کبھی کبھی ایسے حالات وواقعات سننے یا دیکھنے کو ملتے ہیں کہ مروجہ اصطلاحات میں اضافہ کرکے نئی اصطلاح بنانی پڑتی ہے جیسے کہ ”انتہا پسندی کی انتہا“ اب یہ اصطلاح کس واقعہ کا حاصل ہے آئیے اس پر بات کرتے ہیں۔کراچی کے علاقے لیاری میں واقع ڈی سی ٹی او کیمپس اسکول جو کرن فاؤنڈیشن نامی این جی او کی زیر نگرانی ایک مثالی تعلیمی ادارہ ہے اس ادارے کو مثالی بنانے کے پیچھے برسوں کی انتھک جدوجہد، انمول جذبات اور بیش بہا خلوص کے ساتھ ساتھ میڈم سبینہ کتھری شامل ہیں۔بلا مبالغہ یہ ادارہ تمام تر حوالوں سے اپنا ثانی نہیں رکھتا۔
کرن فاؤنڈیشن درس و تدریس کے علاوہ سال بھر غرباء کی امداد‘ سخت حالات میں خوراک و دیگر اشیاء کی فراہمی میں پیش پیش رہی ہے۔ حال ہی میں اس ادارے نے لیاری کے علاقے کھڈہ مارکیٹ میں ایک رہائشی عمارت کے منہدم ہونے پر متاثرین کی بحالی میں ایک موثر کردار ادا کیا۔ حتیٰ الامکان ایک تعلیمی ادارے کا پہلا مقصد تعلیم کی فراہمی ہے۔ تعلیمی حوالے سے اس ادارے کے اقدامات انقلابی نوعیت کے ہیں جن سے میں خود براہ راست مستفید ہوا ہوں۔ یہاں سرکاری روایتی اور دقیانوسی نصاب کے ساتھ ساتھ بچوں کی ذہنی، جسمانی نشوونما کے لئے نہ صرف قابلِ تعریف اقدامات کیے جاتے ہیں بلکہ خوب سے خوب تر کے غرض سے روز سر جوڑے جاتے ہیں مختصر کہ یہ ادارہ ایک قابل تقلید ادارہ ہے۔
گزشتہ دنوں لیاری میں منہدم ہونے والی عمارت کے متاثرین کی بحالی کے لئے اسکول میں منعقدہ تقریب میں گورنر سندھ عمران اسماعیل مدعو تھے تقریب کا مقصد متاثرین میں امدادی رقم کی تقسیم تھا فلاحی نوعیت کی اس تقریب میں گورنر سندھ کی شرکت قابل ستائش ہے۔ اور انکی فراخدلی کا مظہر بھی۔ مگر تقریب کے دوران ان کی تنگ دلی اور تنگ نظری تب نمایاں ہوئی جب ان کی نظر اسکول کے آڈیٹوریم ہال میں لگے دنیا بھر کے ممالک کے جھنڈوں سے ہو کر بھارت کے جھنڈے پر پڑی۔گورنر صاحب نے ان تمام جھنڈوں کے درمیان بھارت کے جھنڈے کو پا کر نہ صرف غم و غصے کا اظہار کیا بلکہ اسکول انتظامیہ سے جھڈا اتارنے کے لئے بھی کہا!
عمران اسماعیل صاحب چونکہ مہمان بھی تھے اور گورنر سندھ بھی۔ تو ان کا حکم بجا لانا ضروری سمجھا گیا! اور یہ سب ایک ایسے ادارے میں ہوا کہ جس سے روشن فکری، رواداری، امن و محبت کی بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ کبھی کبھی ہم روایات کو نبھاتے ہوئے مستقبل کو داؤ پر لگا دیتے ہیں۔
ان کا جو کام ہے وہ اہل سیاست جانیں
میرا کام ہے محبت جہاں تک پہنچے
جگر مرادآبادی نے ایک شعر میں دنیا بھر میں محبت کے پھیلاؤکا خیال پیش کیا ہے جبکہ میڈم سبینہ کھتری برسوں سے اس فلسفے پر عمل پیرا ہیں ان کے ادارے میں یہ سب ہونا نہ صرف باعث حیرت بلکہ باعث افسوس بھی ہے۔ اس واقعہ کے پیش نظر اسٹیبلشمنٹ کی تنگ نظری اور تعصب کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں۔مقتدر قوتیں پہلے اپنے بیانیے کا اظہارڈھکے چھپے انداز اور غیر محسوس طریقے سے کیا کرتی تھیں مگر اب یہ عالم ہے کہ نصابی کتابوں سے باہر نکل کر سرِعام آڈیٹوریم ہال میں لگے تمام جھنڈوں کے درمیان سے بھارت کا جھنڈا اتار جارہا ہے!
لگتا ہے اب وہ دن دور نہیں جب پاکستان کے بازاروں میں بکنے والے دنیا کے نقشوں اور گلوب میں بھارت نامی ملک نظر نہیں آئے گا!اس انتہا پسندانہ سوچ کے پھیلانے سے کوئی بھی بہتر مستقبل کے خواب نہ دیکھے بلکہ اس سوچ کے ذریعے بچوں اور نوجوان طالب علموں کے مستقبل کو بھی ایک جنگ اور نفرت کی آگ میں دھکیلا جارہاہے۔ جس کا منطقی نتیجہ بعید از قیاس نہیں۔