کوئٹہ(اسٹاف رپورٹر ) بلوچستان میں پولیو سمیت دیگر موذی امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں غیر مؤثر مہم اور ناکافی سہولیات کے باعث حفاظتی ٹیکہ جات کی شرح صرف سولہ فیصد ہے ،اس تشویشناک صورتحال کے باوجود حکومت کے پاس حفاظتی ٹیکہ جات سے متعلق کوئی پالیسی موجود نہیں ۔ماہرین صحت کے مطابق اگر پاکستان پولیو کے خاتمے میں ناکام ہوگیا ہے تو سالانہ دو لاکھ بچے عمر بھر کی معذوری کا شکار ہوسکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بلوچستان اکتوبر دو ہزار بارہ سے اگست دو ہزار چودہ تک پولیو فری رہا ہے تاہم اگست سے اب تک صرف ڈھائی ماہ کے عرصے میں پولیو کے گیارہ کیسز سامنے آچکے ہیں ۔ پولیوکے خاتمے کی کوششوں میں ناکامی کی ایک بڑی وجہ حفاظتی ٹیکوں کی کم کوریج ہے ۔ بلوچستان کی کل607یونین کونسلز ہیں جبکہ صوبے بھر میں حفاظتی ٹیکہ جات کے مراکز کی تعداد 493ہے یعنی اب بھی سینکڑوں آبادیاں حفاظتی ٹیکہ جات (ای پی آئی سینٹرز)کے مراکز سے محروم ہیں۔ ای پی آئی کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان کی37فیصد یونین کونسلز میں حفاظتی ٹیکہ جات کے مراکز اور عملہ موجود نہیں جس کے باعث بلوچستان کے40فیصد علاقے کے بچے اور مائیں ٹیکہ جات کی سہولت سے محرم ہیں۔جبکہ پنجاب میں صرف پانچ فیصد یونین کونسل ای پی آئی سینٹرز سے محروم ہیں۔ پنجاب کے 62مربع کلو میٹر علاقے کے مقابلے میں بلوچستان میں ایک ای پی آئی سینٹر735مربع کلو میٹر کے علاقے کو کور کرتا ہے ۔طویل فاصلوں اور دشوار اور غیر ہموار راستوں کے باعث دور دراز کے علاقوں کے لوگوں کا ان مراکز تک رسائی تقریباً ناممکن ہے۔ ای پی آئی سینٹرز کو24گھنٹوں میں صرف8گھنٹے بجلی میسر ہیں جبکہ ویکسین کو اسٹور کرنے کیلئے 24گھنٹے بجلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک کروڑ آبادی والے صوبے میں سرکاری سطح پر صرف945ویکسینیٹر ز کام کررہے ہیں ۔ ای پی آئی کے مطابق ویکسنیٹر کی تعداد ضرورت سے38فیصد کم ہے جبکہ حفاظتی ٹیکہ جات کی مہم اور مراکز کو مؤثر بنانے کیلئے 600اضافی ویکسینٹرز کی ضرورت ہے۔ حفاظتی ٹیکہ جات مراکز موجود نہ ہونے، طویل فاصلے اور دیگر وجوہات کے باعث بلوچستان میں پولیو ، ٹی بی ، خناق، کالی کھانسی، تشنج ، ہیپاٹائٹس ، گردن توڑ بخار ، نمونیہ اور خسرہ جیسی خطرناک بیماریوں سے بچاؤ کے ٹیکہ جات کی شرح صرف16فیصدہے ۔یہ شرح بھی ملک بھر میں سب سے کم ہے ۔ پنجاب میں حفاظتی قطرے یا ٹیکہ جات سے مستفید ہونے والی بچوں کی شرح سب سے زیادہ65فیصد ہے ۔ پی ڈی ایچ ایس سروے2012-13ء کے مطابق حفاظتی ٹیکہ جات کی شرح کم ہونے کے باعث بلوچستان میں ہر ایک ہزار بچوں میں سے 111 بچے اپنی پانچویں سالگرہ سے پہلے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔ ان میں سے اوسطاً97بچے اپنی پہلی سالگرہ سے پہلے موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ شرح پورے ملک میں سب سے زیادہ ہے ۔ یہ اموات ایسی بیماریوں سے ہوتی ہیں جن سے ویکسین کے ذریعے بچا جاسکتا ہے۔ اس تشویشناک صورتحال کے باوجود حفاظتی ٹیکہ جات کی شرح مؤثر بنانے کیلئے حکومت کے پاس کوئی پالیسی موجود نہیں۔ماہرین صحت کے مطابق صحت سے متعلق کام کرنے والوں میں منصوبہ بندی اور انتظامی صلاحیت کے فقدان بھی بیماریوں کے خاتمے کی کوششوں میں رکاوٹ ہے۔ بیماریوں سے بچاؤ کی مہم اور مراکز کو موثر بنانے کیلئے ای پی آئی کو افرادی قوت ،ویکسین کو محفوظ رکھنے کیلئے مشنری ، موٹر سائیکلوں کی فراہمی اورمعاشی طور پر مضبوط بنانا ہوگا۔