ایک بادشاہ کسی سفر پر جا رہا تھا کہ اس نے اونٹوں کے ایک گلہ کو دیکھا جوکہ ایک ہی قطار میں ڈسپلن کے ساتھ جا رہے تھے، بادشاہ نے اس چرواہے سے پوچھا کہ اس طرح اونٹوں کو ڈسپلن برقرار دیکھنے میں آپ کس طرح کی حکمت و منطق ایجاد کی ہے تو چرواہے نے کہا کہ سخت فیصلے اور غلطی پر سزا تو بادشاہ متاثر ہوا اور اسے اپنی بادشاہی میں وزارت داخلہ دینے کی پیشکش کی اور ملک میں مثالی امن وامان کی بحالی کی شرط پر وزارت داخلہ چرواہے کو دے دی گئی۔ ایک مرتبہ کسی چور کو وزیر داخلہ کی عدالت میں لایا گیا تو موصوف وِزیر داخلہ نے بیانات سننے کے بعد چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر کیا۔
جس پر ایک اہم وزیر نے وزیر داخلہ کے کان میں سرگوشی کی کہ جناب یہ ہمارے خاص بندے ہیں، سزا پر نظر ثانی کریں وزیر داخلہ نے دوبارہ حکم دیا کہ چور کے دونوں ہاتھ کاٹ دیئے جائیں پھر وزیر نے کہا کہ یہ ہمارے خاص بندے ہیں اپنی سزا معطل کرکے اس کے ساتھ رعایت کی جائے وزیر داخلہ نے پھر حکم جاری کیا کہ چور کے دونوں ہاتھ اور سفارشی وزیر کی زبان کاٹ دی جائے تاکہ کوئی چور کی سفارش نہ کرے۔ ملک کے بادشاہ اور عوام میں وزیر داخلہ کے اس منصفانہ فیصلے کے چرچے مشہور ہوئے اور جرائم کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہوا۔ ہم بھی پاکستان اور بلوچستان میں اس طرح کے سخت فیصلوں سے ہی ملکی نظام کو بہتر بنا سکتے ہیں۔
اور عدل فاروقی کی بنیاد بھی سخت اور حقیقت پر مبنی فیصلوں پر ہوا کرتا تھا اور حضرت عمرکے دور میں دودھ میں پانی ملاوٹ کرنے پر خوف ہوتا تھا کہ کہیں عمر فاروق کو معلوم نہ ہوجائے۔ یقینا جس معاشرے میں برابری مساوات منصفانہ عدالتی فیصلے عام وخاص کیکئے یکساں ہونگے تو وہاں معاشرے ترقی کی منازل طے کرتے ہیں وہاں انصاف کے تقاضے پورے ہوتے ہیں اور جزا وسزا اور سخت قوانین سے کرپٹ لوگوں اور کرپشن جیسے ناسور سے نجات مل سکتا ہے۔ اس طرح کے حقیقی فیصلے اگر بلوچستان جیسے پسماندہ اور کرپٹ زدہ ماحول میں لاگو کیے جاتے تو۔
یہ بلوچستان آج دنیا کا جدید ترقی یافتہ صوبہ ہوتا جہاں قدرتی گیس، معدنیات،ریکوڈک، سیندک، سنگ مرمر جیسے وسائل سونا تانبا ساحل سمندر بہترین نہری نظام اہمیت کے حامل گوادر بندر گاہ ہونے کے باوجود بلوچستان پسماندگی محرومی، عدم ترقی کا منظر پیش کرکے ہمارے حکمرانوں کی کارستانیوں کی داستان پیش نہ کر رہا ہوتا۔اگر ہمارے صوبے یا ملک پر ایسے وزیر باتدبیر حکمران ہوتے تو آج پاکستان اور بلوچستان دنیا پر حکمرانی کرتے، پاکستان دنیا کا معاشی ٹائیگر ہوتا اور عالم اسلام کی قیادت کرتا ہو رہا ہوتا لیکن شومئی قسمت کہ نہ صرف پاکستان کو بلکہ بلوچستان کو بھی اچھے حکمران نہ ملے اگر حکمران ملے تو کفن چور، خزانہ چور ملے۔
