں اور دوسری جانب ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے آن لائن کلاسز کے اجرا کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔
اس بارے میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا موقف: اسلام آباد میں ہائرایجوکیشن کے ترجمان طارق بونیری کے مطابق آن لائن کلاسز تک رسائی نہ ہونے کی وجوہات جو بھی ہوں ہائر ایجوکیشن کمیشن یونیورسٹیوں سے یہ چاہتا ہے کہ وہ متبادل ذرائع اختیار کریں۔یہ متبال ذرائع میل، کوریئر سروس، واٹس ایپ، ٹیکسٹ یا کوئی شراکت دار ادارے مثلاً کالجز وغیرہ ہو سکتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ہائر ایجوکیشن کا بڑا مقصد معیاری تعلیم کو یقینی بنانا اور فروغ دینا ہے اور کورونا وائرس کے بحران کے دوران آن لائن کلاسز کے ذریعے طالب علموں کے سمیسٹرز کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرنا ہے۔
اس سلسلے میں گزشتہ دنوں تربت میں وہ طلبا و طالبات جو کہ ملک کے مختلف یونیورسٹیز میں زیر تعلیم ہیں انٹرنیٹ کی بندش اور بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ کی وجہ اپنی کلاسز جاری نہیں رکھ سکیں گے،کے خلاف تربت میں ایک ریلی نکالی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ ایچ ای سی آن لائن کلاسز کے اجرا سے قبل متعلقہ اداروں کو پابند کرے کہ جہاں انٹرنیٹ سروسز منقطع ہے پوری طرح بحال کی جائے۔ (واضع رہے آج سے کچھ عرصہ قبل تربت کے تمام گاؤں میں 3جی،4جی موبائل انٹرنیٹ سروسز بحال تھی 2015 کے اواخر میں منقطع کر دی گئی) اس بارے میں متعلقہ حکام کا کہنا ہے کہ سیکوریٹی کے پیش نظر موبائل انٹرنیٹ سروسز کو بند کردیا گیا ہے۔ آج پانچ سال ہوگئے ہیں کہ اس جدید دور میں تربت انٹرنیٹ،اور بجلی جیسی بنیادی انسانی ضرورت سے محروم ہے۔
انٹرنیٹ کی بندش اور اسٹوڈنٹس کے مشکلات و مسائل کے حوالے سے میں تربت کیچ کے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والے۔ ایم،فل اسکالر سے اس حوالے سے بات کی تو انکا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا گلوبل ولیج ہے مگر ہمارے پسماندہ علاقوں کے لیے آن لائن کلاسز بالکل نئی چیز ہے کیونکہ ہم ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں ہمیں اپنے دوستوں سے رابطہ کرنے کے لیے موبائل سنگنلز کا یہ عالم ہے کہ ہمیں ایک میسج بھیجنے کے لئے یا تو کسی چڑھائی پہ چڑنا پڑتا ہے یا گھروں کے چھتوں پہ، موبائل 3 جی 4 جی دور کی بات ہے۔
اللہ نہ کرے کہ آن لائن کلاسز کی آڑ میں موبائل سنگنلز کے متلاشی نیٹ ورک کے لیے پہاڑیوں کا رْخ کرتے ہیں انہیں کل پھر یہی سزا نہ ملے کہ آپ پہاڑوں میں دہشت گردی کرنے یا کرانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اس بارے میں پارلیمنٹیرین کا کردار: گزشتہ دنوں نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک سینیٹر میر کبیر محمد شہی کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے مختلف اضلاع میں موبائل انٹرنیٹ کی بندش کے سلسلے میں چیئرمین سنیٹ میر صادق سنجرانی کو درخواست دی ہے جس میں 7 اضلاع شامل ہیں، تاہم اسکے مثبت جواب کا انتظار ہے۔ اس ضمن میں اپریل کے مہینے میں وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بلوچستان کے مختلف اضلاع میں جدید برانڈ بینڈ کی منظوری تو دے دی مگر اس ابھی کوئی خاص پیش رفت نظر نہیں آرہی۔
حکومت بلوچستان کا موقف: حکومت بلوچستان کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے گزشتہ روز بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بمشکل 30 سے 35 فیصد علاقے میں انٹرنیٹ کی سہولت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’جب انٹرنیٹ نہیں ہو گا تو پھر آن لائن کلاسز کے حوالے سے مشکلات ہوں گی،صرف انٹرنیٹ کی ضرورت نہیں ہو گی بلکہ اس کے لیے لیپ ٹاپ اور دیگر ضروری ڈیوائسز کی بھی ضرورت ہو گی اور جن طلبہ کے پاس وسائل ہوں گے وہ تو یہ لے سکتے ہیں لیکن جو غریب ہیں وہ یہ ڈیوائسز کہاں سے لائیں گے۔‘ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے دوردراز علاقوں میں لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے بجلی کے مسائل بھی ہیں۔لیاقت شاہوانی نے کہا کہ بلوچستان میں طلبا کے جو مسائل ہیں حکومت بلوچستان ان کا جائزہ لے رہی ہے ہم کوشش کررہے ہیں کہ ان کا کوئی بہتر حل نکلے۔