سرکاری ذرائع کے مطابق جون2015ء کے بعد ای پی آئی پروگرام کیلئے کوئی پی سی ون موجود نہیں جبکہ ای پی آئی کا پی سی ون گزشتہ کئی ماہ سے زیر غور ہے اور ابھی تک منظور نہیں ہوا۔فنڈز کے اجراء میں تاخیر بھی بیماریوں سے بچاؤ کی کوششوں کو متاثر کررہی ہے۔ماہرین صحت کے مطابق اچھی کارکردگی پر ستائش کے ساتھ ساتھ غفلت برتنے والوں کا احتساب کا باقاعدہ مینکزم بنانے کی ضرورت ہے۔ صحت کے شعبے پر کام کرنے والے سرکاری اہلکاروں کی تقرری اور تبادلے غیر جانبدارانہ اور شفاف طریقے سے کی جائے ۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اگر پاکستان پولیو کے خاتمے میں ناکام ہوگیا ہے تو سالانہ دو لاکھ بچے عمر بھر کی معذوری کا شکار ہوسکتے ہیں۔ یعنی پھر دنیا بھر میں ہر روز پانچ سو بچے معذوری کا شکار ہوں گے۔ پولیو وائرس کے پھیلاؤ کے روک تھام کیلئے ضروری ہے کہ بلوچستان میں95فیصد بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جائیں ۔کوئٹہ، پشین اور قلعہ عبداللہ کے اضلاع میں یہ ہدف حاصل نہیں ہورہا۔ بلوچستان میں کوئٹہ، پشین، قلعہ عبداللہ، جعفرآباد، نصیرآباد اورژوب پولیو کے حوالے سے ہائی رسک اضلاع گردانے جاتے ہیں جس میں 10 لاکھ سے زائد بچے پولیو ویکسین پلانے کا ہدف ہوتے ہیں۔ کوئٹہ پشین اور قلعہ عبداللہ میں تو تقریبا ہر ماہ ہی انسداد پولیو مہم ہوتی ہے۔ قلعہ عبداللہ میں پولیو کیسز کے سامنے آنے کی ایک وجہ والدین کی جانب سے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے سے انکار بھی ہے۔کوئٹہ ، پشین ، قلعہ عبداللہ میں اوسطاً بارہ سے چودہ ہزار ایسے بچے ہیں جو پولیو سے بچاؤ کی مہم میں پولیو سے بچاؤ کے قطرے پینے سے صرف اس لیے محروم رہ جاتے ہیں کیونکہ ان کے والدین یا گھر والے پولیو ویکسین پلانے سے انکار کرتے ہیں۔پولیو کیسز کی ایک وجہ اندرون صوبہ آبادی کی بہت زیادہ نقل و حمل بھی ہے۔ بلوچستان اور دوسرے صوبوں کے درمیان آبادی کی نقل و حمل خاص طور پر صوبہ خیبر پختونخواہ ، فاٹا اور جنوبی افغانستان آمدروفت کے باعث بھی پولیو کے تدارک میں اداروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دنیا بھر کے کیسز کا70فیصد پاک افغان سرحدی علاقوں سے ہی رپورٹ ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہر ماہ اوسطاً 15000سے 20000 بچے چمن میں واقع پاک افغان باب دوستی سے گذرتے ہیں۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ بیماریوں سے بچاؤ کی مہم کو یقینی بنانے کیلئے صحت کے شعبے میں زیادہ سے زیادہ خواتین کی ضرورت ہیں کیونکہ بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں مرد ویکسی نیٹر اور عملے کو مہم کے دوران مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سیودی چلڈرن کے صوبائی منیجرایڈوکیسی وکمپین ندیم شاہد کے مطابق بلوچستان میں حفاظتی ٹیکہ جات کی مہم کو مؤثر بنانے کیلئے بلوچستان بھر کی یونین کونسلز میں دوویکسی نیٹرتعینات کرنے کی ضرورت ہے ، شعبہ غذائیت ،حفاظتی ٹیکہ جات اور لیڈی ہیلتھ ورکرپروگرام کیلئے ہنگامی بنیادوں پرفنڈزجاری کئے جائیں جبکہ ماؤں کوموت کے منہ میں جانے اورمستقبل کے معماروں کی زندگی بچانے کیلئے فوری اقدامات کرتے ہوئے بلوچستان میں لیڈی ہیلتھ وکررز کی تعداد10ہزارکرے اورمیڈوائف کی بھی تعداد بڑھائی جائے۔ان اقدامات کی بدولت صوبے میں صحت کے شعبے میں بہتری آسکتی ہے ۔