|

وقتِ اشاعت :   July 4 – 2020

تحریر:ڈاکٹر فضل ودود
ایک ادنیٰ صاحب عقل آدمی بھی امن کی اہمیت کو تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔امن ہو تو معاشرے کا پہیہ چلے گا اور ہر باصلاحیت فرد کو اپنی قابلیت کے مطابق آگے بڑھنے کا موقع ملے گا۔دنیا آہستہ آہستہ گلوبلائزیشن کی طرف رواں دواں ہے اور ہر معاشرہ کثیر الثقافتی معاشرہ بنتی جارہی ہے۔اس لئے امن کو قائم رکھنا اورپر امن زندگی کا ماحول بنانا نہایت ضروری ہے اس لئے جہاں خوف وہراس کی فضا ہے وہاں پر انسانی عمل رک چکاہے۔لوگ گھروں تک محصورہیں اور ترقی کا پہیہ بالکل جام ہے۔اس کا اندازہ عصر حاضر کے شورش زدہ علاقوں پر نظریں جمانے سے لگتاہے۔امن عامہ ہر شخص کا قانونی حق ہے اس میں کوئی بھی رکاوٹیں کھڑی کرتاہے تو معاشرے کا بڑا ظالم کہلائے گا۔جان اور مال اور آبرو اور اسی طرح عقل کی حفاظت کے لئے ضروری ہے کہ معاشرہ میں امن ہو۔آج کل دنیا میں نظریات کی جنگیں لڑی جارہی ہیں مخالف نظریہ والوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی ہر قسم کوششیں کی جاتی ہیں۔کیا نظریہ کا اختلاف بالکل ناقابل برداشت چیز ہے؟ اسلام مذہب کے معاملہ میں جبر اور زبردستی کا بالکل قائل نہیں اگر پیغمبر اسلام ﷺ کا منشا اسلام کو تھوپنا ہوتا تو نہ مدینے میں کوئی یہودی باقی ہوتا اور نہ فتح مکہ کے بعد مکہ میں کوئی مشرک،اسلام کی آمد سے پہلے یہ مزاج اور قانون تھا کہ سلطنت کا جو مذہب ہوتا تمام لوگ اسی مذہب کو قبول کرتے اور اس پر عمل کرنے کے پابند ہوتے،اسی لئے روم میں کوئی مشرک اقلیت نہ تھی،نہ ایران میں اہل کتاب کا کوئی گروہ تھا۔یہ بہت تنگ نظری تھی۔اسلام کی وسیع النظری کی وجہ سے یہ فکر عام ہوئی کہ لوگوں کو کسی خاص مذہب کے قبول کرنے پر مجبور نہ کیاجائے،اسلام نے باضابطہ غیر مسلم اقلیت کے قوانین وضع کئے،ان کے حقوق وواجبات کو قانونی شکل دی اور ان پر ہونے والی زیادتیوں کے سد باب کی۔امن عامہ کے اس اہم اصول کو اگر نظر انداز کیاجائے اور ہر مخالف کو قتل یا پابند سلاسل کیاجائے تو پتہ نہیں کہ عالمی امن کبھی قائم ہوگا یا نہیں۔امن عامہ کو برقرار رکھنے کے لئے طاقت اور اخلاق میں توازن بہت ضروری ہے۔طاقت ہو مگر اس کے ساتھ اخلاق نہ ہو تو ایسی طاقت سے دنیا میں ہمیشہ شر وفساد پھیلے گا۔تباہی و بربادی ہی مقدر رہے گی۔طاقتور سٹیٹ اگر کمزور ملک پر حملہ آور ہوتاہے اور اس کے قدرتی وسائل پر قبضہ جماتاہے تو یہ اس بات کی غمازی ہے کہ اب ایک نئی جنگ چھڑجائے گی جو ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہوگا۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ آج کل بہت سے طاقتور ممالک جو طاقت کے نشے میں سرشار ہیں، نے کمزور ممالک پر حملہ کرکے ان کی اینٹ سے اینٹ بجادی ہے۔اس کی مثالیں تو بہت ہیں،مگر ایک مثال افغانستان پر امریکی یلغار کی ہے۔ بین الاقوامی قانون کے ماہر اور پروفیسر،ڈاکٹر مشتاق احمد صاحب نے اپنی کتاب مزاحمت اور بغاوت میں اس بات کو مضبوط دلائل سے ثابت کیا ہے کہ افغانستان پر امریکی یلغار بالکل غیر اخلاقی،غیرآئینی، اور غیر شرعی ہے۔اسی طرح اور بھی بہت سی مثالیں ہیں جنہیں پڑھ کر اندازہ ہوتاہے کہ طاقتور کا کمزور پر حملہ آور ہونا امن عامہ کے لئے کتنا تباہ کن اور غارت گر ہے۔
