|

وقتِ اشاعت :   July 17 – 2020

بلوچ قوم نے قیام سے قومی و طبقانی نظام کے خلاف بر سر پیکار رہی ہے۔ 14 جولائی آج وہ دن ہے جس میں بی این پی کے مرکزی سیکرٹری جنرل حبیب جالب بلوچ کو شہید کیا گیا۔ نام حبیب اللہ، تخلص جالب المعروف حبیب جالب لوچ، ولدیت خیر الدین، قبیلہ پرکانی بلوچ، تاریخ پیدائش 1955 ء جائے پیدائش مری آباد کوئٹہ، شادی 1998ء۔ ابتدائی تعلیم میٹرک 1972 یزدان خان ہائی سکول کوئٹہ، ایف ایس سی 1975 ء سائنس کالج کوئٹہ، بی ایس سی 1978 بلوچستان یونیورسٹی، ایم اے آئی آر بلوچستان یونیورسٹی، ایل ایل بی لاء کالج کوئٹہ جلا وطنی کے دوران روس میں بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔

تعلیمی ریکارڈ شاندار رہا، ہر امتحان میں فرسٹ پوزیشن حاصل کی زمانہ طالب علمی سے بلوچ اور بلوچستان کی سرزمین کے ساتھ سچی وابستگی کا عزم رکھتے ہوئے جدوجہد کا آغاز بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے کیا اور متحرک اور فعال کردار ادا کرتے ہوئے تنظیم کے ضلعی صوبائی اور مرکزی عہدوں پر فائز رہے 1978 میں مرکزی سیکرٹری جنرل اور 1979 ء میں چیئر مین بی ایس او منتخب ہوئے اور 1980 میں فیڈرل یونین آف اسٹوڈنٹس کے سیکرٹری جنرل کے فرائض بھی سر انجام دیئے اس دوران اپنی اپنی جدوجہد مستقل مزاجی، ثابت قدمی، جہد مسلسل کے ذریعے ملکی و بین الاقوامی سطح پر بی ایس او کے فکر اور نظریات کا پرچار کرتے رہے۔

1983 میں افغانستان جاکر جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے 1987ء میں پروگریسو یوتھ مؤومنٹ کی تشکیل میں ان کے کلیدی رول کو کوئی بھی نظر انداز نہیں کرسکتا1992 کے آخری ایام میں پروگریسو یوتھ مؤومنٹ کے صدر منتخب کئے گئے اور بعد ازاں بلوچستان نیشنل مؤومنٹ جس کی سربراہی سردار اختر جان مینگل کررہے تھے، پروگریسیو نیشنل پارٹی کے ساتھ انضمام عمل میں لایا گیا1996 ء کے وسط میں بلوچستان نیشنل مؤومنٹ اور پاکستان نیشنل پارٹی کے انضمام سے بلوچستان نیشنل پارٹی عمل میں لائی گئی 1997 ء میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر سینٹ ممبر بنے۔

اور پارٹی کے پہلے مرکزی کونسل سیشن میں سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے وہ سچے اور بہادر انسان تھے۔ وہ ایک قانون دان سیاست دان اور قابل انسان تھے جسے بلوچستانیوں سے چھینا گیا حبیب جالب جیسے لوگ جو اپنی قوم کو راہ دکھانے کیلئے اپنی قابلیت کی بنیاد پر کردار ادا کرتے ہیں۔ سامراج سے اس سوچ کو ختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس قوم کو شعور دینے کا ذریعہ ختم ہوجائے۔ جہاں بھی ظلم و زیادتی ہوت تھی حبیب جالب بلوچ وہاں پیش پیش ہوتے تھے قانون دانی بہادری دانشوری سیاست کو سمجھنے کیلئے حبیب جالب کو پڑھنا ہوگا شہید حبیب جالب بلوچ پشتو، انگریزی، بلوچ، براہوئی سمیت کئی زبانوں میں مہارت رکھتے تھے۔

