یہ سال 1973ء ماہ اگست کے دن تھے بالعموم بلوچستان خصوصاً کوئٹہ میں ہنگامہ خیز سیاست اپنے زوروں پر تھی اس مہینے کے دوسرے ہفتے کے دوران بلوچستان کی سیاست کے چوٹی کے رہنماؤں میر غوث بخش بزنجو، سردار عطاء اللہ مینگل اور نواب خیر بخش مری گرفتار کر لیے گئے۔ یوں تو 15فروری1973ء کے دن سے احتجاج اور گرفتاریوں کے سلسلے کا آغاز ہوچکا تھا جب پاکستان پیپلزپارٹی کی مرکزی حکومت نے گورنر بلوچستان میرغوث بخش بزنجو کو سبکدوش کرکے ان کی جگہ نواب اکبر خان بگٹی کو بلوچستان کا گورنر نامزد کیا اور اس کے ساتھ ہی بلوچستان اور صوبہ سرحد میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت العلماء اسلام کی مخلوط حکومتیں توڑ دی گئیں۔
احتجاج اور گرفتاریوں کا ایک لا متنائی سلسلہ شروع ہوا،سلگتے ہوئے دور کا آغاز میر شیر محمد مری، نیشنل عوامی پارٹی اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے رہنماؤں کی گرفتاریوں سے ہوا جنہیں 17فروری 1973ء کے دن گرفتار کیا گیا تھا۔ ان گرفتار شدگان میں میر شیر محمد مری کے ساتھ نیشنل عوامی پارٹی بلوچستان کے جنرل سیکرٹری ایڈووکیٹ امیرالملک مینگل،ماہنامہ سنگت کے ایڈیٹر میر منظور احد گچگی اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے رہنماء اور کوئٹہ زون کے صدر حنیف بلوچ شامل تھے۔ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے چئیرمین خیر جان بلوچ زیر زمین چلے گئے۔
اور پہاڑوں کو اپنا آماجگاہ بنایا۔ مرکزی حکومت کی اس غیر جمہوری اور غیر آئینی اقدام کے خلاف پاکستان بھر میں مذمت اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔ان دنوں کوئٹہ احتجاجی جلسوں اور ریلیوں کا مرکز بنا ہوا تھا، سیاسی پارٹیاں، ٹریڈ یونین ایسویشی ایشنز اور طلباء تنظیمیں سراپااحتجاج تھے۔ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی قیادت زندان کی کالی کوٹھڑیوں میں محبوس تھی یا زیر زمین سرگرمیوں میں مصروف جدوجہد تھی۔ ان آمرانہ ہٹ دھرمی اور جابرانہ رویوں ’غیر جمہوری ماورائے آئینی اقدامات کے خلاف احتجاج کی صدائیں فضاؤں میں اس لمحے بلند ہوئیں۔
جب سابق گورنر بلوچستان میر غوث بخش بزنجو نے 15فروری 1973ء کی دوپہر پی آئی اے کے ایک مسافر بردار جہاز کے ذریعے کوئٹہ ائیر پورٹ پر اپنے قدم رکھے۔ نیشنل پارٹی کے رہنماؤں سمیت اس وقت کے وزیراعلیٰ بلوچستان سردار عطاء اللہ مینگل‘ طلباء تنظیمیں‘مزدوروں‘ اور عوام کی کثیر تعداد نے ائیر پورٹ پر میر غوث بخش بزنجو کا استقبال کیا۔اسی دن تقریباً چالیس ’پچاس منٹ بعد بلوچستان کے نئے گورنر نواب محمد اکبر خان بگٹی چیف سیکرٹری بلوچستان کو ساتھ لیے پاکستان ائیر فورس کے ایک خصوصی طیارے کے ذریعے پنڈی سے کوئٹہ پہنچے۔
میر غوث بخش بزنجو کا قافلہ جناح روڈ کے منان چوک پہنچ کر ایک احتجاجی جلسے کی شکل اختیار کی۔ میر غو ث بخش بزنجو نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی عہدوں پر تعیناتی اور سبکدوشی میرے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتی، سیاست کے کھیل میں یہ تو ہوتا رہتاہے۔ گورنروں کی نامزدگی اور بر خاستگی صدر مملکت کا آئینی حق ہے صدر کے ا س آئینی حق کو ہم چیلنج نہیں کرتے البتہ بلوچستان اور صوبہ سرحد میں نیشنل عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے گورنروں کی بیک وقت بر طرفی پہ خدشات رکھتے ہیں جس سے مرکزی حکومت اور صوبائی حکومتوں کے درمیان تلخی اور اشتعال پیدا ہوگا جو ملک کے لئے نیک شگون نہیں۔
