ہمارے موجودہ حالات پر ایک دانشور نے کیا خوب کہا تھا اور اس میں جو کہا نی تھی اسکے مرکزی کردار مولوی اور مولو تھے مولو ہمارے اس دانشور اور مصنف کے گاؤں کا مولابخش ہے اور اسکے پاس ایک خر ہے فارسی زبان میں جس کے معنی گدھے کے ہیں اور یہ خر مولابخش مولو کی سیٹی پر چلتا ہے۔مولو،اسکے گدھے اور ہمارے نظام کی کہانی میں بڑی مماثلت ہے اور ظفر معراج نے ایسا کیوں کہا اس پر تحریر کے آخر میں بات کرتے ہیں۔ ویسے آجکل بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے ایک ایسا ایشو میڈیا میں اہم ہے جس پر ہر جماعت کا بیان ایک جیسا ہے۔
جی ہاں بات ہو رہی ہے اس معاملے کی جہاں چاہے قوم پرست ہوں یا وفاق پرست، آزاد امیدوار ہوں یا قبائلی معتبرین سب اس ایک معاملے پر ایسا پریس ریلیز جاری کررہے ہیں جس پر صرف جماعت یا سیاستدان کا نام بدل لیں بیان کا سیاق و سباق بدلنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آخر کو ماجرا کیا ہے، ایسا کیا ہو گیا جہاں نیشنل پارٹی، بی این پی مینگل کیخلاف نہیں،بلوچستان عوامی پارٹی بھی اس اقدام کا سہرا اپنے سر سجانے پر بہت خوش ہے، وہیں جے یو آئی ایف بھی خوشی کے شادیانے بجا رہی ہے۔ ہاں جی معاملہ ہے ہی کچھ ایسا، بلوچستان عوامی پارٹی نے سینیٹ میں ایک متفقہ قرار داد منظور کروائی ہے۔
جس پر بلوچستان تو کیا ملک کی کسی بڑی قومی جماعت نے بھی اعتراض نہیں کیا۔ وہ قرارداد جی ہاں وہ قرار داد ہے بلوچستان اسمبلی کی نشستوں کو پینسٹھ سے بڑھا کر اسی کرنے کا۔اب بلوچستان میں ایسے لوگ تیاریوں میں لگے ہیں کہ بس جی معاملہ ہوگیا سیٹیں بڑھیں گی اوروہ بلوچستان اسمبلی کے رکن بن جائینگے، بہت سوں نے تو نیا حلقہ بھی سوچ لیا ہے جہاں سے منتخب ہو کر وہ بلوچستان اسمبلی میں پہنچ جائینگے ان میں سب سے بڑی تعداد ان ہارے ہوئے جواریوں کی ہے جو گزشتہ انتخابات میں مات کھائے بیٹھے ہیں، جو سب کچھ لٹا کر ایک اور داؤ کھیلنے کا سوچ رہے ہیں۔
اور انہیں لگتا ہے کہ یہ قرار داد تو بنی ہی انکے لئے ہے کچھ ایسے بھی ہیں جو اس قرار داد یا قانون سازی کو اپنی تیس یا چالیس سالہ سیاست کا انعام سمجھ رہے ہیں جسکے بعد اب بس انتخابات ہونگے اور وہ بلوچستان اسمبلی کے رکن بن جائینگے اور ہاں بلوچستان کی سیاست میں ایک ایسا گروپ ہے جنہیں الیکٹ ایبلز کہا جاتا ہے وہ سوچ رہے ہیں کہ ان سیٹوں پر اپنے کسی قریبی عزیز کو کیسے ایڈجسٹ کیا جائے، کیوں کہ کسی کا دل نہیں چاہتا اپنا سیٹ اپنے بھائی تو کیا اپنی اولاد کو بھی د ے دے لیکن جہاں تک میری رائے ہے کہ یہ ایک ایسے مطالبے کا ابتدائی رونا دھونا ہے۔