جنہوں نے ملک اور صوبے کی ترقی کی بجائے اپنے بینک بیلنس کو ترقی دی،اپنے اثاثے بڑھائے، دبئی لندن پیرس سوئزلینڈ سمیت دیگر ممالک میں اثاثے اور محلات خریدے، لاکھوں ایکڑز زمینیں،فیکرٹریز، پراپرٹیز کے مالک بنتے گئے اور بزنس ٹائیکون بنے لیکن ملک اور عوام کی تقدیر بدلنے کے بجائے انہیں مزید پسماندگی اور محرومیوں کے ساتھ ساتھ غیر ملکی قرضوں میں جکڑتے رہے یا یوں کہا جائے کہ اپنے مفادات کی خاطر ملک کو ان مالیاتی اداروں کے ہاں گروی رکھ دیاگیا،قرضوں کے عیوض ملک کو ان کی ایماء پر چلا کر عوام کو نان نفقہ کا ہی محتاج بنا دیا گیا۔
ملک کے منافع بخش اداروں میں میرٹ کے بجائے دوستوں کو نوازا گیا آج پاکستان اسٹیل مل،پی آئی اے، ریلوے،واپڈا سمیت ہر ادارہ خسارے میں ہے جہاں میرٹ ملکی مفادات کے بجائے ذاتی مفادات کا تحفظ ہوگا وہاں ادارے خسارے اور تباہ حالی کا منظر یقینا پیش کرتے رہیں گے۔ بلوچستان کی پسماندگی اور تباہ حالی کا ذمہ دار جہاں وفاقی و صوبائی حکومت،بیورو کریسی ہے وہاں ان اداروں کی سرپرستی اور کرپٹ مافیاز کو تحفظ فراہم کرنے والے ادارے بھی ہیں، اور المیہ یہ ہے کہ ان کرپٹ اور قومی مجرموں کو عدالتی ریلیف بھی ان کے حوصلوں کو بڑھاوا دینے کا ایک ذریعہ ہے۔
جب تک ملک میں فوری اور بروقت انصاف کے تقاضے فراہم نہیں ہونگے،جب تک پسند اور ناپسند اور سلیکٹڈ فیصلے ختم کرکے انصاف کے مطابق عام و خاص کے ساتھ فوری اور منصفانہ فیصلے نہ ہونگے تب تک کرپشن جیسے ناسور نظام اور کرپٹ ماحول سے قوم کو نجات نہیں ملے گی۔ آپ نے کوریا اور چائنا کی کئی مثالیں سنی ہونگی کہ وہاں ایک پل ناقص میٹریل کی وجہ سے گرنے پر متعلقہ انجینئرز آفیسران اور اس کے تمام کرداروں کو شوٹ کیا گیا،اس کے بعد نہ تو ناقص کام ہوا اور نہ ہی کوئی پل یا کوئی بلڈنگ گرا ۔بلوچستان کو ترقی دینے کے نعرے کئی عشروں سے سن رہے ہیں۔
لیکن صوبے کی ترقی سے عوام بہرہ مند نہیں ہو رہی، بلوچستان کی ترقی کاغذوں، فائلوں اور ٹوئٹر پر ضرور ہو رہا ہوگا سوشل میڈیا پر صوبے کی ترقی کا اندازہ جام کمال خان کے کمالات سے لگا سکتے ہیں کہ وہ بیک وقت چالیس سے زائد سوشل آئی ڈیز کے ایڈمن ہیں، کیا سوشل میڈیا پر سرگرم ہونے سے بلوچستان معاشی اقتصادی ترقی سے ہمکنار ہوا ہے، جتنا وقت وزیر اعلیٰ جام کمال خان سوشل میڈیا کو دیتے ہیں اگر اتنا وقت ترقیاتی منصوبوں کے معیار چیک کرنے پر دیتے تو یقینا بلوچستان میں ترقی حقیقی میدان میں نظر آتا اور بلوچستان سے کرپشن کا خاتمہ بھی ہوتا۔
بلوچستان کو ترقی دینے اور عوام کی تقدیر بدلنے کیلئے اگر مخلصانہ کوشش یا اقدامات کئے جائیں،میرٹ پر ترقیاتی منصوبے اور ترقیاتی منصوبوں کے معیار کو بہتر کرنے پر سزا وجزاء کے اصول وضع کئے جائیں، عوام کو اس ترقی یافتہ صدی میں تعلیم،صحت، پینے کے صاف پانی کی فراہمی،نکاسی آب،روڈ انفراسٹرکچرز سمیت جدید سہولیات فراہم کرنے کیلئے ٹھوس اور دیرپا اقدامات کرنے ہونگے اور ساتھ ہی کرپشن کے خاتمے کیلئے تمام اداروں کو ایک بیج پر آنا ہوگا تاکہ کبھی بھی کرپٹ لوگوں کی حوصلہ افزائی نہ ہو سکے اور بلوچستان کرپٹ لوگوں کیلئے دوزخ بن جائے۔ بلوچستان ترقیاتی میدان میں پاکستان کا سنگا پور بن جائے یہ اس وقت ممکن ہو گا جب ہمارے حکمران ایمانداری،نیک نیتی اور بہتر عدالتی نظام کو فروغ دیں گے۔