|

وقتِ اشاعت :   July 9 – 2020

بلوچستان میں ملک کے دیگر علاقوں سے زائد غربت ہے اور اس کے چالیس فیصد افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ حکومتی عدم توجہی اور غربت کے شکار عوام جدید ترین طبی و دیگر سہولیات سے اب تک مکمل ناآشنا ہیں یا یوں کہیں کہ بلوچستان کے شہری ملک کے دیگر صوبوں کے عوام کی نسبت ترقیاتی عمل اور جدید سہولیات سے اب تک نہ تو مستفید ہو رہے ہیں اور نہ ہی ایسی سہولیات کی فراہمی کیلئے صوبائی حکومت نے سنجیدہ اقدامات کئے ہیں۔ بلوچستان ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں کے مکین صرف اللہ ہی کے توکل پر زندگی کے شب و روز گزارنے میں مصروف ہیں۔

کیونکہ وہ آج تک اکیسویں صدی کے جدید ترقیاتی دور میں داخل ہی نہیں ہو سکے ہیں جدید سہولیات کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پورے صوبے کے ستر فیصد علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں یا سیکورٹی وجوہات کی بنا پر بند کر دی گئی ہے جبکہ غربت کے باعث بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ جدید فور جی موبائل سوائے بیس فیصد کے باقی ان کا استعمال کرنا تک نہیں جانتے۔ صوبہ بھر میں بچے آن لائن ایجوکیشن کے نام نہاد کلاسز کے خاتمے کیلئے احتجاج کر رہے ہیں جبکہ وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان عالیانی نے خود اپنے ایک اخباری بیان میں تسلیم کیا ہے کہ صوبے کے اکثر علاقوں میں انٹرنیٹ بند کر دی گئی ہے۔

لیکن اس کے باوجود وفاقی حکومت، ہائیر ایجوکیشن, صوبائی وزیر تعلیم صوبے میں آن لائن تعلیم کے حق میں ہیں۔ بلوچستان میں گزشتہ دنوں ایک رپورٹ شائع ہوئی کہ صوبے بھر میں 32 سو سے زائد گھوسٹ اسکول ہیں یقینا ان گھوسٹ سکولوں میں گھوسٹ اساتذہ بھی ہونگے آپ بلوچستان میں معیاری تعلیم کا اندازہ اس رپورٹ سے لگاسکتے ہیں کہ کیا اس طرح کے گھوسٹ تعلیمی نظام میں آن لائن تعلیمی عمل یا درس وتدریس ممکن ہے، کیا آن لائن تعلیم کے حوالے سے بلوچستان کے اساتذہ ٹرینڈ ہیں؟ کیا ان اساتذہ یا تعلیمی اداروں میں جدید کمپیوٹرائزڈ لیب موجود ہیں ان سوالوں کا جواب کسی بھی حکومتی وزیر کے پاس نہ ہوگا۔

تاہم جدید دور سے ہم آہنگ ہونے کا ایک رٹا رٹایا نعرہ ضرور لگایا جا رہا ہے بلوچستان کے موجودہ بجٹ میں صوبائی حکومت نے دو ارب پچاس کروڑ روپے کی خطیر لاگت سے ائیر ایمبولینس خریدنے کیلئے بجٹ میں رقم مختص کی ہے۔قربان جاؤں صوبائی حکومت کے ان لائق فائق حکمرانوں پر کہ ائیر ایمبولینس عوام کیلئے قابل استعمال ہوگا یا پھر حسب سابق حکمران طبقات اسے استعمال کرکے اپنی زندگی بچانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ صوبے کے تمام اضلاع کے ہسپتالوں میں بہترین ایمبولینس تک میسر نہیں اگر ایک دو ایمبولینس ہیں ان کی حالت بھی تباہ ہے۔

کیا ان ڈھائی ارب روپے کی خطیر رقم سے بلوچستان کے ان ضلعی ہسپتالوں میں ایمبولینسز کا بندوبست نہیں کیا جا سکتا تھا جبکہ سابقہ ادوار میں کوئٹہ کے پولیس ٹرنینگ سکول میں بم دھماکے کے دوران جان بحق ہونے والے افراد کی لاشوں کو پرائیویٹ ویگنوں کے چھتوں پر لواحقین لے جانے کا تجربہ کر چکے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے حکمران صوبے کے عوام کی خدمت کرنے کا دعویٰ کرکے تھکتے ہی نہیں۔ کیا صوبائی حکومت ائیر ایمبولینس کو عام عوام کے استعمال کیلئے ہی خرید رہی ہے کیا عوام اس ایئر ایمبولینس سے استفادہ کر سکے گی۔

