بلوچستان میں جام حکومت کا پہیہ جام کرنے کے لئے اپوزیشن جماعتیں سرگرم ہوگئیں۔ اس سلسلے میں تمام تیاریاں مکمل کی جارہی ہیں۔ سیاسی توڑ جوڑ کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ ایک طرف عیدالضحیٰ میں مویشی منڈیاں سج رہی ہیں تو دوسری طرف بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں سیاسی منڈیاں لگ رہی ہیں۔ ان سیاسی منڈیوں میں قربانی کے جانور نہیں ہونگے، بلکہ منڈی میں صرف ریس میں استعمال ہونے والے گھوڑے ہونگے۔ ان گھوڑوں کے دام لگنے جارہا ہے۔پاکستانی سیاستدانوں میں حرتحریک کا روحانی پیشوا پیر پگارا کے بعد سابق صدر آصف علی زرداری گھوڑے پالنے کے شوقین ہیں۔
آصف علی زرداری ہوت بلوچ قبائل کے امیر ترین ذیلی شاخ زرداری قبیلہ کے سردار بھی ہیں۔حال ہی میں جمیعت علماء اسلام (ف) گروپ کے مرکزی امیر، مولانا فضل الرحمٰن نے سابق صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں جام حکومت کی تبدیلی کے حوالے سے فیصلہ ہوا اور اسی فیصلے کے تناظر میں آصف زرداری نے اپنے قریبی ساتھی قیوم سومرو کو کوئٹہ میں میں ڈیرے ڈالنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ قیوم سومرو کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ گھوڑوں کے بیوپاری ہیں۔ زرداری صاحب نے اپنے دوست بیوپاری کو ہدایت کی کہ وہ کوئٹہ میں قائم گھوڑا منڈی میں گھوڑے خریدنے کا عمل شروع کریں۔
تاہم ان منڈیوں میں کمزور اور لاغر گھوڑے ملیں گے جو ریس کے قابل نہیں ہیں۔دنیا میں گھوڑا اپنی طاقت کی وجہ سے ایک منفرد اہمیت رکھتا ہے۔ اس کی طاقت کی وجہ سے سکندر اعظم نے کم عمری ہی میں یونان کی شہری ریاستوں کے ساتھ مصر، فارس، جہلم تک فتح کر لیا۔ اسی طرح چنگیز خان نے گھوڑوں کے ذریعے ایشیاء سے یورپ تک منگول سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ آج گھوڑا ایک طاقت کی علامت بن چکا ہے۔مارچ 2018 میں راتوں رات بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کی بنیاد ڈلوائی گئی۔ اسکی بنیادیں اتنی مضبوط کردی گئیں کہ 2018 کے عام انتخابات میں باپ پارٹی نے پندرہ نشستیں حاصل کرکے بلوچستان کی سب سے بڑی جماعت بن گئی۔
اور اسی طرح وہ اتحادیوں کے ساتھ ملکر بلوچستان کے مائی باپ ہوگئے۔ بظاہر پارٹی کے بانی جام میر کمال خان ہیں جو موجودہ وزیر اعلیٰ بلوچستان بھی ہیں۔ جام کمال کا تعلق بلوچستان کے ضلع لسبیلہ سے ہے۔ ان کے والد جام میر محمد یوسف اور دادا جام غلام قادر بھی بلوچستان کے وزیراعلیٰ رہے ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ جام حکومت میں اختلافات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ایک دوسرے پر الزامات لگائے گئے۔ کسی وزیر نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا تو کسی مشیر یا معاون کو ان کے عہدے سے برطرف کیا گیا۔
جام کمال خان کا تعلق جاموٹ قوم کی ایک شاخ عالیانی خاندان سے ہے۔ تاریخی طور پر ریاست لسبیلہ کے والی اور وارث ہیں۔ مقامی مورخین کے مطابق، رونْجھا، گْنگا، بْرفت، جاموٹ وقتاً فوقتاً لسبیلہکے حکمران رہے۔اقتدار حاصل کرنے کے لئے گنگوں قبیلہ نے برفتوں کی مدد سے ریاست لسبیلہ پر قبضہ کرلیا اور جاموٹوں کو شکست دے دی۔ شکست کے بعد جام (جاموٹ) اپنے قبیلے کے ساتھ اپنی دوسری ریاست کھیر تھر میں جاکر پناہ لی۔ اس زمانے میں جاموٹ ریاست کھیر تھر کے بھی بادشاہ تھے۔ کھیر تھر کے دامن میں ملیر (کراچی) بھی واقع ہے جسے آج بھی جام بجار کی فیملی کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے۔
جس کو جام آف ملیر بھی کہا جاتا تھا۔ وہ نسلاً جدگال بلوچ ہیں۔ کھیر تھر کے دوسری جانب بھوتانی بلوچ آباد ہیں۔کھیرتھر ایک پہاڑی سلسلہ بھی ہے جو شمال میں سندھ کے ضلع جیکب آباد سے شروع ہوتاہے اور جنوب میں کراچی تک جاتا ہے۔ کھیرتھر پہاڑ سندھ اور بلوچستان صوبوں کی حد بندی بھی کرتا ہے۔کھیر تھر پہاڑی سلسلے میں آج بھی مختلف قبائل آباد ہیں۔ جن میں برفت، گبول، بھوتانی، رند اور دیگر قبائل شامل ہیں۔ سندھی قوم پرست رہنما ڈاکٹر شفیع محمد برفت کا خاندان بھی اسی پہاڑی سلسلے کے باسی ہیں۔ وہ جئے سندھ متحدہ محاذ کے بانی اور موجود چیئرمین ہیں۔ جو آج کل یورپ میں جلاوطنی کی زندگی گزار ر ہے ہیں۔
بعض مورخ لکھتے ہیں کہ جدگال ریاست موجود دشتیار (ایران) سے لیکر موجود کوٹری (سندھ) تک پھیلی ہوئی تھی۔ لسبیلہ بھی اس ریاست کا حصہ تھا۔ ریاست لسبیلہ کی قدیم قبیلوں میں جاموٹ رونْجھا، گْنگا، اور سنگھور قبائل شامل ہیں۔ سنگھور قبیلہ کے علاوہ باقی جاموٹ رونْجھا اور گْنگا کے قبیلے کے لوگ جدگالی زبان بولتے ہیں۔ اور وہ نسلاً بھی جدگال بلوچ ہیں جبکہ سنگھور قبیلے کے لوگ بلوچی بولتے ہیں۔ جام اپنے قبیلے کے ساتھ کچھ عرصے تک ریاست کھیر تھر میں رہنے کے بعد ریاست لسبیلہ کی جانب پیش قدمی کی۔
اس پیش قدمی میں جام کو خان آف قلات کی مدد حاصل تھی۔ طویل جنگ کے بعد جام نے دوبارہ ریاست لسبیلہ کو فتح کیا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ صورتحال میں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کی مدد کے لئے قلات سے بلوچ آئینگے یا پنجاب سے جاٹ اور گجر آئینگے۔ بہرحال جو بھی مدد کے لئے آئیگا۔ وہ بھی تاریخ کا حصہ ہوگا۔ اور تاریخ ایک بے رحم حقیقت ہے جو اپنی آپ کو دہراتی ہے۔