|

وقتِ اشاعت :   July 28 – 2020

اخلاق جمع ہے اس کا مفرد خلق ہے اہل لغت نے اس کا معنی عادت کا کیا ہے، اب اخلاق کے معانی ہیں وہ خصلتیں اور عادات جس کو ایک انسان اپناتاہے۔اب اگر یہی عادتیں اچھی ہیں، شریعت کے مطابق ہیں اور اللہ تعالی کی پسندیدہ ہیں تو یہی اخلاق حسنہ ہیں اسی کو خوش خوئی کہتے ہیں،اور جب یہیں عادتیں بری ہوں، شریعت کے خلاف ہوں، اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ ہوں تو اسے بدخوئی کہتے ہیں مختصراً اسے فضائل و رزائل بہی کہاجاتاہے۔کوئی بھی معاشرہ ہو وہ اخلاقیات کے بغیر ترقی نہیں کرسکتی،یہ وہ مسلمہ اصول ہے۔

جس میں اسلام وکفر مسلم و غیر مسلم کا کوئی فرق نہیں ہے۔یہ معاشرہ میں ریڑھ کی ہڈی کا مقام رکھتاہے۔اخلاق انسانی شخصیت کو چار چاند لگادیتاہے، شخصیت کی تعمیر اخلاق فاضلہ اپنانے کے بغیر ناممکن ہے انسان کو حیوان سے جدا کرنے والے چیز اخلاق ہی ہے، کوئی شخص بھی کامل انسان، کامل مسلمان اخلاق حسنہ کے بغیر نہیں ہوسکتا، یہ ہو نہیں سکتا کہ کوئی مسلمان ایمان کا دعویٰ کرے مگر اخلاق سے عاری ہو۔وہ معاشرہ جن کے افراد کرپٹ اور اخلاقی لحاظ سے دیوالیہ ہوں وہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا، اخلاقی لحاظ سے گرے ہوئے لوگ کسی بھی ترقی کے اہل نہیں ہوتے۔

بقول ڈاکٹر انیس احمد صاحب:جب معاشی، سیاسی، ثقافتی اور معاشرتی اشاریے (indicators) یہ پتہ دے رہے ہوں کہ قوم پستی کی طرف جا رہی ہے تو اس کے اسباب کا پتا لگانا ایک معاشرتی فریضہ بن جاتا ہے۔ یہ لازم ہو جاتا ہے کہ دیکھا جائے کہ اخلاقی امراض، یعنی معیشت میں دھوکا اور فریب، سیاست میں آمریت وکنبہ پروری اور بے ایمانی، معاشرت میں حقوق کی پامالی اور رشتوں کا احترام ختم کر دینے اور ثقافت میں رنگ رلیوں اور عریانیت کو ’آرٹ‘ اور’فن‘قرار دے دینے کا بنیادی سبب کیاہے؟

کیا یہ اْس دورِ غلامی کا نتیجہ ہے جس سے مسلمان مغربی سامراج کے تسلط کے دورسے گزرے ہیں، یا یہ فلاح اور کامیابی کے معیارات کوگڈ مڈ کرنے کا نتیجہ ہے، یا مقصدِ حیات کے شعور کا صحیح ادراک نہ ہونے کی بنا ء پر ہے؟ کیا یہ خرابی اچانک رونما ہو گئی ہے، یا مسلم ملت گزشتہ دو سوسال میں جن آزمائشوں سے گزری ہے، اس کا ایک منطقی نتیجہ ہے؟ قرآن کریم نے تاریخ اقوام عالم کے عروج وزوال کے اہم تاریخی نشاناتِ راہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے متعدد اسباب و عوامل کا تذکرہ کیا ہے اور ان کے ذریعے غوروفکر کی راہیں روشن فرمائی ہیں۔

اس سلسلے میں سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ قرآنِ پاک نے معاشی، سیاسی، ثقافتی اور معاشرتی عروج و زوال کااصل سبب اخلاق کو قرار دیا ہے۔ یہ اخلاق انفرادی،خاندانی، معاشرتی اور معاشی و سیاسی سطح پر فیصلہ کن عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔مغربی فکر میں اخلاق کے لیے عموماً دواصطلاحات، یعنی Ethics (اخلاقیات)اورMorality (سیرت، کردار)کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اوّلین اصطلاح فکری اور نظری پہلو کو اور ثانی الذکر اصطلاح اخلاق کے عملی پہلو کو ظاہر کرتا ہے۔ اسلامی روایت میں قرآن کریم اخلاق کی جامع اصطلاح میں نظری اور عملی پہلو کو یک جا کرتے ہوئے سیرت پاک کو اخلاق کی کسوٹی قرار دیتا ہے۔

