بلوچستان کے عوام کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لئے آئینی راستہ تلاش کیاجارہاہے۔ اس سلسلے میں ایک آئینی مسودہ تیار کیا جارہا ہے جس کے تحت ضلع گوادر کی ساحلی پٹی پر ایک نیا شہر بسایا جائیگا۔ جہاں جدیدہاؤسنگ اسکیم کے ذریعے غیر مقامی افراد کو بسایا جائیگا۔ بلوچستان کی موجودہ آبادی سے دوگنی آبادی کو بسانے کا منصوبہ تیار کیا جارہا ہے۔اس آئینی مسودے کو ایک چینی فرم اور نیشنل کوسٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے اشتراک سے تیار کیا جارہا ہے۔ آئینی مسودے کوگوادر ماسٹر پلان کا نام دیاگیا۔ یہ فیصلہ اسلام آباد میں قومی ترقیاتی کونسل کے اجلاس میں کیاگیا۔
جس کی صدارت وزیراعظم عمران خان نے کی۔ نیشنل کوسٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی ایک وفاقی ادارہ ہے۔ یہ سارے انتظامی معاملات وفاقی حکومت براہ راست دیکھ رہی ہے۔ اس طرح مکران کوسٹل ایریا کو وفاق کنٹرول کریگا۔ بلوچستان حکومت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔دراصل یہ ماسٹر پلان ترقی دینے کے نام پر بلوچستان کے عوام کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا ایک آئینی و قانونی ہتھیار ہے۔ یہ اقدام قانون سازی کے ذریعے بلوچستان کی سرزمین پر ڈیموگرافک تبدیلی لانے کی کوشش اور بلوچ قومی تشخص کو مٹانے کا ایک منصوبہ ہے۔
اس قانون کے تحت بلوچ اپنی سرزمین پر ایغور بن جائیں گے۔ یہ وہی چینی منصوبہ ہے جس پرچین کے صوبے سنکیانگ میں آباد ایغور مسلمانوں کے خلاف عمل کیاگیا جس کی وجہ سے سنکیانگ میں کئی برسوں سے علیحدگی پسند تحریک جاری ہے جس کے چلانے والوں کا کہنا ہے کہ چین نے وقت کے ساتھ ایغور قوم کی مذہبی، تجارتی اور ثقافتی آزادی سلب کر لی ہے۔ چین مسلسل ایغور علیحدگی پسندوں پر مسلمان جنگجو تنظیموں کے ساتھ روابط کا الزام لگاتا رہا ہے۔ چین کے مطابق ایغور علیحدگی پسند افغانستان میں موجود مسلمان جنگجوؤں سے نظریاتی اور مسلح ٹریننگ بھی حاصل کرتے رہے ہیں۔
لیکن ان الزامات کی حمایت میں چین نے کبھی کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا۔ چین نے کئی دفعہ ایغور آبادی پر کریک ڈاؤن کیا۔ ان کوگرفتار کرکے ٹارچر سیلوں میں رکھاجاتاہے جبکہ کئی دہشتگردی کے الزام سے بچنے کے لیے جلاوطنی پر مجبور ہوگئے۔ چین پر یہ بھی الزام ہے کہ بڑے پیمانے پر باہر سے لاکرغیر مقامی افراد کو سنکیانگ میں بسایا جارہا ہے تاکہ ایغور آبادی کو اقلیت میں بدل دیا جائے۔ایغور کمیونٹی کی زبان ترکی سے مماثلت رکھتی ہے لیکن لسانی اور ثقافتی اعتبار سے وہ خود کو وسط ایشیائی ریاستوں کے زیادہ قریب سمجھتے ہیں۔
صدیوں سے سنکیانگ کی معیشت کا دارومدار زراعت اور تجارت پر ہے جس کا اظہار سلک روٹ پر واقع کاشغر جیسے مصروف شہروں سے ہوتا ہے۔ بیسویں صدی کے اوائل میں کچھ عرصے کے لیے ایغور آبادی نے اپنی آزادی کا اعلان کیا تھالیکن 1949ء میں یہ علاقہ باقاعدہ طور پر حکومت چین کے مکمل کنٹرول میں لایاگیا۔ یہی منصوبہ آج بلوچستان کے ساحلی پٹی پر نافذ کیا جارہا ہے۔ اس کالے قانون کے تحت دنیا کو یہ باور کرانے کی بھی کوشش کی جارہی ہے کہ حکومت مکران کی کوسٹل پٹی پر ایک جدید شہر بنارہی ہے۔ بین الاقوامی معیار کے مطابق ایئر پورٹ، ہوٹلز، ریسٹورنٹس، کشادہ سڑکیں، پانی اور بجلی کے دیگر منصوبوں پر کام جاری ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ گوادر مستقبل میں ایک بین الاقوامی شہر کی حیثیت اختیار کر جائے گااور نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کا اقتصادی لحاظ سے ایک اہم شہر بن جائے گا اور یہاں کی بندرگاہ پاکستان کے علاوہ چین، افغانستان، وسط ایشیا ء کے ممالک تاجکستان، قازقستان، آذربائیجان، ازبکستان، ترکمانستان اور دیگر روسی ریاستوں کے استعمال میں آئے گا جس سے پاکستان کو بیش بہا محصول ملے گا۔ لیکن یہ سارے حکومتی دعوے مقامی افراد کے لئے نہیں ہیں۔ بلکہ ریئل اسٹیٹ بزنس کے نقطہ نظرسے ان منصوبوں پر عملدرآمد کیا جارہا ہے جس سے اشرافیہ کو کھربوں ڈالر آمدنی ہوگی۔ حکومتی ادارے بھی اس اشرافیہ کے برابر کے حصے دار ہیں۔
ریئل اسٹیٹ بزنس سے تعلق رکھنے والے افراد گوادر پورٹ کی تعمیر کے دور میں آئے تھے۔ ریئل اسٹیٹ بزنس سے تعلق رکھے والوں کا اسلام آباد، لاہور، کراچی، فیصل آباد، پنڈی، دبئی سمیت دیگر ممالک سے تعلق ہے۔ مشرف دور حکومت میں چین کی مدد سے گوادر پورٹ کی تعمیرشروع ہوئی۔ یہ پورٹ ایک گرم پانی اورگہرے سمندر کی بندرگاہ ہے۔ یہ پورٹ بحیرہ بلوچ کے سرے پر خلیج فارس کے دھانے پر واقع ہے۔ گوادر بندرگاہ کلیدی مقام آبنائے ہرمز کے قریب واقع ہے جو خلیجی ریاستوں کے تیل کی برآمدات کا واحد بحری راستہ ہے۔
گوادر کے لئے بننے والے نئے ماسٹر پلان پورے ضلع گوادر پر نافذلعمل ہوگا جس میں گوادر شہر، سر، جیوانی، پشکان، گنز، پسنی، کلمت، بسول اور اورماڑہ شامل ہیں۔ یہ ایک خوبصورت اور طویل ساحلی پٹی ہے اس سے قبل ایک پرانا ماسٹر پلان تھا جو صرف تحصیل گوادر تک تھا جس کو ختم کردیاگیا۔ اب یہ نیا پلان ضلع بھر میں نافذ ہوگا۔ضلع بھر سے لاکھوں ایکڑ اراضی حاصل کی جارہی ہے۔ یہ اراضی مقامی افراد کی ملکیت ہیں۔ ان کے پاس مالکانہ حقوق بھی موجود ہیں۔ مقامی افراد کی زمینوں کی ملکیت ان کی مرضی اور علم کے بغیر تبدیل کی جارہی ہے اور انہیں ان کی ملکیت سے محروم کیا جارہا ہے۔
مقامی افراد الزام لگاتے ہیں کہ متعلقہ افسران نے زمینوں کا جعلی ریکارڈ تیار کر کے لاکھوں روپے کمائے۔گوادر میں بنائی جانے والی 70 سے زائد ہاؤسنگ اسکیمیں جعلی نکلی ہیں۔گوادر میں ڈیپ سی پورٹ مکمل ہونے اور سی پیک منصوبے کے باعث ان دنوں وہاں نئی نئی ہاؤسنگ اسکیمیں بنائی جارہی ہیں اور مختلف ناموں سے بنائی جانے والی ہاؤسنگ اسکیموں کے بورڈ شہر کے مختلف علاقوں میں نظر آتے ہیں۔کہا یہ جارہا ہے کہ اس پلان میں بلوچستان حکومت کو اعتماد میں نہیں لیاگیا۔جب بھی صوبائی حکومت کی ضرورت پڑیگی تو وزیراعلیٰ بلوچستان اور وزرا ء کا اجلاس طلب کیا جائیگا۔
اجلاس میں اسٹامپ پیپرز تیار کئے جائیں گے،اور اس پر ان کے صرف دستخط لئے جائیں گے۔ اس دوران فوٹو سیشن ہوگا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ بلوچستان میں ایک ربڑ اسٹیمپ حکومت بنائی گئی ہے۔