حضرت انسان کو اللہ نے پیدا کیا اس کو سارے مخلوقات پر فوقیت دیکر اشرف المخلوقات بنایا، اس کے لئے آسمان اور زمین کے چیزوں کو مسخر کیا،اس کے لئے رزق کے وسائل بھی پیدا کئے، اللہ ہی اپنے مخلوق کو اور ان کے حوائج کو بہتر جانتاہے۔روئے زمین پر اور اسی طرح سمندروں، بحروں اور دریاؤں میں لاکھوں قسم کے کروڑوں کی تعداد میں حیوانات رہتے ہیں،انسان تو درکنار، اللہ نے ان سب حیوانات کو بھی رزق بہم پہنچانے کا عجیب وغریب سسٹم قائم کیا ہے۔حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر نبی تھے، حضرت داؤد علیہ السلام کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ نبی تھے۔
اور داؤد علیہ السلام کے بیٹے تھے۔حضرت داؤد علیہ السلام کی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو بھی بہت سے معجزے عطا کر رکھے تھے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو جب بادشاہت عطا کی گئی تو وہ رب کے حضور یہ دعا مانگتے ہوئے اپنی خواہش کا اظہار کر رہے تھے۔”اے اللہ مجھے آرزو ہے کہ ایک دن تیری ساری مخلوقات جتنے بھی ذی روح ہیں سب کی ضیافت کروں۔۔۔غیب سے ندا آئی کہ”اے سلیمان۔!! میں سب کو روزی پہنچاتا ہوں۔میری موجودات مخلوقات میں بے انتہا ہے اس لئے سب کو تم نہیں کھلا سکتے۔سلیمان علیہ السلام نے عرض کیااے میرے رب! تو نے مجھے بہت نعمتیں دی ہیں۔
تیری عنایت سے ہی سب کچھ ہے. اگر تیرا حکم ہو تو میں سب کا طعام تیار کروں۔۔!!”اللہ رب العزت کا حکم ہوا کہ دریا کے کنارے ایک عالی شان مکان بنواؤ اور اسے نہایت کشادہ رکھو تاکہ جس مخلوق کو دعوت دو وہ اس مکان میں با آسانی آ سکے۔”حکم خداوندی کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس عمارت کی تیاری شروع کروا دی جس کو مکمل ہونے میں تقریباً ایک سال اور آٹھ مہینے لگ گئے. میدان جیسے کشادہ اس مکان میں بہ افراط کھانے پینے کا سامان و اسباب مہیا کیا گیا۔۔!! کم و بیش بائیس ہزار گائیں ذبح کی گئیں اور بہت کثیر تعداد میں دیگیں پکائی گئیں۔
مشروبات کے تالاب تھے جن کی تیاری جنات سے کروائی گئی اور ایک پر تکلف قسم کی دعوت کا اہتمام کیا گیا۔۔!!جب ضیافت کی ساری تیاریاں مکمل ہو گئیں تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے سارے جہاں کی مخلوقات میں منادی کرا کے کھانے کے دعوت دے دی۔ ساری مخلوقات انسان۔ جن۔چرند۔پرند۔درندے، ہر طرح کے کیڑے مکوڑے۔ خشکی۔ تری اور ہوا میں اڑنے والے اور رینگنے والی بھی تمام مخلوق کھانے کی دعوت پہ آ پہنچے اور اس مکان میں جمع ہو گئے۔ اب سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالٰی کی عظمت اور قدرت کو دیکھنے کیلئے تمام جمع شدہ مخلوقات کا مشاہدہ کرنا چاہا۔
چنانچہ ہوا کو حکم دیا کہ تختِ سلیمان کو اٹھا کر دریا کے اوپر ہوا میں معلق رکھے تا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام ہر متنفس کو اپنی نظر سے دیکھیں اور اللہ کی قدرتِ کاملہ کا مشاہدہ کر سکیں۔سبحان اللہ!عین اس وقت جب تخت ہوا میں معلق تھا ایک مچھلی نے دریا میں سے سر نکالا اور سلیمان علیہ السلام سے بولی:”اے اللہ کے نبیّ! اللہ عزوجل نے مجھے آپکی طرف دعوت پہ بھیجا ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ نے آج تمام مخلوقات کے لئے کھانا تیار کیا ہے۔میں اس وقت بہت بھوکی ہوں لہذٰا آپ مجھے پہلے کھانا دے دیجئے “سلیمان علیہ السلام نے فرمایا”تم ذرا صبر کرو اور باقی سب کو بھی آ لینے دو۔
