کسی بھی معاشر ے میں شعوری اقدار کو بہتر اور مضبوط بنانے کے لیے تعلیم کی افادیت و اہمیت سے انحراف نہیں کیا گیا ہے تعلیم کو زندہ قوموں اور مہذب معاشرے کی بالادستی اس کی عظمت کی علامت تصور کیا جاتا ہے تعلیم یافتہ سماج باحوصلہ، بلند ہمت، انسانی اقدار کا سچا علمبردار مانا جاتا ہے تعلیم کمزور ترین سماج کو طاقتور بنانے میں مثبت کردار ادا کرتی ہے تعلیم کا اصل مقصد یہی ہے کہ پاکیزہ اور صالح افکار سے متصف معاشرے کی تشکیل عمل میں آجائیے تاکہ سماج ہم دردی غمگساری اور خیرسگالی کے جذبے سے معمور ہوعصر حاضر سے ہم آہنگ تعلیمی ضروریات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے تعلیم میں انقلابی اقدامات ناگزیر تصور کی جاتی ہیں۔
پاکستانی معاشرہ تعلیمی نظام میں بے پناہ مسائل کا سامنا کرنا پڑا جس میں یکساں تعلیمی نظام کا نہ ہونا سب سے اہم مسئلہ رہا ہے حکومت پاکستان کی جانب سے آئین کی اٹھارویں ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 25A سال 2010 میں منظور کرایا گیا جس میں پانچ سے سولہ سال تک کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم کے حق کی ضمانت دیتا ہے جبکہ آرٹیکل B37 پائیدار ترقی کا مقصد ریاست سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ عالمی خواندگی کو یقینی بنائے اسی طرح بلوچستان لازمی تعلیمی ایکٹ 2014 عملدرآمد کے لیے ایک تفصیلی قانونی ڈھانچہ فراہم کرتا ہے۔
اٹھارویں ترمیم میں وفاقی حکومت سے صوبوں تک تعلیم کی فراہمی کی ذمہ داری میں پچھلی دہائی کے دوران عوامی پالیسی کے حوالے سے صوبائی حکومت نے تعلیم میں زیادہ سے زیادہ فنڈز مختص کرنے پر آمادگی کا مظاہرہ کیا۔سن 1990ء سے ترقی پذیر ممالک میں پرائمری تعلیم سے محروم بچوں کو بھی قومی دھا رے میں شا مل کیا اور اضافی 120 ملین بچوں نے سکول میں داخلہ لیا لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی میں بھی کافی بہتری آئی ہے ترقیاتی مقاصد حاصل کرنے کے لیے معیاری تعلیم کا حصو ل آسان نہیں ہے نصابی تعلیم میں اصلاحات اور سکالر شپ کے ذریعے غریب طبقے پر توجہ دی جا رہی ہے۔
اکثر ممالک میں پہلے کے مقابلے میں زیادہ بچے پرائمری تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔سیکنڈری فنی و تکنیکی اور اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اگر بہتر مو اقع میسر ہو ں تو کو ئی وجہ نہیں کہ حا صل کر نے اچھی ملازمت اور بہتر روزگار میں کامیابی کے حصو ل ممکن نہ ہو سکے گی ایک رپو رٹ کے مطا بق ترقی پذیر ممالک میں 2011 میں تین میں سے دو بچے سیکنڈری تعلیم میں حصہ لے سکتے تھے جبکہ چار میں سے ایک بچہ اس سے آگے تعلیم حاصل کر سکتا تھا بھرپور عوامی مطالبے اور مستحکم معیشت اور تعلیم کے شعبے میں بہتر ی کے بعد وہ طبقات تعلیم تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں جو پہلے اس سے محروم رہے ہوں۔
