1958ء والی ترکیب؟ نہیں! 1969؟ ارے نہیں صاحب! 1977؟ دوبارہ نہ کہنا! 1999؟سوچنا بھی نہیں! تو پھر؟ یہ میرے یکے بعد دیگرے چار پانچ سوال تھے۔ جو کچھ مجھے جواب میں سننے کو ملا ملاحظہ ہو: “ان کے پاس میرے سوا کوئی اور چوائس نہیں “. یہی میرے ان چند سوالوں کا جواب ہے. یہ جملہ چار پانچ دہائیاں قبل اس وقت کے وزیراعظم نے یوں ادا کیا تھا: “کرسی؟ اور پھر اس نے کرسی کے ہتھے پر زوردار مکہ مار کر کہا تھا: “میری کرسی مضبوط ہے”. پھر پہلے تو کرسی کا ہتھہ ٹوٹا پھر کرسی اپنے نئے کرسی نشین سمیت موضع ٹامیوالی، ضلع بہاولپور کے صحرا میں بکھر گئی:
سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی باقی بتان آزری
اپنی مختصر سی اس (غیر) جمہوری تاریخ میں پھر یہ جملہ بگلے کا گیت (song swan) ثابت ہوا. (خوش)گمانی تقاضا کرتی ہے کہ میں کہہ دوں کہ اس جملے کا نیا ایڈیشن بگلے کا حزن و ملال ظاہر کر چکا ہے کہ اب وہ سرتال یا ان کے بغیر کسی بھی راگ میں اپنا گلا پھاڑے، میز پر(یا شاید ایک پیج پر) پڑی راگ مالا کی کسی بھی طباعت، نئی یا پرانی، میں سے کوئی راگ اس کے کام نہیں آئے گا: ٹھمری، دادرا، کجر ی، دھرپد، ان سب کے بغیر جو بھی بے سری مشق سخن سننے کو ملے گی، چندا! وہ تو قبل از وقت منکشف ہو چکی ہے۔ اختر مینگل کے بعد اب تم سب ایک پیج پر نہیں ہو۔
رام بنائی جوڑ ی ایک اندھا ایک کوڑھی! اور اندھے کو اس دفعہ کوڑھی کیا ملا کہ مل کر انہوں نے دو سال میں ہمارا جو حشر نشر کردیا ہے، اس کے تازیانے شاید ہم برسوں تک اپنی پشت پر سہتے رہیں گے۔ بگلا تو آئندہ ایام میں بیسرے لحن میں کچھ گا بجا کر ماضی کے دھندلکے میں جا چھپے گا۔ادھر اندھے کا خیال ہے کہ کوڑھی کی جگہ شاید کوئی اپاہچ مل جائے گا۔ اور نہ ملا تو۔۔۔۔۔؟ اس تو کے آگے اندھے کے لیے شاید لامتناہی امکانات موجود ہوں کہ وہ تو اندھا ہے یا شاید کچھ بھی نہ ہو کہ وہ تو اندھا ہے۔ لیکن۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔۔ 22کروڑ انفس متبرکہ کا کہنا ہے کہ کسی اور کے پاس کوئی چوائس ہو یا نہ ہو، ہمارے چوائس کے لئے 342 کا عدد ہمارے پاس موجود ہے۔ ان میں سے کسی کو بھی ہم مل کر وزیراعظم بنا دیں گے، بس اندھا ذرا فاصلے پر رہے۔
میں مدت مدید سے سن رہا ہوں کہ ہمارے ملک میں کوئی ففتھ جنریشن وار چل رہی ہے۔ ایک دفعہ پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ جنریشن وار ابھی تک چار ہی ایجاد ہو پائی ہیں۔ ففتھ کا کوئی وجود ابھی تک دنیا کی کسی ملٹری اکیڈمی میں نہیں پڑھایا جاتا۔ یہ جنریشن وار چار ہیں یا پانچ، مجھ پر تو یہ بات شروع ہی سے واضح ہے کہ اس جنگ کا ہمارا دوسرا فریق یہ جنگ ہار چکا ہے۔ اللہ بخشے ماسٹر فضل حسین کو ریاضی کا ایک کلیہ کسی طور پر سمجھ میں نہیں آرہا تھا: ” کھڑے ہو جاؤ”۔ میں کھڑا ہوگیا. “کتنے بھائی ہو؟”. بتایا پانچ. کہنے لگے، ارے او بے دال کے بودم! تم چاروں بھائی مل کر بھی اپنے باپ سے بڑے نہیں ہو سکتے۔