پھر ان کے ساتھ جتنا کھانا چاہو کھا لینا۔”وہ مچھلی بولی!”اے اللہ کے نبیّ میں خشکی پہ اتنی دیر نہیں ٹھہر سکوں گی کہ سب کا انتظار کروں۔۔۔۔”یہ سن کر سلیمان علیہ السلام نے اجازت دیتے ہوئے کہا!”اگر تمہارے لئے ٹھہرنا مشکل ہے تو پھر تم کھانا کھا لو اور جتنا تمہارا جی چاہے کھا لو۔”یہ سنتے ہی وہ مچھلی دریا سے نکل کر اس میدان نما مکان میں آئی اور جتنا کچھ کھانا وہاں پڑا تھا سارے کا سارا ایک ہی لقمے میں کھا گئی۔۔!! پھر سلیمان علیہ السلام کی طرف مڑی اور ان سے مزید کھانا مانگنے لگی۔یہ دیکھ کر سلیمان علیہ السلام متعجب ہوئے اور بولے;”اے مچھلی، میں نے تمام مخلوقات کے لئے یہ کھانا تیار کیا تھا جو تم نے ایک ہی نوالے میں کھا لیا۔
کیا اس سے بھی تیرا پیٹ نہیں بھرا جو تو اور کھانا مانگ رہی ہے۔؟؟مچھلی بولی:
“اے اللہ کے نبیّ! اللہ تعالٰی مجھے ہر روز تین لقمے رزق دیتا ہے۔اور جو کھانا آپ نے تیار کیا تھا وہ تو سب کا سب صرف ایک ہی لقمہ ہوا،اب مجھے دو لقمے مزید کھانا درکار ہے تب کہیں میرا پیٹ بھرے گا۔۔!!میں آج آپ کی مہمانی میں بھوکی رہی ہوں اور اگر آپ اسی طرح باقی مہمانوں (مخلوقات) کو بھی کھانا نہیں دے سکے تو آپ نے ناحق انہیں کھانے پہ بلوایا.”سلیمان علیہ السلام مچھلی کی یہ باتیں سن کر حیرت زدہ رہ گئے, چکرائے اور ان پر غشی طاری ہو گئی۔ پھر جب ہوش میں آئے تو ندامت سے سجدے میں گر پڑے اور روتے ہوئے کہنے لگے!!اے اللہ میں نے بہت ہی قصور کیا اور تیری درگاہ میں نادانی کی۔ میں نادان و مسکین ہوں اور اس بات سے ہمیشہ کے لئے توبہ کرتا ہوں۔۔۔ بیشک مجھے اور سارے جہان کو رزق دینے والاصرف تو ہی ہے۔
یہ صرف ایک قصہ نہیں ہے بلکہ عبرت اور نصیحت لینے کے لئے بہت بڑا سامان ہے۔جب اللہ تعالیٰ ہرایک پر مہربان ہے اس کے رزق کا بندوبست بہترین انداز میں کرسکتا ہے تو کیا وہ اشرف المخلوقات کو رزق دینے سے قاصر ہے، یہ وہ بات ہے وہ پکا عقیدہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں بہترین انداز میں ذہن نشین کرانے کی بار بار تاکید فرمائی ہے۔سورہ ھود میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:اور نہیں ہے کوئی بھی چلنے پھرنے والا (جاندار) زمین پر، مگر اس کا رزق اللہ کے ذمہ ہے»۔زمانہ جاہلیت میں لوگ تنگی رزق کے خوف سے اپنے بچوں تک کوقتل کیا کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے اس کی پر زور مذمت فرمائی اور کہا:اور اپنی اولاد کو تنگ دستی کے
ڈر سے قتل نہ کرو، ہم انہیں بھی رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی، بے شک ان کا قتل کرنا بڑا گناہ ہے۔
سورہ ذاریات میں فرمایا:اور تمہاری روزی آسمان میں ہے اور جو تم سے وعدہ کیا جاتا ہے۔
مطلب رزق کے فیصلے اللہ کے ہاں آسمان پر ہوتے ہیں،کسی کو کتنا ملے گا کب ملے گا یہ سب کچھ اللہ کے ہاں پہلے سے طے شدہ ہیں۔صادق و مصدوق رسول نے فرمایا: تم میں سے ہر آدمی اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن نطفے کی صورت میں رہتا ہے، پھر چالیس دن جمے ہوئے خون کی صورت میں رہتاہے،پھر اتنے ہی دن گوشت کے لوتھڑے کی صورت میں رہتا ہے، پھر فرشتہ کو بھیجا جاتا ہے، وہ اس میں روح پھونک دیتا ہے، پھر اس کو چار کلمات لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے، اس کا رزق، اس کی مدت حیات، اس کا عمل اور اس کا بد بخت یا نیک بخت ہونا لکھ دیا جاتاہے۔
(مسلم شریف)۔خالق کائنات اور اس کے رسول کی طرف سے ان واضح ارشادات کا بنیادی مقصد ہی یہی ہے کہ انسان حصول رزق میں ٹینشن نہ لے،نہ دباؤ میں آئے اور نہ ناجائز وسائل سے اپنی آمدنی میں اضافہ کرنے کے فکر میں مگن رہیں۔افسوس آج حضرت انسان نے کسب مال کے لئے کونسے غلط طریقے اختیار نہیں کیے ہیں، معیشت کا سسٹم بالکل غلط سمت کی طرف رواں ہے جس میں زیادہ کمائی کی خاطر جھوٹی قسمیں اٹھانا،فراڈ اور دھوکہ دہی، سود کی لعنت، بلیک مارکیٹنگ،چوری اور غصب،قتل اور اغواء کاری برائے تاوان، ڈیوٹی سے غیر حاضری،بددیانتی اور بے ایمانی، اور کیا کیا شامل نہیں ہیں جس نے معاشرے کو اندر سے کوکھلا بنادیا ہے۔