یونیسکو کے جاری کردہ 2016 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تعلیمی نظام سرکاری شعبے کے سکولوں میں 75 فیصد بنیادی تعلیم کا نظام شامل ہے جو کہ نجی شعبے کے سکول دس فیصد پر مشتمل ہے جبکہ باقی 15 فیصد دینی مدارس ہیں۔علاقائی تناسب سے صوبہ بلوچستان پاکستان کا بڑا صوبہ اور آبادی کے لحاظ سے چھوٹا ہے تعلیم کی سہو لت کی فراہمی میں بلوچستان کو متنازعہ چلیلنجز کا سامناہے جس میں کم آبادی کثافت، دائمی غربت، کمزور مالی اسطا عت، چھوٹی نجی شعبے اور انسانی وسائل کی رکاؤٹیں بنیادی وجوہات میں عوام کو خدمات فراہم کرنے میں بندشیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی اور قدرتی خطرات خشک سالی۔
سیلاب اور زلزلے بنیادی وجوہات میں تعلیمی سہو لیا ت کو پہنچانے میں صوبے میں بچوں کو حفاظتی ٹیکوں کا فقدان اور خاص طور سے کم شرح خواندگی جو کہ دس سال سے اوپر کی شرح 44 فیصد اور دیہاتی خواتین کی خواندگی کی شرح 17 فیصد ہے جو بہت کم ہے۔ صوبائی تعلیمی بجٹ میں پانچ دفعہ ضافہ ہوا 2009-2010 سے 2019-2020 اسی طرح ٹوٹل بجٹ میں اوسطاً 18 فیصد اضافہ ہوا تعلیمی بہتری کے لیے اس سال حکومت بلوچستان نے اہم پیش رفت کی تعلیم کے شعبے میں اس جدت اور بہتری کے حصول کے لیے 30 ارب روپے کی رقم مختص کی ہے۔
جوکہ اس عزم کا اعادہ کرتاہے موجود حکومت تعلیم کو اولین موقیت دیے رہی ہے اس سال کے اعداد اور شمار کچھ اس طرح ہیں۔ ہائیر و ٹیکنکل ایجوکیشن:مالی سال 2020-2021 میں ہائیر ایجوکیشن شعبے کے غیر ترقیاتی مد میں 11.783 ملین روپے مختص کیے گئے موجودہ دور میں ہائر ایجوکیشن کی اہمیت سے انکار نہیں اگرچہ پچھلی حکومتوں نے ایچ ای سی HEC کے فیصلے کے تحت چند ڈگری کالج میں BS پروگرام کا آغاز کیا تھا لیکن ان کالجز میں متعلقہ شعبوں میں نہ تو کوئی تعیناتی عمل میں لائی گئی اور نہ ہی کوئی فنڈز رکھے گئے اب مو جو دہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ تمام ڈگری کالجز جن میں بی ایس پروگرام جاری رہے۔
ان میں فیکلٹی کی تعیناتی عمل میں لائی جائے گی اور فنڈز بھی فراہم کیے جائیں گے۔ 39 انٹرکالجز کو ڈگری کالج کا درجہ دیا جا رہا ہے اور ان کے لیے 301 ملین روپے غیرترقیاتی بجٹ سے مختص کئے جارہے ہیں تاکہ معیاری BS پروگرام کا آغاز کیا جاسکے۔مالی سال 2020-21 میں صوبے کے 79 ڈگری کالجز میں بہترین تعلیم کے فروغ کیلئے انقلابی اقدامات کیے جا رہے ہیں جس کے تحت ہر کالج میں کمپیوٹر اسمارٹ بورڈ، لائبریری کتب، سائنسی آلات کی فراہمی، انٹرنیٹ کی سہولت، کھیلوں کے سامان وغیرہ کی خریداری کے ایک پیکج ترتیب دیا گیا ہے۔
جس کے لیے 569 ملین روپے فراہم کیے جائیں گے. سائنس اور انگلش مضامین کے اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے کے لیے مالی سال 2020-21مقررہ تنخواہ پر ہنگامی بنیادوں پر ضرورت کے مطابق پڑھانے کے لئے 118.500 ملین روپے رکھے گئے ہے۔گرلز کالجز کا ہائر ایجوکیشن میں ایک اہم کردار ہے اس سلسلے میں حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ پہلے مرحلے میں 19 ڈگری کالجز کے پرنسپلز کو گاڑیاں فراہم کی جائیں گی۔*گرلز کالجوں میں بسوں کی فراہمی:جامعات کے لیے یونیورسٹی فنانس کمیشن کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے جبکہ آئندہ مالی سال 2020-21 میں 8 پبلک سیکٹر یونیورسٹیز کے لیے) (Grant in aidکی مد میں 3.94 بلین روپے مختص کئے ہیں۔
