|

وقتِ اشاعت :   July 11 – 2020

گستاخیاں

حیرت کی بات یہ ہے کہ بدعنوانی نے ہماری دیانتداری بیچ دی ہے۔ ہم اپنے آس پاس کے لوگوں کو دیکھ کر اندھے ہوچکے ہیں جو ننگے پاؤں بھٹک رہے ہیں،اور فاقہ کشی کے عالم میں مر رہے ہیں۔ ہر روز سینکڑوں غریب سڑکوں پر گھومتے پھرتے ہیں تاکہ ایک وقت کا کھانا مل سکے۔ غربت کے حوالے سے ایک رپورٹ کے مطابق ہر چھ میں سے ایک پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزاررہا ہے۔ ان میں سے 74 فیصد روزانہ 2 امریکی ڈالر سے کم اور 17 فیصد روزانہ 1.25 امریکی ڈالر سے کم اجرت کماتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں بدعنوانی کے مرض کی وجہ سے بہتر زندگی گزارنے کی امید ختم کردی ہے۔ اگر اب ہم اس ناسور کا علاج نہیں کرتے ہیں تو پھریہ ہمیں مکمل طور پر کھا جائے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہمارے معاشرے سے بدعنوانی کا خاتمہ کیا جائے تاکہ پھر غربت کا بھی خاتمہ ہو۔ بدعنوانی تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ اگر ہم بدعنوانی کو ختم نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم غربت کے خلاف بھی لڑ نہیں سکتے۔ اگر اس مسئلے پر تاخیر ہوئی تو ہم پچاس سال تک مزید مشکلات سے دوچار ہوسکتے ہیں۔ اب ہم آتے ہیں۔

بلوچستان کی جانب،بلوچستان کو صوبے کا درجہ 1972 میں ملا اس وقت سے لیکر آج تک صوبے کی اور نہ ہی عوام کی تقدیر بدلی ہاں اگر حقیقی معنوں میں تقدیر بدلی ہے تو صوبے کے ان 65 اراکین صوبائی اسمبلی و اراکین قومی اسمبلی و سینٹرز اور سیاسی اشرافیہ کی۔ بلوچستان کے اراکین اسمبلی کامیاب ہونے کے بعد جلد مالا مال ہو جاتے ہیں ان کے اثاثے مختصر دور میں ہی آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں ان کے پاس کون سا الہ دین کا چراغ یا کوئی ایسی گیدڑ سنگی ہے کہ وہ امیر سے امیر تر ہوتے جا رہے ہیں جبکہ صوبے کے محکوم عوام دن بدن غربت،پسماندگی اور بدحالی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔

بلوچستان میں جنرل ایوب خان کے دور میں صوبے میں ریکارڈ ترقیاتی منصوبے بنے اور ان منصوبوں کی بدولت نصیرآباد ڈویژن میں زرعی انقلاب آیا، بلا شبہ پٹ فیڈر کینال اور کھیر تھر کینال بلوچستان کے عوام کیلئے بڑے اور عظیم منصوبے تھے جبکہ جنرل مشرف کے دور میں بلوچستان میں زرعی انقلاب برپا کرنے کیلئے کچھی کینال منصوبے کا آغاز کر دیا گیا لیکن بعد کے حکمرانوں کی غفلت اور بلوچستانی حکمرانوں کی نااہلی کے باعث کچھی کینال تشنہ تکمیل نہ ہوسکا۔ سات لاکھ ایکڑ کے بجائے پہلے فیز میں صرف ستر ہزار ایکٹر سیراب کر رہا ہے۔

بلوچستان میں ہر صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے دلچسپ اور منفرد وعدے اور نعرے لگا کر عوام کو اپنے سیاسی سحر اور جادوگری کا شکار کرتے رہے، کبھی کرپشن کو ناسور کہا گیا،کرپشن کو نسلوں کی تباہی کا ذمہ دار قرار دیا گیا، کرپشن کو معاشرتی برائی کی اکائی کہا گیا، کبھی عوام کی تقریر بدلنے اور ترقی کے منفرد منصوبے شروع کرنے کے وعدے وعید کئے گئے،کبھی سی پیک کو ترقی کا انقلاب کہا گیا،کبھی سیندک اور ریکوڈک سے بلوچستان کو یورپ بنانے کے سہانے خواب دکھائے گئے، کبھی ساحلی پٹی اور کوسٹل ڈویلپمنٹ اور سی فوڈ میں سرمایہ کاری سے ترقی کے عمل پر بہلانے کی کوشش کی گئی۔

