آج کل گوادر کا ایک حصہ چکاچوند روشنیوں کی وجہ سے دلچسپی کا مرکز بنا ہوا ہے جہاں سورج غروب ہوتے ہی روشنیوں کا سفر شروع ہوتا ہے۔ یہ منظر دلفریب نظارے بھی ساتھ لے کر آتا ہے۔جب آپ جناح ایونیو روڈ کو نیوٹاؤن ہاؤسنگ اسکیم میں واقع مونومنٹ کے مغربی جانب کراس کر کے شہر کی طرف وارد ہونا شروع ہوں گے تو سامنے جنوب کی طرف کوہ ِباتیل کے بالکل سیدھ میں ایک دو رویہ سڑک شروع ہوتی ہے۔ یہ سڑک میرین ڈرائیو کہلاتی ہے۔میرین ڈرائیو شہر کے مغربی ساحل پر بنائی گئی ہے۔ اس سے پہلے ساحلی کنارے پر ایک پتلی سڑک بل کھاتی ہوئی گوادر بندرگاہ کی طرف جاتی تھی۔
لیکن سمندری کٹاؤ کی وجہ سے یہ روڈ ہمیشہ نقصان کی زد میں رہا تھا اور سمندر کی بے قابو لہروں کا پانی سڑک پار کر کے کنارے پر واقع گھروں کی گلیوں میں بھی بہتا ہوا نظر آتا۔جب بھی جون اور جولائی میں ہائی ٹائیڈ کا موسم شروع ہوتا تو سمندر کے قریب آبادیوں کو اپنے اوپر سمندر کی بے رحم موجوں کے چڑھ دوڑنے کا خوف طاری ہو جاتا۔ سمندری کٹاؤ کو روکنے کے لیے مغربی ساحل پر حفاظتی پشتے بنانے کے بعد میرین ڈرائیو کا منصوبہ بھی شروع کیا گیا۔یہ منصوبہ ادارہ ترقیات (جی ڈی اے) گوادر کے زیرانتظام 2014 میں شروع کیا گیا تھا جو چار کلومیٹر تک مکمل کیا گیا ہے۔
فی الحال یہ سڑک مقامی طور پر روایتی طریقے سے کشتی بنانے کی صنعت کے مرکز تک تعمیر کی گئی ہے۔میرین ڈرائیو کو دوسرے فیز کے تحت ہاربر کراس تک توسیع دینے کا منصوبہ بھی زیرتجویز ہے لیکن چار کلومیٹر تک تعمیر کی گئی میرین ڈرائیو کے اس حصے کو تزئین و آرائش کے غیر معمولی عمل درآمد کا شاہکار بنایا جا رہا ہے۔میرین ڈرائیو کے بغل میں واقع جی ڈی اے آفس کے سامنے پدی زِر کے نام سے منسوب ایک پارک بھی نو آراستہ کیا گیا ہے۔ میرین ڈرائیو کی شان بڑھانے کے لیے سڑک کے بیچ پہلے سے تیار کھجور کے درخت بھی اگائے گئے ہیں۔ ساتھ ساتھ برقی قمقمے بھی نصب گئے ہیں۔
پارک کے اندر چھوٹی چھوٹی زردی مائل برقی بتیاں بھی روشن نظر آتی ہیں۔پہلے روڈ کے وسط میں لگائے گئے برقی قمقمے اور ملحقہ پارک کے اندر لگائی گئی چھوٹی چھوٹی بتیاں میرین ڈرائیو کا حسن ہوا کرتی تھیں لیکن جب سے ساحل سے ملحقہ فٹ پاتھ پر مزید برقی قمقمے لگائے گئے ہیں تو میرین ڈرائیو کی اہمیت دو چند ہوگئی ہے۔جب یہ بتیاں ٹھاٹھیں مارتی سمندر کی لہروں پر پڑتی ہیں تو یہاں کا حسن مزید نکھرجاتا ہے۔ میرین ڈرائیو کا یہ حسن اور نیا جلوہ سوشل میڈیا کی زینت بھی بن چکا ہے۔ گوادر سمیت ملک کے دیگر شہروں کے شہری اس نظارہ کو خوب سراہا رہے ہیں۔
شام ہوتے ہی یہاں رونقوں کی بہار امنڈ آتی ہے۔ کیا مرد، کیا عورت اور بچے، میرین ڈرائیو کی چکاچوند روشنیوں اور جگمگاتے ساحل کا نظارہ ان کو اپنی طرف کھینچ لاتا ہے۔گوادر شہر کی شان فی الحال یہ چار کلومیٹر میرین ڈرائیو ہے لیکن رات کو یہ چار کلومیٹر روشن سڑک باقی گوادر کی مجموعی ترقی کی آئینہ دار نہیں۔گوادر شہر کے وسط، جنوب اور شمال میں واقع آبادی گوادر شہر کی اس چار کلومیٹر ترقی کے باوجود تشنہ سوال ہے۔ ٹوٹی پھوٹی اور دھول اڑاتی سڑکیں اور خستہ حال گلیوں کی مسافت اس چار کلومیٹر کی حامل میرین ڈرائیو سے کہیں زیادہ ہے۔