میرے چہرے پر الجھن دیکھ کر لہجے کو ذرا نرم کرتے ہوئے بولے:”دیکھو بیٹا اس میز کی چار ٹانگیں اور اوپر ایک تختہ ہے. یہ چاروں ٹانگیں اور اتنا بڑا تختہ اپنی منفرد حیثیت میں بہرحال میز سے چھوٹے ہی رہیں گے۔ مدتوں بعد مرحوم پروفیسر سید احمد محمود آئین، آئین کے تحت قائم اداروں۔۔۔ عدلیہ، انتظامیہ، مقننہ۔۔۔ میں باہم ربط پیدا کر رہے تھے تو مجھے یہ سمجھنے میں ذرا دیر نہیں لگی کہ ان سب سے مل کر جو شے معرض وجود میں آتی ہے، اسے ریاست کہتے ہیں۔ یہی ان سب کا ابا جان ہے۔ یہی چار ٹانگوں اور ایک تختے والی میز ہے جس کے مالک 22 کروڑ عوام ہیں جن کے مقابلے میں چاروں ٹانگیں, ایک تختہ اور اباجان کے چاروں بیٹے مل کر بھی چھوٹے ہی رہتے ہیں۔ حال یہ ہے کہ ابا جان کے بیٹوں میں سے دیدہ بینا سے محروم ایک پوتے نے اپنی پہلوانی کے زور پر سب کو نتھ ڈال رکھی ہے۔
تقسیم ہند کے وقت ہمارا خواندگی کا تناسب لگ بھگ بارہ پندرہ فیصد تھا، لہٰذا 1958ء کی غیرآئینی مہم جوئی اس وقت کے پچاسی فیصد ان پڑھوں کو راس آ گئی۔ اب تعلیم اور شعورکے ساتھ شتر بے مہار ذرائع ابلاغ کے پیدا کردہ حقوق کے شور نے پڑھے لکھے 22 کروڑ عوام کو بارود کے ڈھیر پر لا کھڑا کر دیا ہے۔ اب کوئی غیر آئینی چنگاری،کوئی غیر دستوری مہم جوئی، کسی پہلوانی کا اظہار، ماضی کی کسی مہم جوئی کا انعکاس یا ہم چوں ما دیگرے نیست کا بے محل ورد اس بارود کے ڈھیر میں وہ آگ لگا سکتا ہے کہ پھر آگ ہی آگ، شعلے ہی شعلے اور انجام کار؟
اس مخلوق میں اگر کوئی دیدہ بینا رکھنے والا رجل رشید موجود ہو تو وہ سماجی رابطے کا بھرپور سروے کرا لے، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ آئین (اٹھارویں ترمیم سمیت) کی موجودگی میں کسی فورتھ یا ففتھ جنریشن وار کا خوف دل سے نکال دے۔ لیکن اگر درون خانہ کچھ پک رہا ہے اور خدشہ ہے کہ کچھ پک رہا ہے تو سماجی رابطے پر، فیس بک پر، ٹوئٹر پر، یوٹیوب پر کرائے گئے اس سروے کے نتائج سامنے رکھ لینا۔ اس جنریشن وار میں جیت ہمیشہ عوام کی ہوا کرتی ہے، دوسرا فریق؟ کسے باشد! ہمیشہ ہار سے ہمکنار، شکست سے بغل گیر اور رسوائی کا ہم سفر ہی ہوا کرتا ہے۔
اور جب منزل آتی ہے تو راکھ، ٹھند ی ٹھار سجی اور سہاگہ! میرے اپنے ہلکے سے جائزے کے مطابق سماجی رابطے پر باشندگان وطن میں سے ساٹھ ستر فیصد افراد غدار اور ملک دشمن ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ تم کتنے بھٹو مارو گے، ہر گھر سے بھٹو نکلے گا۔میں حیران ہوں کہ ملک کی آبادی کے کثیر تناسب کے ساتھ ممکنہ یا موہومہ جنگ کے نتیجے میں دوسرے فریق نے جنگ جیتنے کی آس کیوں لگا رکھی ہے۔