لیکن ان سب کے باوجود بلوچستان حکومت اور نیب نے بھی ایک سلوگن کرپشن کا خاتمہ اور کرپشن کو خطرناک ناسور قرار دیا اورکرپشن سے نفرت اور اس کے خاتمے سے ہی صوبے اور عوام کو ترقی اور خوشحالی کی نوید سنادی۔صوبائی حکومت نے ترقیاتی عمل اور ترقی کے ثمرات سے مستفید ہونے کیلئے بہترین کاغذی نعرے یعنی صرف نعرے کی حد تک عمل کا آغاز کیا بقول نیب” سے نوٹو کرپشن Corrupption to no Say ” کا سلوگن اور نعرہ بہت ہی دل فریب لگایا لیکن اس پر عمل تاحال نظر نہیں آرہا یعنی آج تک کسی آفیسر یا سرکاری عہدیدار ٹھیکیدار کو کرپشن کے الزام میں گرفتار تک نہیں کیا گیا ہے لگتا ہے کہ حکومت کے صرف اس نعرے سے واقعی کرپشن کا نام ونشان مٹ گیا ہے۔

صوبے میں کہیں بھی کرپشن کا دور دورہ تک نہیں اور نہ ہی عوام نے آج تک کسی کو کرپشن کرتے ہوئے نہ دیکھا ہوگا اور نہ ہی عوام نے کسی کو شکایت کی ہو گی، عوام اپنے معاش اور روزگار کے سلسلے میں انتہائی کسمپرسی میں ہے لیکن افسوس اس نعرے پر نہ تو نیب نے مکمل عمل کیا اور نہ ہی کرپشن ختم کرنے والا صوبائی ادارہ محکمہ اینٹی کرپشن نے اور نہ ہی کسی دوسرے ادارے نے کرپشن کے موثر تدارک کیلئے ٹھوس منصوبہ بندی کی۔ بلوچستان میں کرپشن اور کمیشن کا اندازہ آپ کسی بھی منصوبے کی لاٹف ٹائمنگ یا عرصہ پائیداری سے ہی لگا سکتے ہیں۔

بلوچستان میں محکمہ مواصلات و تعمیرات کے زیر اہتمام بننے والے روڈز کے معیاری ہونے کا اندازہ آپ اس امر سے لگا سکتے ہیں کہ صوبے میں جتنا معیاری روڈ کا کام ہوئے ہیں پھر بھی ان روڈز کی پائیداری چھ سے دس ماہ تک ہی بمشکل ہوتی ہے اور اسی دوران روڈ پر بچھایا جانے والا بلیک ٹاپ کارپٹ تارکول کے بجائے جلے ہوئے آئل سے ہی تیار کیا جاتا ہے۔ میرے صحافتی تجربے میں جتنے روڈز بنے ہیں ان کے بجری شاید نکلے ہوں لیکن ان کے بڑے پتھر میں نے کبھی نکلتے نہیں دیکھا لیکن اب صوبے میں تعمیر ہونے والے غیر معیاری روڈز کے بڑے پتھر ہی نکل رہے ہیں۔

جوکہ عوامی سہولت کے بجائے عوام کو مزید تکلیف میں مبتلا کرتے ہیں جبکہ صوبے میں ٹھیکیداروں کا کہنا ہے کہ کمیشن زیادہ ہونے اور امن وامان کی صورت حال کے باعث معیاری کام میں مشکلات کاسامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ساتھ ہی سرکاری ریٹس بھی پرانے ہیں۔ نئے پاکستان کے امیر المومنین عمران خان کے دور حکومت میں ملک میں جہاں مہنگائی کا طوفان اور تعمیراتی میٹریل کے قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ بھی ان معیاری کاموں میں رکاوٹ ہے تاہم ان سب کے باوجود ان منصوبوں میں ناقص تعمیرات کی اصل وجہ کرپشن اور کمیشن ہے۔

بلوچستان کے دیگرعلاقوں کے علاوہ آپ صرف صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کو پانی کی فراہمی آب کے منصوبے کو دیکھیں جسے دس سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود نہ تو پینے کے پانی کا منصوبہ مکمل ہو رہا ہے اور نہ ہی کوئٹہ کی تیس لاکھ آبادی کو پانی کی فراہمی کا آغاز ہوا ہے۔کثیر اخراجات کے باوجود کوئٹہ کو پانی کی فراہمی ہنوز دلی دور است والا معاملہ ہے۔ بلوچستان کے صوبائی دارالخلافہ کوئٹہ جسے لٹل پیرس کہا جاتا ہے اب اسی لٹل پیرس کو حکومتی غفلت کے باعث ٹینکر مافیاز کے حوالے کیا گیا ہے ٹینکر مافیا کے ریٹ روز بروزبڑھ رہے ہیں۔