اس جامع اصطلاح میں عقیدے اورعمل کی بنیاد پر اخلاقی رویے کو انسانی تہذیب اور ثقافت کے عروج و زوال کا بنیادی سبب قرار دیتا اہم تاریخی نشاناتِ راہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے متعدد اسباب و عوامل کا تذکرہ کیا ہے اور ان کے ذریعے غوروفکر کی راہیں روشن فرمائی ہیں۔ہم جس مادی دور میں زندگی گزار رہے ہیں، اس میں ترقی اور عروج کا پیمانہ بیرون ملک میں محفوظ سرمایہ، کاروبار میں خواتین کے قائدانہ کردار، مختصر خاندان، ذاتی مکان اور کار اور مغربی تعلیم کے حصول کو قرار دیا جاتا ہے۔چنانچہ ایک ملک یا قوم کے ترقی یافتہ، کم ترقی یافتہ، یا عدم ترقی یافتہ ہونے کا فیصلہ ’انسانی ترقی‘ کے انھی خودساختہ معیارات پر کیا جاتا ہے۔

ترقی اور استحکام کو ناپنے کے یہ پیمانے سامراجی اقوام اور سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ہیں، جنھیں سرمایہ دارانہ فکر کے علَم برداروں نے اپنے تصورِ حیات کی روشنی میں ایجاد کیا اور خود کو غالب تہذیب قرار دیتے ہوئے تمام دنیا کے انسانوں کو جانچنے کے لیے انھی ’مقدس پیمانوں‘کو معیار قرار دیا۔ ان کی بنیاد پر اقوام عالم کی درجہ بندی کرنے کے ساتھ اقوام عالم کو یہ بات باور کروا دی کہ وہ انھی پیمانوں کی روشنی میں ترقی یافتہ یا ترقی پذیر بن سکتے ہیں۔ اسی معیار کے پیش نظر ان ممالک کی تعلیم، معیشت، سیاست، معاشرت اور ثقافت کو قدیم، غیر ترقی یافتہ قرار دے کر انھیں اس دوڑ میں لگا دیا گیا کہ وہ خود کو مغرب کے سانچوں میں ڈھال کر اپنے مہذب اور ترقی یافتہ ہونے کے زعم میں مبتلا ہوسکیں۔

اس کے مقابلے میں اسلام اخلاق کو ترقی کا پیمانہ قرار دیتے ہوئے یہ اصول پیش کرتا ہے کہ جو اقوام اخلاقی لحاظ سے مستحکم ہوں گی، وہی مادّی ترقی اور خود انحصاری حاصل کر سکیں گی۔ جن اقوام کے اخلاق اچھے ہیں تو ان کو ترقی کی ضمانت دی گئی، اور اگر اخلاق بدتر،ناپسندیدہ اور باطل ہیں تو انھیں متوقع تباہی و بربادی سے آگاہ کرنے کے لیے ماضی سے ایسی مثالیں پیش کی گئیں جنھیں کوئی فرد بھی جو دوآنکھیں اور دماغ رکھتا ہو، رد نہیں کر سکتا۔چنانچہ حضرت داؤد علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام نے جن اصولوں کو اپنایا، ان کے نتیجے میں تجارت، کاشت کاری،صنعتی ترقی، لوہے۔

اور فولاد سے تیار کردہ ہتھیار وغیرہ اورغلے کی پیداوار میں فراوانی اور دولت میں کثرت پیدا ہوئی۔ اگر حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم نے ناپ تول میں کمی کی، وعدوں کو پورا نہیں کیا،اور حضرت لوط علیہ السلام کی قوم نے اپنے خاندانی اخلاق کو ایک ایسے عمل سے تباہ کر دیا جس کا ارتکاب اس سے پہلے کسی انسان نے نہیں کیا تھا، تو اللہ کا غضب اور عذاب ان پر نازل ہوا۔ ان کے تعمیر کردہ محل،اس زمانے کی ایمپائر سٹیٹ بلڈنگیں اور وائٹ ہاؤس اور آزادی کے علامتی مینارزمین بوس ہوکر خاک میں مل گئے۔ ان کی ما دی عظمت ان کے کسی کام نہ آئی اور تباہی کو نہیں روک سکی۔