*تمام انٹرکالجو ں کو ڈگری کالج کا درجہ دینا:رواں مالی سال میں تمام کیڈٹ اور ریذیڈنشل کالجز میں بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ایک ارب 29 کروڑ روپے میں 57 کروڑ روپے خرچ کیے گئے جبکہ کیڈٹ کالجز قلعہ عبداللہ، آواران اور خاران میں باقاعدہ کلاسز کا اجراء عمل میں لایا جائے گا ۔نئے مالی سال میں رکھنی ضلع بارکھان میں لورالائی یونیورسٹی کا سب کیمپس قائم کرنے کی تجویز ہے۔ٹیکنیکل ایجوکیشن کے فروغ کے لئے حکومت مزید 2 پولی ٹیکنیک ادارے قائم کرنا چاہتی ہے جس میں پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ دالبندین اور چمن شامل ہیں جس کے لیے آئندہ مالی سال کے دوران 150 ملین روپے مختص کئے۔
ترقیاتی بجٹ:گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ گرلز کالج کوئٹہ کینٹ میں تمام سہولیات سے آراستہ ڈیجیٹل لائبریری کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس کے لیے 50 ملین روپے دوسرے مرحلے میں مزید 5 کالجز میں ڈیجیٹل لائبریری کا قیام عمل 100 ملین روپے مختص کئے گئے۔صوبے میں قائم کالجز میں بیالوجی، کیمسٹری اور فزکس کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ لیبارٹری کے قیام کے لئے 274 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔کوئٹہ کے علاقے حاجی غیبی روڈ شالدرہ میں نئے بوائز کالج کے قیام کے لیے 150 ملین روپے۔پنجگور میں نئے لاء کالج کی تعمیر کے لئے 100 ملین روپے۔
صوبے میں بچیوں کی تعلیم کے لیے مختص اضلاع جن میں (آواران, بارکھان، چاغی، ڈیرہ بگٹی، دکی، گوادر، ہرنائی، جھل مگسی، کچھی، سوراب، قلعہ سیف اللہ، قلعہ عبداللہ،صحبت پور) میں نئے گرلز انٹر کالجز کی تعمیر کے لیے ہر کالج کے لیے 130 ملین روپے۔بوائز کالج سوراب کے لیے 130 ملین روپے اور انٹر کالج ناصر آباد ضلع کیچ کے لئے 100 ملین روپے۔ضلع پنجگور، بارکھان اور قلعہ عبداللہ میں نئے بی ار سی کالج کی تعمیر 500ملین ہر کالج کے لیے۔دالبندن میں بوائز گورنمنٹ پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ کے قیام کے لئے 450 ملین روپے۔
گوادر انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی مکمل فعالیت کے لیے 150 ملین روپے جبکہ اوتھل لسبیلہ پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ کی فعالیت کے لیے 100 ملین روپے۔ضلع چمن اور زیارت میں نئے پولی ٹیکنک کالج کے 200 ملین روپے ہر کالج کے لیے مختص۔مالی سال 2020-21 میں شعبہ تعلیم کے مجموعی ترقیاتی مد میں 9.107 ملین روپے۔