حبیب جالب عالمی حالات پر گہری نظر رکھتے ہوئے آئندہ کی حکمل عملی بناتے تھے حبیب جالب ہر قوم سے محبت رکھتے تھے۔ بی ایس او کے مختلف ادوار میں اُن کے ساتھ جیل میں رہا جیل میں اُن کی تربیت کا جو طریقہ تھا یقیناً ایک بڑے لائق اُستاد کا ہی ہوسکتا بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑی اور ریگستانی سرزمین جغفرافیائی سیاسی حاولے سے ایک تاریخی خطہ ہے بلوچستان کی تاریخ میں ناقبل فراموش قربانیوں کی داستانیں بے پناہ ہیں اس سرزمین نے اپنے آبیاری کیلے نڈر فرزندوں کو پیدا کیا اور ہماری انقلابی راہیں آج بھی نظر آتی ہیں۔

اور بلوچ نوجوان اپنے حق خود ارادیت کی منزل پر نگاہ رکھتے ہوئے رواں دواں ہیں بی ایس او، بی این پی اور بلوچ قوہم کا ہر شہید ایک جداگانہ حیثیت رکھنا ہے حمید جان بلوچ کا پھانسی کے پھندے کو چھومتے ہوئے آزادی وطن کا نعرہ لگانا ہو یا مجید بلوچ کا پیٹ پر بم باندھ کر جدوجہد وطن کو رنگین کرنا بلوچ سرفروشوں کی دل آویز کہانی ہے بلوچ قومی کاز کو ایک آواز ایک قوت ہوکر آگے بڑھائیں گے بلوچ قومی تحریک اور بلوچستان کی تاریخ میں رہے گا بلوچستان کے ہزاروں کی تعداد میں فرزندوں نے حکمرانوں کے خلاف لڑ کر اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر ہمیں سرخرو کیا۔

آج اگر یہ عظیم ہستیاں قربانی نہ دیتیں تو ہمارا کوئی قومی تشخص نہ ہوتا یہ ایک فرد کا نام نہیں ہے بلکہ ایک تاریخ اور ایک تحریک کا نام ہے حقوق کی جدوجہد کیلئے ان کی قربانی کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا بلوچستان پر حکمرانوں کی ظلم و زیادتیوں کی طویل داستان اس بات کی گواہی دینا ہے کہ یہاں کے نڈر نوجوانوں نے ہر مشکل و کٹھن دورمیں سماجی نا انصافیوں، قومی نا برابری کے خلاف باطل قوتوں کا دلیرانہ انداز میں مقابلہ کیا ہے اور بین الاقوامی سطح پر بلوچستان کے محکوم و مظلوم قوم کی تحریک برائے حق خود ارادیت کو متعارف کرایا اس خطے پر اگر حکمرانوں کی زیادتیوں کا جائزہ لیا جائے۔

تو صاف ظاہر ہوگا کہ سامراجی حکمرانوں کا طبقہ بلوچستان کے جغرافیائی حوالے سے ان کے اقتدار کو خطرہ لاحق ہے یہی وجہ ہے کہ پورے جنوبی ایشیاء میں بلوچ سرزمین پر سامراجی قوتوں نے ریاستی دہشتگردی کی بنیاد پر اس خطے کی محنت کش اور دھرتی سے محبت کرنے والے عوام کو اپنے وطن سے وفا کی سزا کے طور پر ان کے سینوں کو گولیوں سے چھلنی کردیا اور عوام کی بنیادی حق روٹی کی بجائے گولی، کپڑے کی بجائے کفن، مکان کی جگہ قبرستان عطا کی اور ان کی قومی وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ لوٹ کر لوٹنا تیز کردیا جنہوں نے بی ایس او کے مؤقف کو دنیامیں ظاہر کیا۔