ترقی اور خوش حالی کے لیے اسلام نے جس چیز کو معیار اور بنیادی پیمانہ قرار دیا، وہ انسان کا اخلاق ہے، جس کے ثمرات کے طور پر ذاتی زندگی میں تزکیہ اور انسانی معاشرے میں تعاون، اخوت، عدل وانصاف اور حقیقی خوش حالی رْونما ہوتے ہیں۔ حلال و حرام کے فرق کو سمجھتے ہوئے صرف حلال روزی کو اختیار کرنا اور خصوصاً خود انحصاری کی پالیسی اختیار کرنا،انفرادی سطح پر اپنے ہاتھ سے روزی پیدا کرنا___ یہ تصورِاسلامی، اسلامی ثقافت میں ایسی روایت بن گئی کہ کہ دورِ زوال کے کئی حکمران اس پر کاربند نظر آتے ہیں۔

ایسے فرماں روا مثالی اسلامی نظام حکومت سے انحراف کرچکے تھے اور خلافت کے بجاے بادشاہت جیسی حکمرانی کے مرض میں مبتلا تھے، اس کے باوجود اپنے ہاتھ سے قرآن کریم کی کتابت کر کے جو رقم ملتی، اسے اپنی ذات پر خرچ کرتے۔ گو ان کے سیاسی معاملات مکمل طور پر اسلامی اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتے تھے، لیکن پھر بھی ان کی زندگی دوسرے اربابِ اقتدار سے بڑی مختلف تھی۔برعظیم میں اورنگ زیب عالم گیر اور دور عثمانی کے کئی بادشاہ اس کی مثال پیش کرتے ہیں۔دورِ حاضر کے معاشی نظام اور معاشی ترقی کا بڑا انحصار سودی لین دین پر ہے۔

وہ تجارت ہو یا صنعت و حرفت، فرد ہو یا ادارہ اپنے کارو بار کے آغاز کے لیے کسی بنک سے قرض لینے کو ایک بنیادی ضرورت سمجھ کر کام کا آغاز کرتا ہے۔ پھر ساری عمر سود کی مقررہ شرح ادا کرنے کے لیے بھاری نفع پر اشیاء فروخت کر کے ایک جانب سود کی اقساط ادا کرتا ہے ساتھ ہی صارفین کو اضافی نرخ پر اشیاء فراہم کر کے اپنی ذاتی دولت میں اضافہ کرنا اپنا حق تصور کرتا ہے۔بظاہر مادہ پرستی پر مبنی نظام پھلتا پھولتا نظر آتا ہے لیکن 2008کے عالمی معاشی بھونچال نے یہ بات ثابت کردی کہ سرمایہ دارانہ نظام کھوکھلا ہو چکا ہے اور اشتراکیت کے بعد اب اس کی مکمل تباہی کی باری ہے۔

2008 میں دنیا کے 100سے اْوپر معاشی مراکز میں اس نظام کے خلاف اسی نظام کے پروردہ افراد نے مظاہرے کیے اور عالمی منڈی میں بینکوں، تعمیراتی کمپنیوں اور معاشی اداروں نے اپنے کنگال ہونے کے کاغذات داخل کر کے اس نظام کے ناکام ہونے کے ناقابلِ تردید ثبوت فراہم کر دئیے۔مادیت اور ذاتی افادیت پر مبنی اس سرمایہ دارانہ نظام کی جگہ اسلام جو نظام تجویز کرتا ہے وہ اخلاق کے اعلیٰ اصولوں، صدق شعاری، امانت و دیانت، پاسداریِ عہد،اشیا کی معیاری ضمانت (Assurance Quality)اور عدم استحصال کو معاشی پالیسی کے ستون قرار دیتا ہے۔

اس کے ساتھ ہی معاشرے میں ترقی کے لیے خاندان کی اخلاقیات کو بنیاد قرار دیتا ہے۔انفرادی اور اجتماعی ہردو سطحوں پر یہ نظام خود انحصاری کا علَم بردار ہے۔قرآن کریم انبیائے کرام کے معاشی معاملات میں خود انحصاری اختیار کرنے کی مثالیں دے کر سمجھاتا ہے کہ صیحح رویہ کون سا ہے؟حضرت نوح کا کشتی سازی (Building Ship) کی صنعت کو نقطہ کمال تک پہنچانا اور حضرت داؤد کا فولاد سے زِرَہ، تلوار، ڈھال اور دیگر آلات کا تیار کرنا خود انحصاری کی اعلیٰ مثالیں ہیں۔

قرآن کریم ہمیں بار بار یاد دہانی کراتا ہے کہ دنیا میں ترقی اور آخرت میں کامیابی کا اگر کوئی درست طریقہ ہے تو وہ صرف قرآنی اخلاق اور اسوہ حسنہ کی پیروی ہے۔چنانچہ ماضی کی اقوام نے جب بھی اللہ تعالیٰ کے نازل کیے ہوئے اصولوں کی خلاف ورزی کی، وہ تباہی کے گڑھے میں جاگرے۔