قوانین بنتی ہیں اچھی بات ہے مگر اصل بات قانون کی بالادستی کی ہے اور اس سے بڑھ کر اصل چیز یہ ہے کہ قانون کی نظرمیں سب برابر ہوں، اس کی اطلاق میں یکسانیت ہو۔ ایسا نہ ہو کہ قانون مکڑے کا وہ جالا ہو جس میں کیڑے مکوڑے پھنس جاتے ہوں اور بڑے جانوراس کو پھاڑ کرنکل جاتے ہوں۔ معاشرہ کی فلاح وبہبود،اس کی ترقی اس کے قیام ودوام کا راز انصاف اور مساوات میں ہے جہاں پر مظلوم ومقہورلوگ ایک معمولی حق کے حصول کے لئے ٹھوکریں کھارہے ہوں، جہاں پر انسانی خون کی کوئی قدرقیمت نہ ہو جہاں پر امیرلوگوں کا اپنا ایک ٹھاٹ باٹ ہو جہاں ذات پات کی بنیادپر اونچ نیچ ہو جہاں پر قانون کی زور پر کوئی حق نہیں لے سکتا تو ایسے حالات میں اگر امن عامہ کو گزند نہ پہنچے تو کب پہنچے گا۔
ہرسال یکم مئی کو یوم مزدور منایاجاتاہے۔مزدوروں کو حقوق دینے بارے میں بڑے بڑے تقاریر ہوتے ہیں۔کانفرسیں اور سیمینار منعقد کئے جاتے ہیں یہ چیزیں تو اپنی جگہ ٹھیک ہیں مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا
ہے کہ عملًا مزدوروں کو ان کا حق کاغذپر تو دیاگیا ہے مگر زمین پر نہیں۔اس میں شک نہیں ہے کہ مزدوروں کا مسئلہ ان مسائل میں سے ہے جس کو گزشتہ نصف صدی کے اہم ترین مسائل میں شمار کیاجاتاہے یہ اس لئے کہ دنیا کی ساری بہار دراصل ان ہی کے دم سے ہے،بلند قامت عمارتیں،صاف ستھری سڑکیں یا دیہات کے سبزہ زار کھیت اور بل کھاتی ہوئی نہریں،سب کو ان کے خون پسینے اور قوت بازو سے غذا ملتی ہے۔ یہ بھی عجیب ستم ظریفی ہے کہ معاشی ترقی اور خوشحالی میں سب سے کم حصہ مزدوروں ہی کو ملتاہے۔مزدوروں کے حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں ان سے بوقت خدمت کوئی تحریری معاہدہ نہیں ہوتا،ان سے مقررہ ٹائم کے علاوہ بھی زیادہ کام لیا جاتاہے،کوئی مزدور عورت حاملہ نظر آئے یا کسی مریض کو رخصت لینے کی ضرورت ہوتو بجائے رخصت اس کو ملازمت سے برخواست کیاجاتاہے مگر چھٹی نہیں ملتی۔اگر کسی فیکٹری میں آگ لگ جاتی ہے توانتظامیہ کو مزدوروں کو بچانے کے بجائے اپنا مال پہلے محفوظ کرنے کی فکر ہوتی ہے۔ایسے اہم طبقے کو نظر انداز کرنا بے شک بہت ناانصافی ہے۔اور مسلسل نظر انداز کرنا اور پھر ایسا ماحول پیدا کرنا جس میں ان کی حوصلہ شکنی ہوتی ہوجس سے زندگی ان کے لئے اجیرن بن جائے، بے شک بہت ناانصافی ہوگی اور ظلم کی انتہا ہوگی جس کیساتھ معاشرہ کبھی نہیں چلے گا۔آج کے دور میں ہڑتالیں اور جلوس کو اپنے حقوق لینے کے لئے بطور ایک ذریعہ استعمال کیا جاتاہے۔ہڑتالیں اور جلوس اگر پر امن ہوں اور جمہوری اقدار کا پاس رکھتے ہوئے کئے جاتے ہوں تو حصول حق میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں مگر عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ ہڑتالوں جلوسوں کی ابتدا ء بہت معصومانہ ہوتاہے مگر انتہاء کو پہنچ کر ایک ظالمانہ روپ اختیار کرلیتے ہیں۔سڑکیں سنساں رہتی ہیں،اہم شاہراہیں اور مارکیٹیں بند ہوتی ہیں۔مظاہرین اشتعال میں آکر شدید فائرنگ میں بھی کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔بندوق کی نوک پر بدمعاشی رقص کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔امن کی زندگی گزارنی ہو تو اس کے لئے دوسروں کو امن دینا ضروری ہوتا ہے اور خاص کر حقوق جیسے اہم موضوع کو ٹاپ پر رکھنا ہوگا ورنہ جیسا کروگے ویسا بھرو گے کے مصداق کے لئے چوکس ہونا پڑے گا۔bold.brave1@gmail.com