دراصل یہی گوادر کی اصل تصویر ہے جس میں رنگ بھرنے کے حوالے سے یہاں کے باسیوں کی آنکھیں ترس رہی ہیں۔یہ چار کلومیٹر سڑک رات گئے تک روشن ضرور رہتی ہے لیکن شہر کے اندر واقع گھروں کے مکین اپنی گھڑیوں پر نظریں جما کر بجلی کے آنے کا انتظار کرتے ہیں۔ بنیادی انفراسٹرکچر کا نظام ابتر ہے اور شہری سہولیات شہریوں کے لیے دہائیوں سے ناپید بھی ہیں۔جی ڈی اے گوادر نے میرین ڈرائیو کی چار کلومیٹر سڑک کو بڑی شان و شوکت سے ڈیولپ کر کے ایک اچھی ابتدا کی ہے اور مغربی ساحل کو جاذبِ نظر بنایا ہے۔ مشرقی ساحل گوادر بندرگاہ کی سرگرمیوں کی وجہ سے مشرقی بائی باس کے تعمیراتی عمل سے گزر رہا ہے۔
وہاں تفریح سے لطف اٹھانے کا گمان تک بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہی غنیمت ہوگی کہ مچھیروں اور سمندر کا لافانی رشتہ برقرار رکھا جائے۔جی ڈی اے کا مینڈیٹ بھی یہی ہے کہ وہ شہر کو جدت کے ساتھ ترقی دے۔ ایک طرح سے جی ڈی اے نے مقامی شہریوں اور باہر سے آنے والے لوگوں کو مثبت تفریح بہم پہنچانے کے لیے اچھی کاوش کی ہے۔میرین ڈرائیو کی چکاچوند روشنی اور سمندر پر بتیوں کی روشنیوں کا منکشف ہونے والا عکس دیکھنے کے لیے میں بھی دوستوں سمیت ساحل پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس اثنا میں ایک بچہ بھی اپنے خاندان والوں کے ساتھ میرین ڈرائیو کا نظارہ کرتے ہوئے جا رہا تھا۔
اس کے پاؤں میں پہنے چپل اس کی غربت اور پسماندگی کو عیاں کر رہے تھے۔بچے کی نظریں کبھی میرین ڈرائیو کی چکاچوند بتیوں پر تھیں تو کبھی وہ سمندر میں پڑنے والی روشنی کو دیکھ رہا تھا لیکن اس کے چہرے کے تاثرات شاید یہ بھی سمجھانے کی کوشش کرر ہے تھے کہ “کیا کنارے کی قربانی کا صلہ یہ چار کلومیٹر سڑک ہوگی یا ترقی کا یہ سفر آگے بھی جاری رہے گا؟ یہ تاثرات من الحیث شہر کی اکثریتی آبادی کے دل و دماغ پر بھی سوار ہیں۔ گوادر کا بڑا نام ہونے کے باوجود اس کے رہائشی اب تک انسانی ترقی کے خواب کی تعبیر کے حصول کے لیے صبر آزما دور سے گزر رہے ہیں، آس اور امیدوں کے بھنور میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔
میرین ڈرائیو وی آئی پی موومنٹ کا بھی مرکز ہے۔ آیا ایسا تاثر تو دینے کی کوشش نہیں کی جائے گی کہ گوادر کی یہ چار کلومیٹر سڑک ہی پورے شہر کی ترقی کی مجموعی عکاس ہے؟ کیا ہی اچھا ہو کہ میرین ڈرائیو کی چار کلومیٹر سڑک کی چکاچوند روشنیوں کے منکشف ہونے والے اس سفر کو گوادر شہر کے ہر گھر کی چوکھٹ پر لے جانے کے اقدامات کو بھی خلوص کے ساتھ مہمیز دینے کی کوشش کی جائے۔کہتے ہیں کہ ترقی کا عمل بے رحم ہوتا ہے اور یہ ہر چیز کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جاتا ہے، جس کے لیے گوادر کی آبادی کو بھی اس تبدیلی کے عمل سے گزرنا پڑے گا۔
ہم کسی بھی تبدیلی کو روک نہیں سکتے لیکن اس کا حصہ بن کر اس کے نتائج سے استفادہ کر سکتے ہیں۔لیکن استفادہ کیسے کیا جائے؟ یہ سوال اہم ہے جس کے لیے منصوبہ سازوں کی نیت کے ٹھیک ہونے کا دارومدار بنیادی مرکزہ ہوگا۔ اب تک آب و سراب نے منزل کا تعین نہیں کیا ہے۔میری ڈرائیو گوادر کا نیا چہرہ بن گیا ہے مگر گوادر کا مجموعی چہرہ بھی روشنیوں کا طلب گار ہے۔