جس کے باعث کوئٹہ کی تیس لاکھ کی آبادی پریشان ہے لیکن انتظامیہ نے کبھی ان ٹینکر مافیا کے مہنگے داموں پانی کی فروخت کا نہ تو نوٹس لیا ہے اور نہ ہی ان مافیاز کے خلاف کوئی ایکشن لیا ہے اور نہ ہی انتظامیہ کی جانب سے ریٹس مقرر کئے گئے ہیں۔ عوام ان ٹینکر مافیاز کے رحم و کرم پر ہیں جو مجبور و محکوم عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف ہیں۔ بلوچستان میں کرپشن کے مکمل تدارک یا قلع قمع کئے بغیر ترقی کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہ ہوگا اور نہ ہی عوام ترقی کے ثمرات سے مستفید ہونگے۔اب وقت آگیا ہے کہ بلوچستان میں کرپشن کے خلاف اعلان جہاد کیا جائے۔

تمام ترقیاتی منصوبوں کی سخت مانیٹرنگ اور جائزہ لیا جائے اور غیر جانبدار اور آزاد تھرڈ پارٹی سے ان منصوبوں کا باقاعدہ آڈٹ کرایا جائے، مکمل آڈٹ رپورٹ کے بعد ہی ٹھیکیدار کو کلیئرنس سرٹیفیکٹس دیا جائے اور ساتھ ہی کرپشن کی شکایات پرفوراً ایکشن لیا جائے، غیر معیاری منصوبوں پر متعلقہ ایکسئین،ایس ڈی او، انجنیئرسمیت متعلقہ تمام آفسران کے خلاف محکمانہ کاروائی عمل میں لائی جائے اور آئندہ کیلئے مذکورہ افیسران کو انتظامی پوسٹ کیلئے بیلک لسٹ کیا جائے،انہیں کسی سیاسی سفارش کے باوجود انتظامی عہدہ نہ دیا جائے۔

تمام محکموں میں میرٹ کو اولیت دی جائے،سیاسی سفارشارت کو ہرگز خاطر میں نہ لایا جائے، سیاسی سفارش کے باعث ہی ترقیاتی منصوبے ناقص بن رہے ہیں اور بلوچستان کی پسماندگی اور محرومی ان سیاسی کلاس ہی کی بدولت ہے، کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ بلوچستان کی طرح پسماندہ کوئی وزیر مشیر یا سرکاری اثرو رسوخ رکھنے والا سیاست دان ہے۔ سیاست دان ترقی اور خوشحالی کے تمام منازل طے کر رہے ہیں جبکہ بلوچستان اور عوام ترقیاتی عمل سے محروم ہیں۔ کرپشن یا نااہلی کا اندازہ آپ بلوچستان کے سب سے بڑی اہمیت کے حامل منصوبے پٹ فیڈر کینال سے ہی لگا سکتے ہیں 2010 اور 2012کے تباہ کن سیلاب کے بعد آج تک پٹ فیڈر کینال کی مکمل بحالی نہ ہو سکی ہے اب تک ڈی سلٹنگ اور بحالی پر اربوں روپے خرچ ہونے کے باوجود پٹ فیڈر کینال میں پانی کا بہاؤ نہ ہونے کے برابر ہے۔

کینال کے پانی کا حصہ 6700 کیوسک ہے لیکن کم بہاؤ کے باعث پانی کی روانی متاثر ہونے کے باعث بمشکل 4 سے 5 ہزار کیوسک ہے جس سے ٹیل کے علاقے صحرائے تھر کا منظر پیش کر رہے ہیں غرض بلوچستان میں ایسے سینکڑوں منصوبے ہیں جنہیں تاحال مکمل نہیں کیا گیا ہے، ان منصوبوں میں فنڈز کی کمی یا پھر کرپشن کا عمل دخل ہو سکتا ہے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان صوبے کی پسماندگی کے خاتمے اور فنڈز کے ضیاع پر فیکٹ اینڈ فائڈنگ کمیٹی بنائیں اور صوبے میں سالانہ ترقیاتی مد میں اربوں روپے خرچ ہونے والے رقومز کا جائز لیں تاکہ بلوچستان کی ترقی کا پہیہ رواں دواں ہو اور صوبے سے پسماندگی اور محرومیوں کا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہو۔

تاہم یہ کام انتہائی مشکل ہے ان سیاست دانوں سے اس طرح کی توقعات رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہو گا تاہم جب تک عوام ان سیاسی نمائندوں کا محاسبہ نہیں کرینگے تب تک ترقی کے ثمرات نہ تو عوام دیکھیں گے اور نہ ہی مستفید ہوسکیں گے۔