ثا نو ی تعلیم:۔مالی سال 2020-2021 میں فیز ون کے تحت صوبے کے 100 ہائی سکولز میں بہترین تعلیم کے فروخت کے لئے انقلابی اقدامات جاری جس کے تحت ہر سکول میں کمپیوٹرز، اسمارٹ بورڈ، لائبریری کتب، سائنسی آلات کی فراہمی، انٹرنیٹ کی سہولت، کھیلوں کے سامان وغیرہ کی خریداری کے ایک پیکج ترتیب دیا گیا جس کے لیے 22 ملین روپے فراہم کیے جائیں گے۔
سائنس اور انگلش مضامین کے اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے کے لیے مالی سال 2020-2021 مقرر تنخواہوں پر ہنگامی بنیادوں پر ضرورت کے مطابق متعلقہ مضامین پڑھانے کے لئے 89 ملین روپے رکھے گئے ہیں۔ 53 پرائمری سکولوں کی کو مڈل سکول کا درجہ اور 53 مڈل سکولوں کو ہائی سکول کا درجہ دیا جارہا ہے۔GPE پروجیکٹ کے تحت قائم 47 گرلز پرائمری سکولز کو مڈل کا درجہ دیا جائے گا اسی طرح GPEجی پی ای پروجیکٹ کے تحت قائم شدہ 18 گرلز مڈل سکول کو ہائی کا درجہ دیا جائے گا۔ بلوچستان ایجوکیشن سپورٹ پروگرام کے تحت قائم 85 پرائمری سکولز کو مڈل کا درجہ دیا جائے گا۔
مالی سال2020-2021 میں صوبہ بھر میں موجود اسکولوں کی مزید بہتری کے لیے 402.8 ملین روپے اور فرنیچر کی خریداری کے لیے 415 بلین روپے۔مالی سال 2020-2021 میں صوبے کے تمام دور دراز علاقوں کے بچوں کو پک اینڈ ڈراپ کی سہولت کی فراہمی کے لیے بسوں کی خریداری کے لیے 169 ملین روپے مختص کئے گئے ہے۔ صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ‘بلوچستان ایجوکیشن فاونڈیشن’ کے زیر اثر خدمات سرانجام دینے والی کمیونٹی سکولز کے لئے (Grant in aid) کی مد میں دو 295 ملین روپے سے بڑھا کر 409 ملین روپے مختص کئے گئے ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تعلیم کی اہمیت کے پیش نظر بلوچستان بھر کے 450 ہائی سکول میں آئی ٹی ٹیچرز کی آسامیاں تخلیق کی جارہی ہیں۔مالی سال 2020-2021 میں صوبے کی 158 شلٹر لیس سکولوں کو چیف منسٹر ایجوکیشن انسٹیٹیوٹ کی مد میں 1.5 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔ مالی سال 2020-2021 میں اس شعبہ کی استعداد کو بڑھانے کے لیے پرفارمنس مینجمنٹ سسٹم کے لئے 200 ملین روپے رکھے گئے ہیں۔ نئے مالی سال 2020-2021 کے دوران صوبے کے 16 اضلاع کے سکولز میں ڈیجیٹل لائبریریوں کے قیام کے لیے 50 ملین روپے لا گت کا تخمینہ۔
پائلٹ پروجیکٹ کے تحت لورالائی اور تربت کے اضلاع میں نئے مالی سال 2020-2021 کے دوران لڑکیوں کے لئے بورڈنگ(Boarding) سکولز کی تعمیر کے لئے 100 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں.ما لی سا ل 2020-21کیلئے شعبہ ثا نو ی تعلیم میں 1486نئی آسا میا ں کی تخلیق کی گئی ہیں جنہیں بلوچستان پبلک کمیشن اور ٹیسٹنگ سروسز کے ذریعے تقرری عمل میں لا ئی جا ئے گی ۔ما لی سا ل 2020-21میں شعبہ تعلیم سیکنڈری ایجو کیشن کے لئے 51.873بلین روپے مختص کئے گئے ہیں۔دنیا کو جد ید تقا ضو ں کے سا تھ ہم آھنگ کر نے کے لئے تعلیم کی اہم ذمہ داری ہے تعلیمی ضرو ریا ت کو پو را کر نے کے لئے حکو متی اقدا مات اہمیت کے حا مل ہے اور اسی طر ح ہر سال تعلیم پر بھر پو ر تو جہ ہی تعلیمی کمی کو پو را اور بہتر کر سکتی ہے۔