بلوچ قوم بھی مظلو و محکوم ہے اور یہ کبھی برداشت نہیں کرسکتی کہ اس کے ہاتھ کسی مظلو و محکوم قوم پر ظلم کروایا جاسکے بلوچستان کے غیور عوام کے نظریاتی انقلابی بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کی جنگ لڑی تمام شہداء ایک نظریاتی جدوجہد پر یقین رکھنے والے تھے جبکہ دوسرے بلوچستان میں مراعات کی سیاست کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔ بلوچستان میں سیکورٹی فورسز اور اسٹیبشمنٹ اپنی کار ستانیوں کے ذریعے بالخصوص بلوچستان میں اس نام نہاد جمہوری حکومت میں ایک تسلسل کے ساتھ پارٹی کے سیاسی رہنماؤں سیاسی کارکنوں، ہمدردوں کو قتل وغارت گری کا نشانہ بنارہی ہے۔

پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے ممبر میر نورالدین مینگل، بزرگ کامریڈ عبدالخالق بلوچ، سردار نادر گچکی، پارٹی کے مرکزی رہنماء میر ایوب گچکی کے صاحبزادوں مراد جان گچکی، زبیر گچکی، نصیر لانگو، لیاقت مینگل، نواب الدین نیچاری، سفر خان، مولا بخش، ورنا آغا نووز احمد زئی، زاہد حسین بلوچ، ڈاکٹر صالح بلوچ، میر ریاض زہری، بی این پی کے ضلعی صدر میر غلام رسول مینگل کے کمسن فرزند شہید ثناء اللہ مینگل، بی بی شہناز بلوچ سمیت ہزاروں نوجوانوں کو ماورائے عدالت قتل، پارٹی ہمدردوں، دانشور اہل قلم،جان محمد دشتی، حاجی عطاء اللہ محمد زئی، پر قاتلانہ حملے۔

بلوچستان میں خونی کھیل دراصل پارٹی کو بلوچ قومی حق خود ارادیت کی جدوجہد اور قومی تحریک سے دور رکھنے کی ناکام کوششیں اور بلوچ دشمن سوچ کی عکاس ہے۔ آئے روز بلوچ نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں، لاپتہ افراد کی تعداد میں اضافہ اور اغواء نما گرفتاریوں ماورائے عدالت قتل و غارتگری اور گرفتاریوں کے پس پردہ جو عوامل کار فرما ہیں یہ اُن کی خام خیالی ہے کہ اس طرح کے خیالات اورسوچ پر قدغن لگا کر مجموعی طور پر تحریک کو کمزور کرکے سیاسی بیگانگی اور مایوسی کی لہر دوڑا دی جائے۔مادر وطن بلوچستان پر جانیں قربان کرنے والوں کی تحریک کی داستانیں کبھی ختم نہیں ہوسکتیں بلوچستان کے حقوق کیلئے۔

قربانی دینے والوں بابو نواب نواروز خان زرکزئی بلوچ، نواب محمد اکبر خان بگٹی، میر بالاچ مری، بہاول خان، سبزل خان، میر ولی محمد، غلام رسول نیچاری، مستی خان، پسند خان، محمد عمر، حمید جان بلوچ، فدا احمد بلوچ، علی محمد بلوچ نے بلوچستان کے حقوق کیلئے قربانی دی آج اس امر کی ضرورت ہے کہ ہم فخر بلوچستان ار بلوچستان کے عظیم قائد سردار عطاء اللہ خان مینگل اور بی این پی کے قائد سردار اختر جان مینگل کی ولولہ انگیز قیادت میں بلوچستان کے خلاف دیکھنے والے آنکھوں کو نکال دیں اور قوم وطن دوستی کا ثبوت دیں۔

بلوچستان کے ایک عظیم سیاسی رہنماء ممتاز قوم پرست وطن دوست قائد شہید گلزمین حبیب جالب بلوچ کو خفیہ اداروں نے ایک گہری سازشی منصوبے کے تحت اپنے کارندوں کے ذریعے شہید کرکے ہم سے جسمانی طور پر جدا کردیا۔ 14 جولائی 2010 کو ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں سریاب میں اُن کے آبائی قبرستان میں تجہیز و تدفین کی گئی۔
ظلم پھر ظلم ہے بڑھنا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا