پولیو ایک ایسی بیماری ہے جو بچوں میں عمر بھر کی معذوری پیدا کرتی ہے اس کا کوئی علاج نہیں مگر حفظ ما تقدم کے طور پر پولیو کے قطرے پلا کر ہم اپنے بچوں کو اس موذی مرض سے نجات دلا سکتے ہیں اس کے علاوہ بچوں میں پیدا ہونے والی 9 دیگر بیماریاں بھی ہیں جو بچوں کی شرح اموات میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں، بچوں کا ان بیماریوں سے تحفظ اس وقت یقینی بنائی جا سکتی ہے جب ان بیماریوں کے خلاف انکی ویکسسینیشن ہوگی- بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اب بھی پولیو اور خسرہ جیسی بیماریاں دندناتے پھر رہی ہیں جہاں باقی دنیا نے ان بیماریوں پر قابو پا لیا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے علاوہ باقی تمام دنیا بشمول اسلامی ممالک نے اپنے علاقوں سے پولیو وائرس کا خاتمہ کر دیا ہے۔ ہمارے ہمسایہ ممالک ایران، انڈیا اور چائنا پولیو فری ہیں۔ ایک وقت تھا جب دنیا میں لاکھوں کے حساب سے بچے پولیو کی وجہ سے معذور ہوتے تھے لیکن موثر پولیو مہم چلانے کے بعد اب پولیو کیسز کی تعداد میں واضح کمی آگئی ہے 2018 میں پولیو کے صرف 33 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں 21 افغانستان اور 12 کیسز پاکستان سے تھے۔گزشتہ ماہ جون میں ضلع چاغی کے شہر دالبندین میں 10 ماہ کے بچے میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوگئی۔ اس سے پہلے 2014 میں ضلع چاغی کا سرحدی گاؤں براب چہ میں پولیو کا ایک کیس رپورٹ ہوا تھا۔ تادم تحریر بلوچستان میں رواں سال پولیو کیسز کی تعداد 14 ہے۔
جبکہ پاکستان میں ٹوٹل 54 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔پولیو کے تناظر میں ضلع چاغی ہمیشہ سے خطرے میں ہے، افغانستان کیساتھ اس کے طویل بارڈر ملتے ہیں جہاں روزانہ کراس بارڈر آمدورفت ہوتی ہے افغان مہاجرین کی اچھی خاصی تعداد چاغی میں پچھلے چار دہائیوں سے موجود ہے جو وقتاً فوقتاً افغانستان آتے جاتے ہیں افغانستان میں پولیو وائرس کی موجودگی اور کراس بارڈر موومنٹ کی وجہ سے افغانستان سے ضلع چاغی میں پولیو وائرس کی منتقلی خارج از امکان نہیں۔اس کے علاوہ انٹرنیشنل روٹ پہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کے مختلف حصوں سے لوگ اسی ضلع سے ہوکہ ایران جاتے ہیں۔
شیعہ زائرین کی بڑی تعداد یہیں سے گزرتی ہے جو دوران سفر ضلع کے مختلف مقامات پر مختصر قیام بھی کرتے ہیں اور انسانی سمگلنگ کیلئے یہ ضلع ایک گزرگاہ کے طور پربھی استعمال ہوتا ہے اتنی زیادہ متحرک آبادی کی موجودگی سے یہ ضلع ریڈ زون بن چکا ہے۔پولیو پروگرام کے حاصل شدہ ڈیٹا کے مطابق متحرک آبادی زیادہ تر پولیو وائرس کی منتقلی اور پھیلاؤ کا باعث بن رہی ہے۔موجودہ پولیو کیس کے آنے کے بعد ضلع چاغی کے لیے خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے پولیو وائرس کی موجودگی انتہائی سنگین حالات کی طرف اشارہ کر رہی ہے ضلع چاغی کے شہری، والدین ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر پولیو مہم میں اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلائیں تاکہ پولیو وائرس کے مزید پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے سال گزرنے کے باجود پولیو وائرس کیوں ختم نہیں ہو رہا؟ ہمارے معاشرے میں بہت بڑی تعداد میں اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکاری ہیں جو پولیو کی بیماری کے مزید پھیلاؤ کی وجہ بن رہی ہے۔ دالبندین میں پولیو سے متاثرہ بچے کی فیملی کے مطابق انہوں نے بچے کو چھپایا جب بھی پولیو کی ٹیموں نے گھر کا وزٹ کیا۔ مذہبی اثرورسوخ کی وجہ سے فیملی پولیو کے قطروں کی افادیت سے انکاری تھے جو بچے کی معذوری کی بنیادی وجہ بنی۔ پاکستان میں ایسے سینکڑوں خاندان ہیں جو پروپیگنڈا اور افواہوں کا شکار ہوکر اپنے بچوں کو ہمیشہ کی معذوری کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔
ایسے بچوں کی معذوری کے ذمہ دار وہ لوگ بھی ہیں جو محدود علم کی یوجہ سے پولیو ویکسینیشن کی مخالفت کرتے ہیں اور ساتھ ہی وہ خاندان بھی اس گناہ میں برابر کے شریک ہیں جو بغیر تحقیق کے آنکھیں بند کرکے ایسے لوگوں کی باتوں پر عمل کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتے ہیں جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا اور جس نے ایک انسان کا قتل کیا اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا۔ ہم اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلا کر انہیں عمر بھر کی معذوری اور موت سے بچا رہے ہیں اور اگر ہم اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلائیں گے تو ان کی عمر بھر کی معذوری اور غیر ارادی طور پر ان کے قتل کا مرتکب ہونگے اور اس طرح گویا ہم پوری انسانیت کے قاتل قرار پائیں گے۔
ہمارے معاشرے سے پولیو وائرس ختم نہ ہونے کی وجہ پولیو کے خلاف منفی تاثر ہے جو ہمارے ازہان میں ٹھونس دی گئی ہے اور اس معاملے میں سوشل میڈیا اور دیگر فورمز کا غلط استعمال کیا گیا۔ پولیو کو مسلمانوں کے خلاف سازش قرار دیا گیا اور دعویٰ کیا گیا کہ پولیو کی ویکسین میں سور کی چربی شامل ہے یہ بھی کہا گیا اس سے تولیدی نظام متاثر ہوتا ہے اور اسے مسلمانوں کی آبادی کنٹرول کرنے سے جوڑا گیا۔ پاکستان میں 1994 سے پولیو کے خلاف قومی مہم شروع ہے جو اب بھی جاری ہے 1998 کی مردم شماری اور 2017 کی مردم شماری کے ڈیٹا کا موازنہ کریں۔
تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ان 20 سالوں کے دوران پاکستان کی آبادی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے جو اس پروپیگنڈے کی نفی کرتی ہے کہ پولیو کے قطروں سے تولیدی نظام متاثر ہوتا ہے۔ اس طرح کے پروپیگنڈا جن میں ذرہ بھر حقیقت نہیں کے نتیجے میں والدین اپنے بچوں کو پولیو پلانے سے انکار کرتے ہیں اور نتیجتاً ان خاندانوں کو بچوں کی معذوری کی صورت میں عمر بھر کی تکلیف اور پشیمانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک عام بندہ یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ کونسی چیز حلال ہے کونسی حرام، ہمارا مذہب اسلام نے اس چیز کا اختیار علماء کرام کو دیا ہے۔
جو وسیع علم رکھتے ہیں اور جو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کسی بھی معاملے کی تہہ میں جاکے کوئی فیصلہ کرتے ہیں۔ پولیو کے قطرے محفوظ اور حلال ہیں پاکستان سمیت سعودی عرب، انڈیا، افغانستان اور دنیا بھر کے کئی مستند مفتی اور جید علماء کرام نے پولیو کے قطروں کے حلال ہونے کا فتویٰ جاری کیا ہے اور عوام کو پیغام دیا ہے کہ بچوں کو پولیو کے قطرے پلانا غیر شرعی نہیں بلکہ عین اسلامی اصولوں کے مطابق ہے۔ پولیو ویکسسینیشن کی افادیت کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں جب پاکستان میں 26 سال قبل باقاعدہ پولیو کے خلاف قومی مہم کا آغاز ہوا تو سالانہ ہزاروں پولیو کیسز رپورٹ ہوتے تھے۔
لیکن کئی سالوں کی جدوجہد اور کامیاب پولیو مہم کی وجہ سے 2018 میں صرف 12 کیسز رپورٹ ہوئے تھے جوکہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ بدقسمتی سے2019 میں پولیو کیسز کی تعداد میں ایک مرتبہ پھر تیزی آگئی اور 147 کیسز رپورٹ ہوئے اسی طرح 2020 میں کرونا وائرس کے پیش نظر پولیو مہم تعطل کا شکار ہوا اور اب تک 54 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جوکہ تشویشناک بات ہے۔ موجودہ حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ کمیونٹی کے اندر پولیو کے خلاف شکوک و شبہات ختم کرنے کیلئے سول سوسائٹی، علماء کرام اور سیاسی لیڈران کردار ادا کریں۔
لوگوں کو پولیو کے متعلق آگاہی دیں اور انہیں اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کیلئے قائل کریں جس طرح کچھ لوگ پولیو کے خلاف سازشوں کا حصہ بن کر بچوں میں عمر بھر کی معذوری پیدا کرنے کی گناہ کا مرتکب ہورہے ہیں اسی طرح معاشرے کا باشعور طبقہ اگر خاموشی اختیار کرے گا تو اس گناہ میں برابر کا شریک ہوگا۔لہذا یہ ہم پر فرض ہے کہ ہم بھی اپنے حصے کی شمع جلائیں اپنے گھر کے افراد خصوصاً خواتین کو آگاہی دیں تاکہ وہ پولیو کے خلاف سازشوں کا آسانی سے شکار نہ ہوں۔افواہوں پہ کان نہ دھریں اور سوشل میڈیا پہ پھیلائی گئی پروپیگنڈوں کا حصہ نہ بنیں۔ہمیں چاہئے پولیو کے خلاف حکومت اور عالمی اداروں کا بھرپور ساتھ دیں اور پولیو کے خلاف مشن کو کامیابی سے ہمکنار کریں۔