جس پر فی الفور عملدرآمد ممکن نہیں ہے۔ جیسا کہ میری بیٹی ہانی طویل عرصے سے ایک خواہش کا اظہار کرتی ہے کہ اسے گھر میں ایک بلی کا بچہ، ایک بکری کا بچہ،ایک کتے کا پلا اور کچھ پرندے رکھنے ہیں لیکن ہمارے گھر کا موجودہ سسٹم یا حالت اس بات کی اجازت نہیں دے رہی، ایک فلیٹ میں یہ سب عیاشیاں یا شوق پورے کرنا ممکن نہیں تو ہم اسے بہلانے کوحامی بھرلیتے ہیں لیکن عملدرآمد کیلئے تیار نہیں ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اس قرار داد یا قانون سازی کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے ویسے ہماری سیاست میں کچھ خارج از امکان بھی نہیں ہے۔
ہمارے صحافی دوست عدنان عامر نے فرائیڈے ٹائمز میں اپنی ایک اسٹوری میں دلچسپ دعوٰی کیا ہے کہ اس قرار داد کے پیچھے چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی خصوصی دلچسپی ہے کیونکہ ایک سال بعد وہ چئیرمین سینٹ کی سیٹ پر میعاد پوری کرلینگے جسکے بعد وہ آئندہ انتخابات سے قبل اپنے علاقے چاغی میں ایک نیا حلقہ بنانا چاہتے ہیں تاکہ وہاں سے انتخاب لڑکر وہ بلوچستان اسمبلی کے رکن بنیں۔ایک دوست نے تو انہیں دو ہزار تئیس کے بعد وزیر اعلٰی بلوچستان یا پھر نئی ممکنہ مسلم لیگ کے سربراہ کے طور پر بھی دیکھنا شروع کردیا ہے۔
چلیں کوشش کرنا سب کا حق ہے مطلوبہ نتائج کا حصول اتنا آسان بھی نہیں ہے لیکن میں ذاتی طور پر یہ جانتا ہوں صادق سنجرانی نے سیاست آصف علی زرداری سے سیکھی ہے اور وہ کسی کام کو چھوٹا یا بڑا نہیں سمجھتے ہیں اسلئے وہ دو بار بغیر منتخب ہوئے پاکستان پیپلزپارٹی کے دو ہزار آٹھ کے بعد بننے والی حکومت میں وزیر اعظم کے مشیر تھے اور دو ہزار تیرہ کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کے دور میں بھی نوازے گئے ہیں۔ گو کہ وہ ان دونوں ادوار میں انتخابی سیاست کے زیادہ قریب نہیں رہے لیکن ہیں بڑے خوش نصیب صرف دس سے پندرہ سالوں کی جدوجہد نے انہیں چئیرمین سینیٹ کی مسند پر لا بٹھادیا ہے۔
جو ملک میں جمہوری انداز سیاست میں تیسرا بڑا عہدہ ہے، جہاں حاصل خان بزنجو طویل سیاسی سفر کے بعد بھی پہنچنے میں کامیاب نہ ہوسکے لیکن یہاں میں حیران ہوں پچھلے پندرہ سالوں میں جس پینسٹھ کے ایوان میں ایک ڈھنگ کا وزیر اطلاعات نہ مل سکا ہو اس پارلیمنٹ میں اگر ان جیسے اراکین کی تعداد اسی بھی ہوجائیگی تو کیا فرق پڑ ے گا۔ نظر دوڑاتے ہیں کچھ باتوں پر یاد رکھیں موجودہ سیاسی یا انتظامی نظام میں کسی بھی حکومت کا فیس یا چہرہ اسکا محکمہ اطلاعات یا وزیر اطلاعات ہوتا ہے اس شعبے میں کارکردگی پر نظر دوڑائیں تو حالات پچھلے دس پندرہ سالوں میں کچھ یوں ہیں۔
میں نے اپنی صحافت کے آغاز میں جام یوسف مرحوم کے دور میں رازق بگٹی کو دیکھاجو حکومت کے دفاع کیلئے میدان میں اترتے تھے گویا ہاؤ س میں موجود تمام اراکین تمام مزے لوٹنے کیلئے ساتھ ہونگے لیکن سخت گفتگو کرکے مخالف گروہ کیساتھ بیٹھے اپنے کسی رشتے دار یا قریبی عزیز کو ناراض نہیں کرینگے اور ریاست کا بیانیہ عوام تک پہنچانا تو انکی ذمے داری ہی نہیں ہے وہ صرف رکن بنے ہیں اور انکا حق ہے کہ وہ ایم پی اے فنڈ لیں۔ اسکے بعد نواب اسلم رئیسانی کے دور میں گو کہ کوئی ترجمان بلوچستان حکومت نہ تھا لیکن یونس ملازئی وزیر اطلاعات تھے اس محکمہ میں انکی دلچسپی صرف اتنی تھی کہ معلوم نامی ایک نامعلوم اخبار کے مالک ضرور بن گئے، مجھے یاد نہیں کہ انہوں نے اپنے پونے پانچ سالہ دور وزارت میں کبھی کوئی پریس کانفرنس بلائی ہو ویسے تھے۔
