بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بلوچ اسٹوڈنٹس نے اپنی مدد آپ کے تحت لائبریریوں کا قیام عمل میں لایا، جن میں سوراب پبلک لائبریری کے علاوہ دالبندین، وڈھ، نال، حب، آواران، گدر، سمیت بہت سارے پبلک لائبریریاں شامل ہیں،جہاں لوگوں کو لائبریری کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے وہاں لائبریری کیلئے کوششیں جاری ہوتی ہیں، بامقصد لوگ اپنے لائبریریوں کوبہت اہمیت دیتے ہیں، اگر ہمارے کتب خانے رات دیر تک کھلے رہیں گے تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی۔“ یہ خوبصورت جملہ مشہور برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل نے کہا تھا۔
مسٹر چرچل نے یہ جملہ تب ادا کیا جب ان کی افواج دوسری جنگ عظیم کے دوران ہٹلر سے برسرپیکار تھیں۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسٹر چرچل ایسے نازک موقعے پر اپنی افواج یا ہتھیاروں پرناز کرتے، مگر اس کے بجائے انہوں نے کتب خانوں پر فخر کیا اور انہیں طاقت کا مرکز قرار دیا۔ بلاشبہ عظیم قومیں اپنے علمی سرمایے کی اہمیت سے بخوبی واقف ہوتی ہیں۔عہد قدیم سے لے کر جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور تک کتب خانوں کی اہمیت میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ کتب خانے ہر دور میں انمول رہے ہیں۔
قدیم دور میں بادشاہ اپنے کتب خانے کی چابیاں اپنے پاس رکھتے تھے گویا وہ لائبریرین بھی ہوتے تھے۔ ماہرین آثارقدیمہ کو دنیا بھر میں جہاں بھی کھدائی کے دوران اگر کسی متمدن تہذیب کے آثار ملے ہیں تو اس میں لائبریری کے آثار ضرور شامل رہے ہیں۔ مسلمان بھی کتب اور کتب خانوں کے شیدائی رہے ہیں۔
بلوچستان یونیورسٹی میں لائبریری سائنس ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر طاہر بلوچ ایک بہت مشہور واقعہ بیان کرتے ہیں کہ علمی لحاظ سے مسلمانوں کے عروج کے دور میں کتابوں کی کسی دکان پر ایک بہت ہی خوبصورت کتاب رکھی تھی۔
جس کے سرورق پر نہایت خوبصورت نقش و نگار بنے تھے۔ وہاں موجود دو گاہکوں نے کتاب میں دلچسپی لی، اور وہ دونوں ہی یہ کتاب خریدنے کیلیے بضد تھے۔ ان دونوں نے کتاب کیلیے اس کی قیمت سے کئی گنا زیادہ بولی لگا رہے تھے کیونکہ دونوں ہی اس کتاب کو اپنی اپنی لائبریری کی زینت بنانا چاہتے تھے۔ بالآخر ایک شخص اس لئے دستبردار ہوگیا کیونکہ وہ اس سے زیادہ قیمت ادا نہیں کرسکتا تھا۔ اس کے علاوہ اس وقت لوگ اپنے گھر کی زیب و زینت میں کتابوں کو اہم مقام دیتے تھے۔
کتب خانوں کی اہمیت میں کبھی کمی نہیں آئی۔ آج بھی دنیا کی معلومات کا صرف 20 فیصد حصہ انٹرنیٹ پر موجود ہے جبکہ 80 فیصد حصہ اب بھی کتابوں میں درج ہے۔ ان معلومات کو حاصل کرنے کا واحد ذریعہ کتب خانے ہیں۔ دور جدید میں جہاں انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ایک انقلاب برپا کیا ہے جبکہ کتب خانوں نے بھی آئی ٹی کو اپنے اندر سمو کر اپنی کارکردگی کو مزید بہتر بنایا ہے۔ بیشتر کتب خانے انٹرنیٹ استعمال کرکے الیکٹرونک کتب یا ڈیجیٹل لائبریریز کے ذریعے اپنے قارئین کو گھر بیٹھے خدمات فراہم کررہی ہیں۔
معاشرے میں کتب خانے ذہنی اسپتال کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہاں روزمرہ کی زندگی کی بھاگ دوڑ سے بیزار لوگ چند لمحے سکون کے پالینے کیلیے بھی آتے ہیں۔ خاموش اور پرسکون ماحول میں بیٹھ کر اپنی پسند کی کوئی کتاب پڑھنا بھی گویا غنیمت ہے۔ لائبریری اسٹاف، اس بات سے قطع نظر کہ اس کا قاری کس زبان، رنگ و نسل سے تعلق رکھتا ہے، بلاتقریق سب کی خدمت کرتا ہے۔
باقی دنیا کی نسبت ہم پاکستان کی بات کریں تو بدقسمتی سے یہاں لائبریریز کو استعمال کرنے کا رواج بہت ہی کم ہے۔ ہمارے برعکس یورپ میں آج بھی کتاب دوستی اپنے عروج پر ہے۔ سفر کے دوران اگر انہیں کسی سگنل پر پانچ منٹ رکنا پڑے تو اس وقت وہ اپنی پسندیدہ کتاب کے مطالعے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ اگرچہ ہم یورپ اور امریکا کی ترقی کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور بارہا یہ گلہ بھی کرتے ہیں کہ وہ لوگ ہم پر راج کیوں کر رہے ہیں۔ مگر حقیقت میں ان جیسا بننے کی کوشش کبھی نہیں کی۔ کوئی شک نہیں کہ انہوں نے یہ سب اپنے علم کی بدولت حاصل کی ہے۔
جس میں ان کے کتب خانوں کا بہت بڑا کردار ہے۔ زیادہ دور نہیں، اٹھارویں اور انیسویں صدی میں جب ہم خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے، تب وہ لائبریری آف کانگریس، برٹش میوزیم اور ان جیسی دیگر عظیم لائبریریز بنارہے تھے جو آج کے زمانے میں دنیا کی سب سے بڑی لائبریریوں میں شمارہوتی ہیں۔اگر پاکستانی قوم کو اب ترقی کرنا ہے تو اپنے تعلیمی اداروں اور کتب خانوں کی حالت بہتر بنانا ہوگی، تب جاکر ہم ترقی یافتہ اقوام کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا سکتے ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پھر سے کتابوں اور لائبریریوں سے اپنا ٹوٹا ہوا رشتہ دوبارہ استوار کیا جائے۔
جتنا وقت ہم سوشل میڈیا کو دیتے ہیں، اگر اس سے آدھا وقت بھی کتابوں کے مطالعے اور لائبریریز کو دیں تو غنیمت ہے۔ اپنے بچوں میں کتب بینی کا شوق پیدا کرنے کیلیے بازار سے کھلونے خریدتے وقت انہیں کتابوں کی دکانوں پر بھی لے کر جانا چاہیے تاکہ انہیں بھی کتب بینی کی طرف راغب کیا جاسکے۔ ایسی کتابیں جو آپ کی ضرورت کی نہ ہوں، انہیں ضرورت مند لوگوں میں تقسیم کردینا چاہیے تاکہ کسی کے کام آسکیں۔
دوستوں اور رشتہ داروں کو خوبصورت تحفہ کتاب کی صورت میں دیا جائے۔ جن علاقوں میں پبلک لائبریریز موجود ہیں ان کو زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جانا چاہیے؛ اور جہاں پبلک لائبریریز نہ ہوں وہاں حکومت کی توجہ دلانے کیلیے بھرپور کوشش کرنی چاہیے کیوں کہ ”لائبریری لیجسلیشن ایکٹ“ کے تحت ہر پانچ ہزار کی آبادی کیلیے ایک پبلک لائبریری لازمی ہونی چاہیے۔