|

وقتِ اشاعت :   November 18 – 2014

عمر کوٹ: سندھ کے قحط زدہ علاقے تھر پارکر میں منگل کو غذائی قلت کے باعث مزید 9 بچے ہلاک ہوگئے، جس کے بعد گزشتہ 49 دنوں میں ہلاکتوں کی تعداد 100 ہوگئی ہے۔ منگل کو چھاچھڑوکے قریب گاؤں عالم سر میں دو جڑواں بچوں سمیت تین بچے اور حیات ہالیپوتو گاؤں میں بھی تین بچے ہلاک ہو گئے۔ سول ہسپتال مٹھی میں دو نوزائیدہ بچے چل بسے جب کہ تحصیل ڈپلو میں بعد ازاں اور بچہ دم توڑ گیا جس کے بعد تھرپارکر میں منگل یعنی آج ہلاک ہونے والے بچوں کی مجموعی تعداد نو تک پہنچ گئی۔ ان ہلاکتوں کی وجوہات غذائی قلت، نمونیا، ڈائریا اور دیگر بیماریاں بتائی جارہی ہیں۔ تھر کے ایک ڈاکٹر نے نمائندہ ڈان نیوز کو بتایا کہ صحت وصفائی کی سہولیات کا نہ ہونا، کم عمری کی شادی، غیر تربیت یافتہ خواتین کے ہاتھوں ڈیلیوری وغیرہ نوزائیدہ بچوں میں صحت کی خراب صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔ مذکورہ ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ بچوں کو اُس وقت ہسپتال منتقل کیا گیا جب وہ اپنی آخری سانسیں لے رہے تھے۔ ایک اورالمیہ یہ ہے کہ صحرائے تھر میں صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تھر کے مردوں کی روزگار کے لیے دیگر علاقوں میں ہجرت کرجانے کے باعث ان کی خواتین کے لیے یہ بہت مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے بیمار بچوں کو بروقت ہسپتال منتقل کرسکیں۔   گزشتہ تین ماہ کے دوران سول ہسپتال عمر کوٹ میں 62 بچے اور 24 بالغ افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ گزشتہ روز بھی تھر پارکر میں غذائی قلت کے باعث 7 بچے ہلاک ہوئے تھے۔ جبکہ رواں برس تھر میں اب تک اب تک 470 سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ گزشتہ روز ڈسٹرکٹ ہیلتھ ڈپارٹمنٹ عمر کوٹ کی جانب سے جاری کیے گئے اعدادو شمار کے مطابق سول ہسپتال عمر کوٹ میں غذائی قلت سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 85 ہے، جن میں سے 60 نومولود بچے ہیں۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ یہ وہ ہلاکتیں ہیں، جو میڈیا میں رپورٹ ہوئیں جبکہ دور دراز کے گاؤں اور نجی کلینکس میں مرنے والے بچوں کی تعداد رپورٹ نہیں کی جا سکی ہے۔ تھرپارکر تقریباً بائیس ہزار اسکوائر کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے، جس کی آبادی تقریباً پندرہ لاکھ کے قریب ہے۔ جبکہ ہر تیسرے برس یہاں قحط پڑنا ایک عام سی بات ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے گزشتہ ہفتے تھر کی صورتحال کے حوالے سے مٹھی میں ایک اجلاس طلب کیا تھا، جس میں متاثرین کو امدادی چیکس دیئے گئے تھے۔