|

وقتِ اشاعت :   September 30 – 2014

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے لاہور میں طاقت کا کامیاب مظاہرہ کرنے کے بعد حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ-ن پر کارکنوں کا دباؤ ہے کہ حریفوں کو جواب دینے کے لئے سینٹرل ورکنگ کمیٹی ( سی ڈبلیو سی) کا اجلاس طلب کیا جائے۔ خیال رہے کہ سی ڈبلیو سی کا آخری اجلاس گزشتہ سال عام انتخابات سے پہلے ہوا اور اس میں پارٹی امید واروں کو الیکشن ٹکٹ دیے گئے تھے۔ ن -لیگ کے ایک عہدے دار نے ڈان کو بتایا کہ پی ٹی آئی کی جاندار مہم کی وجہ سے حکمران جماعت میں اکثریت کا خیال ہے کہ موجودہ صورتحال سے نمٹنے کے لئے اب انہیں ‘سیاسی حکمت عملی’ ترتیب دینا چاہیئے۔ ان کا مزید کہنا تھا: پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے احتجاج کے خلاف پارلیمانی پارٹیاں ہمارے ساتھ کھڑی ہیں جو حوصلہ افزاء ہے۔ لیکن، وقت آ گیا ہے کہ اب پارٹی خود صورتحال سے نمٹے، ورنہ کہیں دیر نہ ہو جائے۔ انہوں نے بتایا کہ پارٹی کے کچھ رہنما نواز شریف کو راغب کر رہے ہیں کہ سی ڈبلیو سی کا اجلاس طلب نہ کیا جائے۔ وزیر اطلاعات اور وزیر اعظم کے ترجمان پرویز رشید نے ڈان سے گفتگو میں بتایا کہ سی ڈبلیو سی کا مقصد پارٹی پالیسیاں ترتیب دینا ہے۔ ‘عوام کا مینڈیٹ ملنے اور حکومت بنانے کے بعد ہماری پوری توجہ قوم کو درپیش مسائل کے حل پر مرکوز ہے’۔ رشید کے مطابق وہ جان بوجھ کر سی ڈبلیو سی کا اجلاس طلب نہیں کر رہے تاکہ سرکاری امور پر پارٹی کا اثر کم سے کم رہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے دو ٹوک موقف اپنایا ہے کہ پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لئے پارلیمنٹ ہی واحد فورم ہے۔ تاہم، دوسرے پارٹی رہنما وزیر اطلاعات کے موقف کی تائید نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ ن -لیگ خود سے پی ٹی آئی کی بتدریج بڑھتی ہوئی مہم کا جواب دے۔ پی ایم ایل -نواز کے ایک پارلیمنٹیرین نے کہا کہ وہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخر پارٹی قیادت کیوں سی ڈبلیو سی کا اجلاس بلانے میں ہچکچاہٹ دکھا رہی ہے ۔ انہوں نے وزیر اعظم کی دوسری سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے مسلسل ملاقاتوں اور اپنے کارکنوں کو نظر انداز کئے جانے پر جنجلاہٹ دکھائی۔ یہ پارلیمنٹیرین جو سی ڈبلیو سی کے رکن بھی ہیں ، کہتے ہیں کہ انہوں نے کئی مرتبہ وزیر اعظم اور دوسرے سینئر رہنماؤں پرزور دیا کہ سی ڈبلیو سی کا اجلاس بلا کر ممبران کو اعتماد میں لیا جائے۔ مشرف دور میں شریف برادران کے وفادار رہنے والے ان پارلیمنٹیرین نے تسلیم کیا کہ لاتعلقی پر مبنی اسی رویہ کی وجہ سے 1999 میں مارشل لاء کے بعد پارٹی اپنی حمایت کھو بیٹھی تھی۔ ‘شریف برادران اپنی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھ رہے’۔ ادھر، ایک سیاسی مبصر کا کہنا ہے کہ من پسند افراد کے ذریعے حکومت اور پارٹی امور چلانا ن- لیگ کا ٹریڈ مارک ہے، تاہم اب وقت آ گیا ہے کہ حریفوں کا مقابلہ کرنے کے لئے شریف برادران پارٹی کو متحد کریں۔