بڑے خوش نصیب،اس دور میں بلوچستان میں کوئی اپوزیشن نہیں تھی اسلئے یونس ملازئی وزیر اطلاعات کیسے تھے نہ انہیں پتہ چلا نہ قائد ایوان کو نہ ہم صحافیوں کو پتہ چل سکا۔ ڈاکٹر عبدالمالک کے پاس ایک بہترین سیاسی سوچ رکھنے والی فوج تھی لیکن ترجمانی کیلئے انہیں پارٹی کے تھنک ٹینک یا پھر غیر منتخب رکن جان محمد بلیدی پر اکتفاء کرنا پڑا گو کہ اس حکومت میں سرفراز بگٹی نے بحیثیت وزیر داخلہ جان محمد بلیدی کے کاندھوں کا بوجھ کافی کم کئے رکھا جس محاذ پر مرحوم رازق بگٹی جام یوسف کے دور میں ون مین آرمی تھے وہیں ڈاکٹر مالک کے دور میں اس محازذپر سرفراز بگٹی نے ہمت دکھائی اور ریاست مخالف بیانیئے کو جواب دیتے رہے۔
پھر نوا ب ثناء اللہ زہری اور قدوس بزنجو کے دور میں یہ ذمے داری انوار الحق کاکڑ کے ذمے آئی او ر انوارالحق کاکڑ نے اس ذمے داری کو ایسے ہی نبھایا جو کہ وقت کی ضرورت تھی۔موجودہ دور حکومت میں جام کمال کابینہ میں بطور سزا ظہور بلیدی کچھ عرصہ وزیر اطلاعات رہے تاہم وہ اپنی اس ذمے داری سے جان چھڑا کر بھاگے اور پھر وزارت خزانہ پہنچ کر کچھ پر سکون ہوئے،آجکل یہ ذمے داری نوجوان سیاسی کارکن لیاقت شاہوانی کے پاس ہے اور ماضی میں نیشنل پارٹی کا حصہ رہے ہیں تو کام کے معاملے میں جان محمد بلیدی سے کچھ متاثر ہیں، انکے حصے کا کچھ کام اب بھی ضیاء لانگو کرتے نظر آتے ہیں۔
لیکن کم از کم لیاقت شاہوانی سے موجودہ اپوزیشن اتنی ہی نالاں ہے جتنے کہ کچکول علی ایڈوکیٹ کسی زمانے میں رازق بگٹی سے تھے لیکن لیاقت شاہوانی کی رسائی وہاں تک نہیں جہاں تک مرحوم رازق بگٹی کی ڈائیریکٹ ڈائیلنگ تھی اور واقفان حال بتاتے ہیں کہ رازق بگٹی اگر مارے نہ جاتے تو جام یوسف حکومت کی مدت پوری کرنے پر صوبے کے نگراں وزیر اعلٰی بھی بن سکتے تھے۔اور تو اور انہی پندرہ سالوں میں صحت کے محکمے کیساتھ ہم نے کیا مذاق کئے انہیں بھی دیکھ لیں،بلوچستان کا صوبائی وزیر صحت کبھی مدرسے کے فارغ التحصیل حافظ بنے۔
تو کبھی ایک زمانے کے ڈسپینسر کو وزیر صحت بنا دیا گیا اور رہی سہی کسر تبدیلی کی دعویدار جماعت نے اپنے پرانے کارکن کو نواز کر پوری کردی لیکن داد دینی پڑیگی جام کمال کو جلد یا بدیر انہوں نے وزارت صحت سے تحریک انصاف کے اس تبدیلی کے علمبردار وزیر صحت میر نصیب اللہ مری کو فارغ کیا لیکن یہ سوال تاحال حل طلب ہے کہ تبدیلی کے علمبردار وزیر کو فارغ کرنے کا یہ اقدام کیوں اٹھا یا گیا۔
(جارہی ہے)