کالاباغ ڈیم نا منظور، سندھ دشمنی بند کرو، جیسے نعرے لگاتے ہوئے ریلی ریگل چوک صدر سے کراچی پریس کلب کی جانب رواں دواں تھی۔ مظاہرین ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھائے ہوئے تھے۔ جن پر حکومتی پالیسیوں کے خلاف نعرے درج تھے۔ یہ ریلی سندھ دشمن منصوبہ کالا باغ ڈیم کے خلاف تھی۔ کالاباغ ڈیم وفاقی حکومت کا پانی کو ذخیرہ کر کے بجلی کی پیداوار و زرعی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے ایک بڑا متنازعہ منصوبہ تھا جو تاحال متنازع ہونے کی وجہ سے قابل عمل نہیں ہو سکا۔ اس منصوبہ کے لیے منتخب کیاگیا، مقام کالا باغ تھا جو ضلع میانوالی میں واقع ہے۔
ضلع میانوالی صوبہ پنجاب کے شمال مغربی حصے میں واقع ہے۔ریلی میں سندھی اور بلوچ قوم پرست جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں سیاسی کارکنان اور مرکزی رہنما شریک تھے۔ ریلی کی قیادت سندھی قوم پرست رہنما اور عوامی تحریک کے سربراہ رسول بخش پلیجو کررہے تھے۔ پلیجو سندھ میں قومی حقوق کے لیے چلنے والی اہم تحریکوں، جیسا کہ ون یونٹ مخالف تحریک، کالا باغ ڈیم مخالف تحریک اور تحریک بحالی جمہوریت یا ایم آر ڈی میں اہم کردار ادا کیا۔رسول بخش پلیجو، ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاالحق کے ادوار میں اپنے سیاسی نظریات کی وجہ سے لگ بھگ گیارہ برس جیل میں رہے اور 1983میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انھیں ضمیر کا قیدی قرارد دیا تھا۔
ریلی کے دوران اچانک نعرے تبدیل ہوگئے۔ جس نے ریلی میں شریک لوگوں کو پریشانی میں ڈال دیا۔ کالا باغ ڈیم مخالف نعروں کے بجائے، چین میں کمیونسٹ انقلاب لانے والے رہنما ماؤزے تنگ کے پیرو کاروں کے خلاف نعرے گونج اٹھے۔ ماؤسٹوں کا قبرستان بلوچستان بلوچستان اور چینی سامراج مردہ باد جیسے نعرے لگنے شروع ہوگئے۔صرف دو بلوچ کارکن یہ نعرے لگارہے تھے۔ جن میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے کامریڈ شوکت بلوچ، اور پاکستان نیشنل پارٹی (پی این پی) کے کامریڈ بخشی بلوچ لگارہے تھے۔
اس طرح ماؤزے تنگ کے پیرو کار ماؤسٹ اور ولادیمیرالیچ لینن کے پیروکار، لینینسٹ آمنے سامنے ہوگئے۔ لینن روسی انقلابی، اشتراکی سیاست دان، سوویت انقلاب کے رہ نما تھے۔ بہرحال سینئر لوگوں نے کامریڈ شوکت اور بخشی بلوچ کو کافی ڈانٹا اور ہدایت کی کہ وہ اس طرح کے نعرے مت لگائیں جس سے بدنظمی پیداہو۔ تاہم مسئلے کو رفع دفع کیا گیا۔ اور اس طرح ریلی بھی شرکاء کی تقاریر کے بعد اختتام پذیر ہوگئی۔یہ واقعہ آج سے 25 سال پرانا ہے۔ اور دونوں بلوچ کامریڈ بھی اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ کامریڈ بخشی دیگر سیاسی کارکنوں سے ایک منفرد شخصیت کے مالک تھے۔
وہ سال کے بارہ مہینے گرم لیدر جیکٹ پہنتے تھے۔ دراصل وہ روسی کامریڈوں سے کافی متاثر تھا اور وہاں سخت سردی پڑتی تھی اور روسی گرم کپڑے خاص کر لیدر جیکٹ پہنتے ہیں۔ یہ کامریڈ بخشی کا روسی کامریڈوں سے محبت کرنے کا انوکھا انداز تھا۔ جو کافی دلچسپ تھا۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی میں غربت اور افلاس میں گزاری۔ اور کسمپرسی کی حالت میں ہم سے جدا ہوگئے۔کامریڈ شوکت بلوچ کافی ذہین اور ہونہار طالبعلم تھے۔ وہ اپنے لمبے قد اور بڑے بالوں کی وجہ سے ہر جلسہ و جلوس میں دور سے نظر آتے تھے۔ شوکت کی موت ایک سانحے سے کم نہیں تھی۔
نوجوانی میں ان کو بے وقت موت ملی۔ وہ اپنے بچپن کے دوست بلوچ صحافی سعید سربازی سے بات چیت میں مصروف تھے کہ لیاری گینگ وار کے کچھ کارندوں نے سعید سربازی کو نشانہ بنایا جس پر دونوں شدید زخمی ہوگئے۔ تاہم کامریڈ شوکت بلوچ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔ جبکہ سعید سربازی زندگی اور موت کی کشمکش کے بعد صحت یاب ہوگئے۔یہ وہ دور تھا جب لیاری میں گینگ وار کے کارندے عروج پر تھے۔ ان کا طوطی بولتا تھا۔ اور وہ ہر اس زبان کو بند کردیتے جو ان کے خلاف بولتا تھا تاہم لیاری کے باشعور سیاسی کارکنوں نے ان جرائم پیشہ افراد کا جوان مردی سے مقابلہ کیا۔
ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے مختلف اضلاع میں 11اقسام کی معدنیات کے ذخائر موجود ہیں۔ جبکہ تین ہزار ٹریلین کیوبک گیس کے بھی ذخائر موجود ہیں۔ بلوچستان کے ضلع چاغی اور مستونگ کے مختلف علاقوں میں آئرن کے 273ملین ٹن کے ذخائر موجود ہیں اسی طرح چاغی میں کاپر کے 7 ہزار ملین ٹن، پشین، قلعہ سیف اللہ، ژوب،لسبیلہ،خضدار،مسلم باغ میں کرومائیٹ کے 500 ملین ٹن قدرتی ذخائر موجود ہیں۔ چاغی،خضدار، لسبیلہ میں لیڈ اور زنک دھاتوں کے 50 ملین ٹن،کوئٹہ،شاہرگ،ہرنائی، بولان، دکی، موسیٰ خیل،کوہلو میں کوئلے کے 1ہزار ملین ٹن ذخائر موجود ہیں۔
اسی طرح چاغی، قلع سیف اللہ،خضدار، لسبیلہ میں میگنیز کے ذخائر بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ اسی لئے چینی اشرافیہ بلوچستان میں گھسے ہوئے ہیں۔ ان معدنیات کوسب سے زیادہ چین روانہ کیا جاتا ہے۔ اس لوٹ مار سے بلوچستان کے عوام کو دور رکھا گیا۔ یہاں تک کے بننے والی صوبائی کٹھ پتلی حکومتوں کو بھی اعتماد میں نہیں لیاجاتا۔موجودہ بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار دیکھ کر مجھے کامریڈ شوکت بلوچ اور بحشی بلوچ کا 25 سال پرانا نعرہ یاد آتا ہے۔ جو وہ باآوازِ بلندلگا رہے تھے کہ چینی سامراج مردہ باد۔
ایک ملک کی سرحدوں سے باہر جا کے دوسری سرزمین کے اختیارات میں دخل اندازی کرنے کے عمل کو سامراجیت (imperialism) کہا جاتا ہے۔ یہ دخل اندازی بلوچستان میں جغرافیائی، سیاسی یا اقتصادی طور پر ہو رہی ہے۔ قدیم چینی سامراج اور سکندر کے یونانی سامراج سے جدید امریکی سامراجیت تک اس کی بے شمار مثالیں ہیں۔ انیسویں صدی کے نصفِ اوّل سے بیسویں صدی کے نصفِ اوّل تک کا زمانہ سامراجیت کے نام سے معروف ہے۔ برطانیہ، فرانس، اطالیہ، جاپان، امریکہ وغیرہ جیسے ممالک نے اس زمانے میں عالمی پیمانے پر نوآبادیات قائم کیں۔
ایک بار پھر صدر شی جن پنگ کی قیات میں چین ایک عالمی سامراجیت کا روپ دھار رہا ہے۔ ‘بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو’ یعنی بی آر آئی جسے ‘ون بیلٹ ون روڈ’ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے جس کے تحت 66 سے زائد ممالک کو تجارتی سطح پر جوڑا جا رہا ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق یہ منصوبہ دنیا کی دو تہائی آبادی کو ملائے گا جس میں کم از کم ایک تہائی مجموعی ملکی پیداوار بھی شامل ہے۔صدر شی جن پنگ نے 2013 میں اس وسیع منصوبے کا اعلان کیا جو کہ زمانہِ قدیم کی شاہراہ ریشم کے نقشِ قدم پر بنایا گیا ہے۔ اس کے زمینی راستے کو ‘سلک روڈ اکنامک بیلٹ’ کا نام دیا گیا ہے۔
جو کہ چین کو سڑک اور ریل کی مختلف راہداریوں کے ذریعے ایشیاء کے تقریباً تمام ممالک سے ملاتے ہوئے یورپ تک جاتا ہے۔ ان راہداریوں کا ایک اہم حصہ چین پاکستان اقتصادی راہداری ہے جو کہ گوادر سے خنجراب کے راستے 62 ارب امریکی ڈالر کی مالیت پر مشتمل ہے۔آج مجھے کامریڈ بخشی اور کامریڈ شوکت کے نعرے یاد آتے ہیں۔ جو وہ25 سال قبل کراچی میں لگارہے تھے۔ اس وقت جب یہ دونوں کامریڈ نعرے لگار رہے تھے تو اس زمانے میں ‘بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو’ کا نام و نشان نہیں تھا۔ اور نہ ہی دنیا اس منصوبے سے آگاہ تھی مگر یہ دونوں کامریڈ ضرور آگاہ تھے۔ شاید یہ بلوچ سیاسی ورکروں کی سیاسی بصیرت ہے کہ دنیا کو نظر نہ آنے والی چیز ان کو نظر آتی ہے۔