انہوں نے پارٹی ارکان‘عوام کے مختلف طبقات اور طلباء سے امید وابستہ کی کہ وہ ایسے اقدامات کا جواب اشتعال انگیزی سے نہیں بلکہ صبر‘ تحمل‘ استقلال اور جمہوری جدوجہد سے دیں گے اور ایسی کوششوں کو ناکام بنائیں گے جو ملکی سلامتی،صوبائی خودمختاری اورجمہوریت کے خلاف ہوں۔میر غوث بخش بزنجو نے اپنی تقریر کے دوران انکشاف کیا کہ عراقی سفارت خانے میں اسلحہ کی خبر ایک ماہ پہلے سے مرکزی حکومت کے علم میں تھی لیکن سیاسی فائدہ اٹھانے کیلئے مرکزی حکومت نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا۔
میر غوث بخش بزنجو کے خطاب کے بعد بلوچستان کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے سردار عطاء اللہ مینگل نے خطاب شروع کیا انہوں نے غوث بخش بزنجو کے خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ گورنر مرکز کا نمائندہ ہوتا ہے اس کی تعیناتی برطرفی صدر مملکت کا آئینی حق ہے انہوں نے تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ایک متنازعہ شخصیت کی بحیثیت گورنر تقرری صوبہ اور مرکز کے مابین تعلقات کو استوار کرنے کے لیے نیک شگون نہیں، جو شخص کل تک آئے دن ہم پر الزامات لگا رہا تھا آج اسے ہمارا انتظامی سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ انہوں نے خطاب کے دوران جذباتی ہوکر کہا کہ صوبہ بلوچستان، صوبہ سرحد میں حکومتیں ہماری ہیں بحیثیت وزیراعلیٰ بلوچستان میں جو مشورہ گورنر کو دوں گا وہ میرے مشورے پر عمل درآمد کا پابند ہوگا۔
سردار عطاء اللہ مینگل کی تقریر کے دوران نیشنل عوامی پارٹی کے رہنماء روزنامہ سچائی کے ایڈیٹر کامریڈ غلامحمد لغاری جو کسی کونے میں بیٹھ کر کان لگائے خبریں سن رہا تھا،اسٹیج کی طرف آئے اورسردار عطاء اللہ مینگل کے کان میں سر گوشی کی کہ آپ کی کابینہ بھی صدر صاحب نے برخاست کردی۔ سردارعطاء اللہ مینگل نے سرگوشی کے بعد تقریر جاری رکھی اور کہا کہ صدر محترم ہمارے کابینہ کو برطرف کر سکتا ہے ہمیں زندان میں ڈلوا سکتاہے لیکن وہ بلوچستان کے مفلوک الحال عوام کا کیا کریں گے جنہوں نے ہمیں اپنی رائے دہی کے ذریعے یہ اختیارات دئیے تھے۔
انہوں نے اپنی حکومت کے دوران لسبیلہ کی بغاوت پٹ فیڈر کے واقعات‘ پولیس ہڑتال‘ جیل عملہ کی ہڑتال‘ اوردیگر رونما ہونے والے واقعات کے پس منظر پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور کہاکہ ہمارے دور میں مرکز نے ان رونما ہونے والے واقعات کے سد باب کے لئے کوئی بھی تعاون نہیں کیا، انہیں سنوارنے کے بجائے جان بوجھ کر بگاڑ نے کی کوشش کی، انہوں نے کہا کہ پاکستان کے مسلح افواج کو سیاست میں ملوث کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، مسلح افواج ہمارے ملک کے افواج ہیں یہ کسی علاقے کی فوج نہیں اور اسے کسی کی ذاتی ایجنڈے‘ اغراض و مقاصد کے لئے استعمال نہیں ہونا چائیے۔
سردار عطاء اللہ مینگل نے کہا کہ ہم نے بھی ملکی سلامتی اور آئین کی پاسداری کا حلف اٹھایا ہے۔ ہم کسی غیر آئینی اقدام کو قبول نہیں کریں گے انہوں نے بلوچستان اور صوبہ سرحد کے گورنروں کی تبدیلی اور حکومت بلوچستان کی برطرفی کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسے ملک میں ایک پارٹی کے قیام کی خواب سے تعبیر کیا۔انہوں نے ورکروں سے کہا کہ وہ عوام کو مرکزی حکومت کی ملک بھر میں ایک پارٹی حکومت کی آمریت سے اور ان غیر آئینی و غیر قانونی اقدامات سے آگاہ کریں۔ دوسری طرف اس روز نئے گورنر بلوچستان نواب اکبر خان بگٹی نے ائیر پورٹ پر اپنے استقبال کے لئے آنے والے ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سابق حکومت عوام کا اعتماد کھو چکی تھی، بد عنوانیاں اور بے اعتدالیاں بڑھ چکی تھیں، بد امنی کا دور دورہ تھا، ا س لیے صدر صاحب کو انہیں ہٹانے کا فیصلہ کرنا پڑا۔
انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ وہ سابقہ حکومت کے دور میں بد عنوانیوں‘ کرپشن اور بد امنی کے بارے میں تحقیقاتی کمیٹیاں قائم کریں گی۔نواب اکبر خان بگٹی نے اپنے خطاب میں لسبیلہ کے واقعات اور نقصانات کے انداز ے اور ازالے کیلئے بھی تحقیقاتی کمیٹی کے قیام کا عندیہ دیا۔گورنر بلوچستان نواب اکبر خان بگٹی نے اسی روز ایک پر ہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور شام کو ریڈیو پاکستان پر تقریر نشر کی۔ انہوں نے اپنی تقریر اور پریس کانفرنس میں نیپ حکومت کی بر طرفی کی وجہ صوبے میں بد امنی، سیاسی حریفوں کے خلاف انتقامی کارروائیاں بتائیں۔
انہوں نے کہا کہ نیپ دور میں بے دریغ اسلحہ اور سرمایہ بلوچستان سمگل ہو کر آتا رہا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ لسبیلہ میں لشکر کشی کی تحقیقات کی جائے گی، امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں گے اور سرکاری مشینری کے ذریعے بد عنوانیوں‘ اسلحہ و سرمائے کی سمگلنگ کی تحقیقات کرائی جائیں گی۔ یہاں سے وقت نے کروٹ بدلی۔ آلام ومصائب سے پر ایک نئے دور کا آغاز ہوا، احتجاج اور گرفتاریوں کا ایک لامتناعی سلسلہ شروع ہوا۔یکم مارچ 1973کے دن میر شیر محمد مری کو کوہلو میں واقع ان کے گھر سے بلا کر گرفتار کر لیا گیا۔
اس کے اگلے دن نیشنل عوامی پارٹی بلوچستان کے جنرل سیکرٹری امیر الملک مینگل،ماہنامہ سنگت کے ایڈیٹر منظور احمد احد گچگی اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن رہنما کوئٹہ زون کے صدر حنیف بلوچ دھر لیے گئے۔ بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے چئیرمین خیر جان بلوچ زیر زمین چل کر پہاڑوں کو اپنا مسکن بنایا۔بگڑٹے ہوئے حالات کے ساتھ ساتھ گرفتاریوں میں تیزی آتی گئی، مقدمات بنتے گئے، تھانوں اور جیلوں کے در کھل گئے۔احتجاج کے دوران ہمارے اور پولیس کے مابین آنکھ مچولی کا کھیل جاری رہا، جو بھی احتجاج کے دوران ھر لیا جاتا وہ پولیس تھانے سے ہوتے ہوئے جیل پہنچ جاتا۔
جو بچ جاتا وہ آنے والے دنوں میں احتجاج کو جاری رکھنے کی تیاری کرتا۔ان احتجاجی سلسلوں کے دوران پولیس اور بلوچ ورنا کی مڈ بھیڑ ہوئی۔ پتھراؤ، آنسو گیس کی شیلنگ‘ فائرنگ کا سلسلہ چلتا رہا۔ کچھ گرفتار‘ کچھ زخمی اور ہم بچتے گئے۔ بالآخر ایک دن احتجاج کے دوران ہم بھی دھر لیے گئے۔ ہماری گرفتاری میر غوث بخش بزنجو‘ سردار عطاء اللہ مینگل اور نواب خیر بخش مری کی گرفتاریوں کے خلاف احتجاج پر ہو ا۔ سردار عطاء اللہ مینگل اور میر غوث بخش بزنجو پندرہ اگست 1973کے دن جبکہ نواب خیر بخش مری صدر بلوچستان نیشنل پارٹی 16اگست کو کوئٹہ سے گرفتار کے لیے گئے۔بلوچ سیاسی قائدین کی گرفتاریوں نے بلوچستان بھر میں غم و غصے کی فضاء قائم کی ان گرفتاریوں کے خلاف بلوچستان بھرمیں احتجاج کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا۔
javaidleghari
بہت عمدہ تحریر حقائق کے تناظر میم