اگر یہ حکمران طبقات بیورو کریسی اور اشرافیہ کیلئے ہے تو پھر وزیر اعلیٰ اور گورنر کا جہاز ہیلی کاپٹر کس کیلئے خرید گئے ہیں کیا حکمران انہیں استعمال میں نہیں لاتے۔ بلوچستان واحد صوبہ ہے جہاں حکمران عیاشی اور سیر و سیاحت کے نام پر صوبے کے خزانے پر ڈاکے ڈالنے میں مصروف ہیں اور ستر سالوں سے قومی خزانے کی لوٹ کھسوٹ جاری ہے۔ نواب ثناء اللہ زہری کے دور وزارت اعلیٰ میں ایک منصوبہ پٹ فیڈر کینال سے کوئٹہ کو پانی کی فراہمی کا تھا جس کیلئے بجٹ میں چالیس ارب روپے مختص کئے گئے تھے،واضح رہے کہ کوئٹہ سطح سمندر سے پانچ ہزار فٹ سے زائد اوپر ہے۔

جبکہ ڈیرہ مراد جمالی سے کوئٹہ پانی لانا آبیل مجھے مار کے ہی مترادف تھا۔ جبکہ دوسری جانب 2001 میں سابق گورنر امیر الملک مینگل و سابق کور کمانڈر کوئٹہ جنرل عبدالقادر بلوچ نے ڈیرہ مراد جمالی سے کچھی کے علاقے بھاگ جوکہ 65 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے کچھی واٹر سپلائی کے نام پر منصوبہ بنایا گیا اور وہ منصوبہ بھی کامیاب نہ ہو سکا۔ آج بھی بھاگ شہر کے باسی پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔پٹ فیڈر کینال سے کوئٹہ کو پانی کی فراہمی کا پراجیکٹ تاحال شروع نہیں ہو سکا ہے بلوچستان کے حکمران ہی بلوچستان اور عوام سے مخلص نہیں ہیں۔

ان حکمرانوں کی نااہلی کے باعث صوبے کے ہسپتال ویران ہیں جہاں نہ تو ڈاکٹر ہیں اور ہی مفت ادویات عوام کو فراہم کی گئی ہیں۔عوام کو علاج معالجہ کیلئے سندھ کے ہسپتالوں میں جانا پڑتا ہے بلوچستان میں کہیں بھی ایک ایسا ہسپتال نہیں ملے گا جہاں بہترین علاج مفت ادویات کی سہولیات اور ڈاکٹر موجود ہوں۔ بلوچستان کے ہسپتال مقتل گاہ بن چکے ہیں ان ہسپتالوں کی تباہ حالی کا ذمہ دار صوبائی حکومت، بیورو کریسی یا ڈاکٹر ہیں حکومت آج تک اس کے ذمہ داروں کا تعین نہیں کر سکی ہے۔ کیا صوبائی حکومت سات ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز میں بہترین ہسپتال قائم نہیں کر سکتی؟

جہاں تمام شعبوں کے ڈاکٹر اور تمام امراض کا علاج ہوسکے۔ شاید صوبے کے ان ہسپتالوں کی بہتری اور بہتر علاج و ادویات کی فراہمی صوبائی حکومت کی ترجیحات ہی میں شامل نہیں، موجودہ حکومت نے پڑھا لکھا بلوچستان اور صحت مند بلوچستان کا نعرہ لگا کر بلوچستان کو ان پڑھ اور بیمار بلوچستان بنا دیا ہے۔ حکومت بلوچستان اور ہمارے معزز اراکین اسمبلی کی ناقص پلاننگ اور بجٹ ضائع کرنے کا وسیع تجربہ ہے جس کے باعث صوبے کی ترقی اور عوام کی سہولیات کی فراہمی کی کوئی فکر نہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ جو ہوا سو ہوا اب بلوچستان کے ساتھ ناانصافی کا سلسلہ بند کیا جائے۔

صوبے کے خزانے عوام کی ٹیکسوں کی بدولت بھرے ہوئے ہیں اب اس عوام کے خزانے کو عوام کی فلاح و بہبود کی ترقی کیلئے صرف کرنا ہوگا صوبے میں معیاری ہسپتال اور تعلیمی ادارے بنانے ہونگے، صوبے کی قومی شاہراہوں کو دورویہ یعنی ڈبل ٹریک کرنا ہوگا تاکہ بلوچستان کے لوگوں کاخون بہنا بند جائے۔ اور صوبے کے غریب عوام اپنے پیاروں کا علاج معالجہ بھی سرکاری ہسپتالوں میں کر سکیں بصورت دیگر یہ صوبائی حکمران عوامی قہر وغضب اور خدا کے عذاب سے ہرگز نہیں بچ سکیں گے۔